28 مئی 1998 وہ دن ہے جو تاریخ میں دو طرح سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس کے یاد کیے جانے کہ وجہ ایک ہے لیکن نظریے دو۔ ایک حاکم کا نظریہ اور دوسری محکوم کا نظریہ۔ حاکم (ریاست پاکستان ) اس دن کو یوم تکبیر کے نام سے یاد کرتی ہے دوسری جانب محکوم (بلوچ قوم) اس دن کو یوم آسروخ (یوم سیاہ) کے نام سے یاد کرتی ہے۔ دراصل تاریخ میں اس بات کو کئی جگہ دیکھا اور محسوس کیا گیا ہے کہ محکوم کے برے دن کو حاکم اپنے لیے اچھا سمجھتا ہے ۔
اور یہیں سائکی ھمیں بلوچستان میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔
28 مئی 1998 وہ یوم ہے جب ریاست پاکستان نے راسکو میں کوہ کمبران پر پانچ ایٹمی دھماکے کیے اور چاغی کے دلبند کو ایک شاداب زمین سے ویران زمین میں تبدیل کردیا۔ اس دن چاغی میں وہ قیامت برپا ہوئی جس کے بعد سے چاغی میں کبھی زندگی اس طرح نہ ہو سکی جیسے پہلے ہوا کرتی تھی۔ اس دن کوہ کمبران پر پانچ دھماکوں نے نہ صرف چاغی کو بلکہ پورے بلوچستان کو ایک سوگ گاہ میں تبدیل کردیا۔ پورے بلوچستان کی خوشیاں چند لمحوں میں اشکوں میں بدل گئے۔
28 مئی اور 30 مئی کو چاغی کوڈ_1 چاغی کوڈ_2 کے نام سے چاغی کے مقام پر جو دھماکے کیے گیے ان کے بدلے بلوچ قوم کو صرف بیماریاں اور دکھ ملے ہیں۔ ان دھماکوں کے بدلے ترقی تو کیا چاغی میں ایک ہسپتال بھی نہ دیا گیا۔
چاغی کوڈ _1 میں زیادہ تر آلات چین سے لائے گئے تھے۔ ان دھامکوں کی تیاری 20 برس پہلے سے یعنی کے زلفقار بھٹو کے دور سے کی جارہی تھی لیکن جب بھارت نے پوکھران میں نیوکلیر ٹیسٹ کیے تو ریاست پاکستان نے چاغی پر نیوکلئیر ٹیسٹ کرنے کا فیصلہ گیا اور بلوچستان کے علاقے چاغی کو تباہ کردیا۔
ان ایٹمی دھماکوں میں زیادہ تر استعمال یورینیم _235 کا ہوا ہے جو کہ ایک بہت زیادہ خطرناک ریڈیو ایکٹو ایلیمنٹ ہے۔ اس ایلیمنٹ سے ایسی شعائیں خارج ہوتی ہیں جو چند سیکنڈ میں کسی بھی چیز کو تباہ کرنے کی طاقت رکھتی ہیں۔اس کے علاوہ اس ایلیمنٹ کے اثرات بہت طویل عرصے تک رہتی ہیں۔ آج تک چاغی میں ان دھماکوں کے اثرات کئی بیماریوں کے شکل میں دیکھے جارہے ہیں۔ یورینیم جس کی وجہ سے پاکستان ایٹمی قوت بنا وہ بھی بلوچستان کے علاقے کوہ سلیمان سے نکالا جاتا ہے۔
28 مئی کے دھماکوں کے بعد سے چاغی میں گرمی کی شدت آسمان سے باتیں کرنے لگا۔ بارشیں رک گئیں۔ پانی نہ ھونے کی وجہ سے جانور انسان تمام اپنے جانیں گنوا بیٹھے۔ گھر اجڑ گئے لوگ اپنے گھروں سے در بہ در کیے گیے۔ دھماکوں کی درجہ حرارت اتنی زیادہ تھی کہ چاغی ایک سیاہ پتھر بن گئی۔ چاغی جو کبھی گواڑخ اُگاتی تھی آج اس پر ایک بوٹا بھی نہیں اُگتا۔ یہ تمام اثرات ان دھماکوں کی ہیں۔
غمخوار حیات کے کتاب "سریچک” میں وہ راسکوہ کا حال کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں :
” گوستگیں بہار گاہ ءَ من ءُ منی لچہ کاریں سنگتے راسکوہ ءِ نیمگا گواڑگ ءِ چنگ ءَ شُت اِیں۔
