پادا بلوچ! پادا بلوچ۔عزیز سنگھور

گیارہ جولائی 2024 کو بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ کے ریڈ زون کے قریب لاپتہ ظہیر احمد بلوچ کی بازیابی کیلئے نکالی گئی ریلی پر پولیس اور سادہ لباس میں ملبوس افراد نے دھاوا بول دیا۔ خواتین اور بچوں تک کو نہیں چھوڑا گیا۔ ناصرف ان کے کپڑے پھاڑے گئے بلکہ ایک سادہ لباس اہلکار نے ہدایت دی کہ بلوچ خواتین کے کپڑے اتاردو، ان خواتین کے سروں سے دوپٹے چھینے گئے انہیں سڑکوں پر گھسیٹا گیا۔ بلوچ خواتین کو بالوں سے گھسیٹا گیا ،ان پر ڈنڈے برسائے گئے اور انہیں تھپڑمارے گئے۔ بعد میں انہیں پولیس موبائلوں میں ڈال دیا گیا۔

پھر بھی حکومت کا دل نہیں بھرا تو فائرنگ اور شیلینگ کرکے متعدد مظاہرین کو شدید زخمی کردیا جنہیں بعدازاں اسپتال منتقل کردیا گیا جبکہ چالیس سے زائد مظاہرین کو گرفتار بھی کیا گیا۔ گرفتار ہونے والے مظاہرین میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی بھی تھی۔
مظاہرین کی قیادت کرنے والی رہنما کامریڈ بیبو بلوچ، فوزیہ بلوچ اور دیگر خواتین کو زخمی حالت میں حراست میں لے لیا گیا تھا۔ اس دوران کچھ زخمی خواتین بے ہوش بھی ہوئیں۔ بلوچ فار مسنگ پرسنز کی رہنما کامریڈ حوران بلوچ، تربت سول سوسائٹی کے کنوینئر گلزار دوست سمیت دیگر مظاہرین شدید زخمی ہوکر بے ہوش ہوئے۔

ظہیر احمد کو 27 جون 2024 کو کوئٹہ سے غیر قانونی حراست میں لینے کے بعد جبری طور پر لاپتہ کیا گیا تھا وہ پاکستان پوسٹ آفس میں سرکاری ملازم ہے جبکہ ان کا تعلق بلوچستان کے ضلع نوشکی سے ہے۔

مظاہرین کا کہنا ہے کہ ظہیر احمد کو سی ٹی ڈی نے لاپتہ کیا ہے جبری گمشدگی کیخلاف ایف آئی آر درج کی جائے اور دوسرا مطالبہ یہی ہے کہ ظہیر احمد کو عدالت میں پیش کیا جائے۔ جب تک ظہیر احمد کو عدالت میں پیش نہیں کیا جاتا۔ ان کا دھرنا اور احتجاج کا سلسلہ جا ری رہیگا۔

پرامن مظاہرین پر لاٹھی چارج کرنے کے بعد بلوچ یکجہتی کمیٹی کی مرکزی رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے بلوچ قوم سے اپیل کی کہ وہ مظاہرین کی مدد کے لئے گھروں سے نکل کر ان کا کندھا بنیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں لوگوں کا ہجوم سریاب روڈ پر جمع ہوا اور ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی قیادت میں رات کو ریڈ زون کی جانب مارچ کیا گیا۔ عوام کے اس سیلاب نے پولیس اور نامعلوم نقاب پوش انتظامیہ کو پیچھے دھکیل دیا جبکہ اس دوران وہ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے طاقت کا استعمال کررہے تھے۔ پولیس اور نامعلوم نقاب پوشوں کی جانب سے فائرنگ اور شیلنگ کا سلسلہ جاری رہا تاہم ڈاکٹر ماہ رنگ کا قافلہ کوئٹہ میں سیکرٹریٹ ایدھی چوک پر پہنچنے میں کامیاب ہوئے اور اپنا دھرنا جاری رکھا۔ اس سے قبل بھی دس دنوں تک سریاب روڈ پر لواحقین کی جانب سے دھرنا دیا گیا تھا۔

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا کہنا ہے کہ جبری طور پر گمشدہ ظہیر احمد بلوچ کی بازیابی اور ہمارے گرفتار دوستوں کی رہائی تک دھرنا سیکرٹریٹ ایدھی چوک میں جاری رہیگا۔ سب بلوچ عوام اور ہمارے خیر خواہ دھرنے کی جگہ پہنچ جائیں، جب تک ہمارے مطالبات پورے نہیں کیے جاتے ہماری مزاحمت جاری رہے گی۔

