تحریر: دل مراد بلوچ
سیکریٹری جنرل بلوچ نیشنل موومنٹ
معروف غزل گو فنکار استاد منہاج مختار کے گھروں کو نشانہ بنانا ریاستِ اللہ داد پاکستان کے بنیادی فرائض میں شامل ہوچکا ہے ـ
استاد کے ہم جولی اور بچپن کے سہانے دور کے کتنے گھبرو جوان دوست دھرتی ماتا کی آزادی کے لیے اپنا سر دان کرچکے ہیں، مجھ میں ان کے تذکرے کا یارا نہیں رہا
اب تک استاد جی کے گھروں پر کتنے حملے ہوچکے ہیں، اس کی گنتی خود استاد کو بھی شاید یاد نہ ہو ـ پاکستان کو تاہم اپنا فرض اچھی طرح یاد ہے کہ ہر تھوڑے عرصے کے بعد اس فنکار کے اہلخانہ کو ہراساں کرنا اور گھروں کو ملیامیٹ کرنا ہے۔
بلوچ سخت جان ہے یا کرہ ارض پر بسیرا کرنے والے ہر انسان میں یہ خاصیت ہوتی ہے کہ جونہی قدرتی آفات یا کوئی “انسان” یا مملکتِ اللہ داد جیسی ریاست اس کا گھر تباہ یا نذرآتش کرتا ہے تو وہ ایک دفعہ پھر اٹھ کر اس راکھ سے نیا آشیانہ تعمیر کرتا ہے ـ استاد کا خاندان ہزاروں بلوچوں کی طرح سالوں سے یہی کرتا آرہا ہے ۔
اب شاید استاد کے گھر گرانے یا نذرآتش کرنے سے ریاستِ اللہ داد بھی تھک گیا ہوگا ـ مہان استاد کو زِچ کرنے کے لیے ریاست نے نیا وطیرہ اپنایا ہے ـ اب مملکتِ اللہ داد مہینے میں ایک بار اس مہان فنکار کو ضرور یاد کرتا ہے، گھر پر حملہ کرتا ہے ، اہلخانہ کر ہراساں کرتا ہے۔
اس سلسلے کی کڑی کے طور پر آج ایک بار پھر ریاست اللہ داد نے استاد کو یاد کرکے گھر پر سیدھا فائر کھول دیا اور گھر کا مرکزی دروازہ مملکتِ اللہ داد کے تیروں سے چھلنی ہوکر دائمی گواہ بننے کا اعزاز اپنے نام کرنے میں کامیاب ہوا، مبارک ہو
یہی وہ مرکزی دروازہ ہے جہاں سے استاد اپنی پیاری امی جان ماہ بی بی کو سالوں قبل الوداع کرکے نکلے تھے ، آج تک نہ پلٹے اورہنوزمایوسی کے کوکھ سے جنمے امید کے تعاقب میں چلتے ہی جارہے ہیں،یہی وہ مرکزی دروازہ ہے جہاں سے پیاری بہنا ‘انیسہ’ کے دولہا اور استاد کے کزن ‘عاصم فقیر ‘کوپاکستانی درندہ فوج نے اٹھاکر مہینوں اذیت دے دے کرشہادت کی تاج پہنائی، یہی تو وہ گھر ہے جہاں سے دلہن بن کر کونشقلات سدھاری بہن کے جوانسال نونہال لخت جگر اسرار عطا کوآدم خود پاکستانی فوج نے بے رحم تاریک زندانوں میں گُم کردیا ، ہزاروں بلوچ ماؤں کی طرح اسرار کی ماں انتظارکی بھٹی میں تپ رہی ہیں۔۔۔ یہی وہ مرکزی دروازہ ہے جہاں سے جلیل ایک تشنہ واھگ کی تکمیل کے لیے عشاق کے کاروان کا حصہ بن گئے اور خشک و گرم پہاڑوں کے باسی بنے۔۔۔