جبری گمشدگیوں کے خلاف جاری احتجاجی کیمپ کو 5493 دن ہوگئے۔
اظہار یکجہتی کرنے والوں میں بی این ایم کے سابقہ چیئرمین عصاء ظفر بلوچ، بی ایس او کے مرکزی جنرل سیکرٹری صمند بلوچ، عامر بلوچ حاجی عظیم جتک اور دیگر نے کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی۔
دوسری جانب وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز وی بی ایم پی کے وائس چئیرمین ماما قدیر بلوچ نے جاری بیان میں کہا ہےکہ تربت پنجگور مشکے آواران سمیت بلوچستان بھر میں قابض فوج کی بربریت شدت اختیار کرتا جارہا ہے. گزشتہ روز قلات اسکلکو میں الاصبح قابض فوج نے علاقوں کو محاصرے میں لیکر دہشتگردانہ کاروائی کا آغاز کردیا آبادیوں پر ہیلی کاپٹروں سے بمباری کی گئی دو ہفتہ پہلے تربت اور بلیدہ علاقے میں قابض فوج اور زرخرید ڈیتھ اسکواڈ کی بلوچ عوام کے دہشتگردانہ کارروائیوں کے تسلسل میں گزشتہ روز گھروں پر حملہ کیا گیا جس دوران قابض فوج موجود افراد کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا اور کئی لوگوں کو جبری لاپتہ کرکے اپنے ساتھ لے گئے۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا ہےکہ آج تک انسانی حقوق اور دیگر عالمی قوانین سے بلوچستان ماورہ رکھا گیا ہے وسیع پیمانے پر انسانی اور عالمی قوانین کی پامالیاں آج ریکارڈ پر آچکی ہیں. لیکن اقوام متحدہ سمیت انسانی حقوق کے دعوے دار کسی بھی ادارے نے بلوچستان میں جاری اس درندگی اور انسانی حقوق کے پامالی کو قابل تدارک نہ سمجھا. بلوچستان کی صورت حال عالمی اداروں اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے اداروں اعلامیوں اور عالمی قوانین پر سوالیہ نشان ہے.پاکستان عالمی دنیا کے خاموشی دیکھ کر بلوچ نسل کشی کی پالیسیوں کو بلا روک ٹوک جاری رکھے ہوئے ہیں.
انھوں نے کہاہے کہ قومی تحریک کے خلاف مارو اور پھینک دو کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے پاکستان نے چند سالوں میں ہزاروں بلوچ فرزندوں کو جبری اغوا کرنے کے بعد شہید کیا اور لاشوں کو مسخ کرکے پھینک دیا لیکن عالمی اداروں اور انسانی حقوق کے دعوی دار ملکوں کی جانب سے کوئ بھی قابل ذکر اقدام دکھائی نہ دی جس سے شہ پاتے ہوئے پاکستان نے بلوچستان کے کونے کونے میں اپنی اپنی دہشتگردانہ پالیسیوں کو تیز کرتے ہوئے بلوچ آبادیوں پر حملوں کا نہ رکھنے والا سلسلہ شروع کردیا ہے….