جبری گمشدگیوں کے خلاف جاری احتجاجی کیمپ کو 5498 دن ہوگئے ۔
اظہار یکجہتی کرنے والوں میں خاران سے سیاسی اور سماجی کارکنان نزیر احمد بلوچ،غلام محمد بلوچ سمیت مرد اور خواتین نے کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ ریاست عوام کے اندر انتشار اور تضاد پیدا کرتی رہتی ہے۔ لوگوں کو جمع ہونے نہیں دیتی اور اگر ہونے دیتی بھی ہے تو صرف جھکنے کے لیے۔اس لیے قابض فوج،ریاستی فورسز،خفیہ ادارے پورے بلوچ قوم کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔بلوچستان کے مختلف علاقوں سے بلوچوں کو لاپتہ کرنا روز کا معمول بن چکا ہے۔
کوہستان مری،کوہلو،کاہان،مچھ،بولان
،مکران،خضدار،قلات،جوعان گردونواح کے شہر دیہاتوں میں آہے روز فوج کشی شہری آبادیوں پر فضائی بمباری کی جاتی ہے۔درجنوں کے حساب سے بلوچ نوجوان،بزرگوں کو شہید کیا جاتا ہے یا پھر اپنے ساتھ لے جاکر لاپتہ کیا جاتا ہے۔بلوچ تحریک کی راہ میں جدوجہد کرنے والے عام انسان نہیں ہوتے وہ عظیم ہوتے ہیں۔ماما قدیر نے کہا کہ امن کا گہوارہ سرسبز و شاداب گیت گاتے سنگلاخ پہاڑوں کی سرزمین بلوچستان جس کی رعنائیوں میں ہر وقت کھونے کو جی کرتا ہے جس کے پہاڑ جب سفید چادر اوڑھتے ہیں تو حسن کی دیویاں شرما کر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوتے ہیں لیکن ان سب خوبیوں کی ملکہ آج خون میں لت پت قتل و غارت اور ظلم و ستم کے ہچکولے کھانے پر مجبور کیوں ہے؟ آج اس وادی بہاراں میں خزاں کو زبردستی دھکیلنے اور یہ حالات پیدا کرنے والے کون ہیں؟ اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں ذرا ماضی میں جھانکنا ہوگا کہ آیا ماضی میں یہی حالات تھے۔
یقیناً آپ جان چکے ہوں گے کہ بلوچستان کے حالات کو اس دوراہے پر لاکھڑا کرنے میں کن کا حصہ ہے جن کے گناہوں کا خمیازہ پوری سرزمین بلوچستان اور اس کے باسی بھگتنے پر مجبور ہیں۔بلوچ خون اب سب سے سستا ہوچکا ہے۔ہر طرف خون ہی خون بہایا جارہا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ بلوچستان کی حالات اس حد تک لانے میں خود حکمران ملوث رہیں ہیں کیونکہ کہ بلوچ خون بہانے والی یہ قوتیں آج بلوچ کو اٹھتے بیٹھتے خود کو بلوچوں کا ہمدرد ظاہر کرنے پر تلی ہوئی ہیں مگر شاید ان کو پتہ نہیں ہے کہ اب بلوچ کو دوست دشمن کی پہچان اچھی طرح ہوچکی ہے۔