یہی تو وہ دروازہ ہے جس کے پہلو سے استاد کے بچپن کے ساتھی ،دوست گبھرو جمیل نکل کر مزن بند کے باسی بن گئے پھر جب لوٹے تو سینہ چھلنی تھا ، سانسیں تھم چکی تھیں ـ جمیل سرزمین کا دلہا بن چکے تھے ـ یہی وہ مرکزی دروازہ ہے جس کے اوٹ سے جمیل کے چھوٹے بھائی دیار عشق کی سنگلاخ راہوں کا راہی بنے اور شہادت کا جھومر ماتھے پر سجاکر ہی واپس لوٹے ـ
تمپ کی تپتی گرمی میں ایستادہ مرکزی دروازہ گواہ ہے کہ کتنی بار پاکستانی افواج نے اسے پار کرکے مکینوں کے سائبانوں کو نذرآتش کیا ـ اس دروازے نے قاتل درندوں کے بوٹوں کی دھمک سنی ہوگی، مکینوں کو ہراساں ہوتے دیکھا ہوگا ـ
یہ دروازہ گواہ ہے کہ سیالکوٹی و جہلمی فوجیوں نے استاد کے لمہ جان ، شریکہ حیات اور بہنوں کی مقدس چادریں اپنے ناپاک بوٹوں تلے کب کب روندیں ـ
لیکن
خاندان کے متعدد گبھرو جوان دیش پر وارے گئے، گھر بار کئی بار لٹا ، ماں بہنوں کے مقدس آنچل فرعون دوراں کے ہاتھوں اُچھالے گئے ، سالوں کی جمع پونجی، ماں بہنوں کے زیورات سیالکوٹ کے کس ناپاک فوجی کے حصے میں آئے ـ استاد منہاج کو گویا اس کی فکر ہی نہیں ـ میوزک کے مورچے پر کھڑے لاغربدن سرمچار استاد سُر ہی بکھیر ہی رہے ہیں بلکہ سُر کے موتی بکھیر رہے ہیں ـ
بے گھر استاد جب ہارمونیم کے سامنے بیٹھ کر کوئی راگ چھیڑتے ہیں تو استاد آدم ذاد نہیں رہتے ـ بے جان باجا جیسے اپنے بچوں سے بچھڑی ہوئی کوئل بن جاتی ہے ـ ماحول ملکوتی اور سامع کسی اور دنیا کا باسی بن جاتا ہے ـ
“درد کے سوداگر” استاد کے الحان سُروں کے زیر و بم سے اس طرح گھل مل جاتے ہیں کہ انہیں جدا کرنا مشکل ہوجاتا ہے ـ
بازاری اور فرمائشی موسیقی سے کوسوں پَرے درد کے جزیرے کے ساکن استاد صرف درد گاتے ہیں جسے دنیا خواہ کوئی بھی نام دے ـ
درد جب ریاضت سے پختہ ہوتا ہے تو منہاج بن جاتا ہے اور منہاج جب راگ چھیڑتے ہیں تو درد بھی انگشت بدنداں رہ جاتا ہے کہ مجھ میں اتنا “درد”کہاں سے آیا ـ
میرا مملکت اللہ داد پاکستان کو عاجزانہ مشورہ ہے کہ اس فنکار کو چھیڑنے کا کوئی فائدہ نہیں ، ابھی تو یہ راگ بھیرویں، راگ یمن، راگ کلینج، راگ بگیشری، راگ بھیمپلسی جیسے “نرم”راگ گارہا ہے لیکن اس کا کوئی بھروسہ نہیں ، فنکار ہیں حساس تو ہوں گے ہی اگر تم نے اسے چھیڑنے کا سلسلہ بند نہیں کیا تو کیا عجب اک شام یہ فقیر استاد راگ دیپک چھیڑ دے اور دیپک کی آگ سے تمھارا سارا وجود ہی بھسم ہوجائے ـ