بارہ جولائی کو پولیس نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے سرگرم ارکان بیبگر بلوچ اور فیضان کو گرفتار کرکے انہیں سول لائن تھانہ لے گئے۔

بیبرگ بلوچ ایک باہمت سیاسی سوچ کے مالک ہیں۔ سنہ 2010 میں خضدار میں وہ سرکاری حمایت یافتہ ڈیتھ اسکواڈ کی جانب سے "بلوچ کلچر ڈے” کے موقع پر ایک دھماکے میں شدید زخمی ہوئے تھے۔ جس سے ان کی ریڑھ کی ہڈی کو شدید نقصان پہنچا تھا جس کی وجہ سے وہ چل نہیں سکتےاور وہ وہیل چیئر استعمال کرتے ہیں۔ پولیس نے انہیں وہیل چیئر سمیت گرفتار کرلیا وہ مکران سے تعلق رکھنے والے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما کامریڈ وسیم سفر کی طرح ایک باصلاحیت اور جرات مند شخصیت کے مالک ہیں۔ دونوں وہیل چیئر کا استعمال کرتے ہیں جبکہ ان کی سوچ و فکر اتنی طاقتور ہے کہ ان کے سامنے حکومتی ادارے کانپنے لگتے ہیں۔

جب بھی بلوچستان میں حکومتیں بنتی ہیں۔ ان حکومتوں کی کابینہ میں سر سے لے کر پاؤں تک نواب اور سردار ملیں گے۔ ان کٹھ پتلی حکومتوں کے دوران لاپتہ افراد اور مسخ شدہ لاشوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اور دنیا کو یہ باور کروایا جاتا ہے کہ بلوچستان میں حکمران پنجابی نہیں بلکہ بلوچ خود ہیں۔ بلوچستان میں”طبقاتی جبر” کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ بلوچستان میں طبقاتی جبر اپنے عروج پر ہے۔ آج بلوچستان میں کلاس (طبقہ) ایک بڑا مسئلہ ہے۔

بلوچ تحریک کو بیک وقت دو محاذوں کا سامنا ہے۔ ایک طبقائی جبر اور دوسرا قومی جبر ہے۔ یہ پورا ایک”اشرافیہ” کا سرکل ہے۔ سردار اور پنجابی سرکار کے مفادات مشترکہ ہیں۔ بلوچستان کے ساحل و وسائل پر اشرافیہ کا قبضہ ہے۔ غریب، غریب تر اور امیر، امیر تر ہوتا جارہا ہے۔
گیارہ جولائی کو کوئٹہ میں سرعام بلوچ خواتین پر بد ترین تشدد کیا جارہا تھا تو بلوچستان حکومت میں شامل سارے سردار، نواب، میر اور معتبر حکومتی اداروں کی حمایت کررہے تھے۔ جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ سردار اور نواب کو عام بلوچ سے کوئی واسطہ ہے اور نہ ہی انہیں بلوچی ننگ و ناموس سے کوئی مطلب ہے۔ اگر انہیں کوئی مطلب ہے تو وہ صرف اقتدار کا حصول ہے اور اس حصول کے لئے انہیں پنجابی حکمرانوں کے تلوے چاٹنا پڑ رہےہیں۔

ویسے بھی بلوچ قوم کو ان سردار اور نوابوں کی ضرورت نہیں ہے۔ بلوچ قوم نے اپنا سردار ڈاکٹر ماہ رنگ، سمی دین، ڈاکٹر صبیحہ اور کامریڈ بیبو کو چنا ہے اور ان کی قیادت میں پوری قوم منظم ہے جبکہ کامریڈ بیبرگ اور کامریڈ وسیم سفر اپنے وہیل چیئرز کے ساتھ ان کے ہمراہ ہیں۔ اب اس قافلے کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی ہے۔ اس قافلے کا ایک ہی نعرہ ہے ” تئی لوگ بُن انت تئی شھر بُن انت، پادا بلوچ پادا بلوچ”، اور یہ اسی کے ساتھ آگے کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اس قافلے کا مقصد 1948 سے قبل کے بلوچستان کا حصول ہے۔

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

Next Post

بلوچ ماؤں بہنوں کی تذلیل سے بلوچستان کے امن کا خواب کبھی پورا نہیں ہوگا – محمود خان اچکزئی

ہفتہ جولائی 13 , 2024
بلوچ خواتین اور ریلی پرپولیس کی تشدد لاٹھی چارج آنسو گیس اور فائرنگ کا مزمت کرتے ہیں۔ یہ بات تحریک تحفظ آئین پاکستان کے مرکزی صدر و پشتونخواملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے جاری پیغام میں کیاہے ۔ انھوں نے کہاہے کہ بلوچ پر امن خواتین اور […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