تربت۔ اگر جبری لاپتہ حیات سبزل کو بازیاب نہ کیا گیا تو تین دن بعد احتجاج کی طرف جائیں گے، ضلع انتظامیہ نے ایک طرف جے آئی ٹی بنائی اور اجلاس کررہے ہیں دوسری جانب جبری گمشدگی کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے جو قابل قبول نہیں ہے۔ ان خیالات کا اظہار بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی رہنما صبغت اللہ شاہ جی اور حق دو تحریک کیچ کے سربراہ حاجی ناصر پلیزئی نے لاپتہ محمد حیات ولد سبزل کے لواحقین کے ہمراہ گزشتہ شام تربت پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہاکہ محمد حیات ولد سبزل کو 3 جولائی شام 6 بجے میری بگ میں مین روڑ پر سروس اسٹیشن سے مسلح افراد جو کالے شیشوں والی گاڑی میں سوار افراد تھے نے اسلحہ کے زور پر اغوا کرکے لاپتہ کردیا جس کے چشم دید گواہ موجود ہیں۔ اس دوران ہم نے ڈی پی او،ڈی سی،اے ڈی سی اور دیگر انتظامی افسران سے رابطہ کیاہےلیکن ابھی تک ہمیں تسلی بخش جواب نہیں دی جارہی ہے۔
انہوں نے مزید کہاکہ محمد حیات ولد سبزل کو ایک سال قبل ہمارے اداروں نے طلب کیا تھا بے گناہ ہونے پر دوبارہ چھوڑ دیا۔ اگر بلاتے ہم خود حاضر ہوتے اور اسے متعلقہ اداروں کے سامنے پیش کرتے انہیں جبری طورپر لاپتہ کرنا زیادتی ہے۔ زاتی اختلافات کی بنیاد پر مسلح جتھوں کے کہنے پر یا ان کے زریعے لوگوں کو اٹھانا شہریوں کے ساتھ ناروا سلوک ہے اور اس سے مزید نفرتیں جنم لیں گے یہ سلسلہ ترک کرنا چاہیے انہوں نے کہا کہ اگر حیات سبزل کو بازیاب نہیں کیا گیا تو مجبوراً تین دنوں کے بعد احتجاج کی جانب جائیں گے۔
انہوں نے آخر میں کہا کہ جبری گمشدگی کے خلاف ایک جانب ضلعی انتظامیہ نے جے آئی ٹی بنارکھی ہے جس میں جبری گمشدہ افراد کے اہل خانہ سماجی کارکن اور قانون نافذ کرنے والے ادارے شامل ہیں جو ایسے واقعات کے تدارک کے لیے اجلاس وغیرہ کررہے ہیں جب کہ دوسری طرف جبری گمشدگی کا سلسلہ جاری رکھا گیا ہے جو یہ ثابت کرتی ہے کہ یا تو ضلع انتظامیہ بے بس ہے یا جان بوجھ کر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے پرامن احتجاج کو چالاکی سے سبوتاژ کرنا چاہتی ہے یہ دوغلی پالیسی ہے جو ہمیں کسی صورت میں قبول نہیں ہے حکومت کو. سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