راسکوہ ءَ مارا دیست گڑا جست ئے کُت ” ورناہاں چے کنگ ءَ اِت ؟”
ما پسہ دات ” گواڑگ شوھازگ ءَ اِیں پہ وتی ماھگونگانی ھاتر ءَ بریں۔”
راسکوہ ءَ کندان ءَ گُشت ” شما شائر اجبیں گنوک اِت کہ اشکر ءُ ھنگرانی تہ ءَ ھم پُل ءُ گواڑگ شوھاز کنگ ءَ اِت "
ان دھماکوں کی وجہ سے نہ صرف چاغی میں بلکہ پورے بلوچستان میں کئی وبا پھیلنے لگے۔ ان میں جلد کینسر آنکھوں کا کینسر کروموسومل وبائیں انسانی جینز میں تبدیلیاں آنے لگی جس کی وجہ سے کئی ابنارمل بچے جنم لینے لگے۔ ان دھماکوں کے اثرات مال مویشیوں پر بھی نظر آنے لگے۔
عالمی سطح پر زیادہ تر نیوکلیئر ٹیسٹ آبادیوں سے دور ریگستانوں اور ویران جگہوں میں زیر زمین کیے جاتے ہیں کیونکہ نیوکلیر ٹیسٹ کے جو اثرات ہیں وہ نظرانداز نہیں کیے جا سکتے جبکہ ریاست پاکستان نے راسکوہ جہاں سے آبادی بہت نزدیک تھی پر پانچ ایٹمی دھماکے کیے اور اس بات کو واضح کیا کہ ریاست نےھمیشہ بلوچستان کے وسائل کے بارے میں سوچا ہے نہ کہ بلوچ قوم کے لیے۔
28 مئی کے نیوکلیر ٹیسٹس نواز شریف اور ڈاکٹر عبدلقدیر خان کے زیر قیادت ہوئی۔ جب 28 مئی کو وقت 3:15 پر چاغی کے دلبند کو جلایا گیا تو حاکم کی طرف سے نعرہ تکبیر کے نعرے گونجنے لگے۔ ان نعروں میں بلوچ قوم کے کچھ ضمیر فروش لوگ جیسے اختر مینگل بھی شامل تھے۔ انہوں نے اپنے سرزمین کو کچھ پیسوں کے لیے جلانے کا فیصلہ کیا اور دشمن کےخوشی میں خوش ہونے کا فیصلہ کیا۔
دوسری طرف بلوچ قوم پر غم کے بادل برسنے لگے۔ بلوچ قوم کے لیے یہ دن یوم سیاہ (یوم آسروخ) ثابت ہوئی کیونکہ اس دن بلوچوں کی سرزمین آگ میں جل رہی تھی اور بلوچ قوم کچھ نہ کر پائی۔ تاہم اس کے بعد قوم نے خواب غفلت سے اٹھنا مثبت سمجھا اور خود کی سرزمین کی حفاظت کے لیے مزاحمت کی راہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ بلوچ قوم نے اس دن سے دشمن کے خوف کو دل سے ختم کرنے اور اپنی قوم اور سرزمین پر جان کربان کرنے کا فیصلہ کیا۔
ریاست پاکستان بلوچ قوم کی نسل کشی کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے ۔کیونکہ وہ اس بات سے واقف ہے جب تک بلوچ قوم ہے بلوچستان کے وسائل زمین سمندر سب سلامت ہیں۔
اس لیے ریاست نے ھر بار نئی ٹیکٹس کے زریعے بلوچ نسل کشی کرنی چاہی وہ چاغی میں ایٹمی دھماکے ہوں یا پھر کوہ سلیمان سے یورینیم نکال کر کینسر جیسے وبا کو پھیلانا یا پھر سرعام گولیاں مار کر شہیدکرنا ہو۔
اس ریاست کی بنیاد بلوچستان پر منحصر ہے ۔کیونکہ سی پیک ۔ ریکوڈیک ۔ سیندک جیسے بڑے پروجکٹ بلوچستان میں بنائے جارہی ہیں اس کے علاوہ تیل ۔گیس کوئلہ بھی بلوچستان سے دریافت ہورہا ہے۔ یورینیم جس کی وجہ سے آج پاکستان کو ساتواں ایٹمی ملک بنایا گیا ہے وہ بھی بلوچستان کے علاوے کوہ سلیمان سے دریافت ہوتا ہے۔
یوم آسروخ 28 30 مئی بلوچ قوم کے لیے قیامت خیز دن ثابت ہوا۔ جس کی وجہ سے آج بھی پورا بلوچستان کینسر جیسی بیماریوں سے لڑ رہا ہے۔