بلوچستان اور اس منطقہ کے دوسرے ممالک سے برطانیہ کی 1947 میں نکلنے کے وقت بلوچستان اُس وقت آزاد تو ہوا لیکن خان قلات اور خاران، لسبیلہ و کیچ کے سرداروں کے آپس کی چپکلش اور نااتفاقی کی وجہ سے بلوچ اپنے آزادی سے جلد ہاتھ دھو بیٹھے۔ برطانیہ کے ایما و مشورے پر پاکستان نے 1948 میں بلوچستان پر جبری قبضہ جمایا۔ انکے اِسی نااتفاقی نے بلوچ قوم کو زیردستی اور غلامی کے دلدل میں گردن تک غرق کردیا۔ اُسی دن سے بلوچ قوم ہنوز اپنی آزادی دوبارہ حاصل کرنے کے لئے تگ و دو کررہی ہے۔ آزادی کی یہ تحریک بہت سے نشیب و فراز سے ہوکر، سرد اور گرم حالات کا سامنا کرتے ہوئے منزل کی جانب رواں ہے۔ یہ پہلی دفعہ ہیکہ گزشتہ 24 سالوں سے آزادی کی تحریک نے جدوجہد کے تمام محاذوں اور میدان پر مسلسل شیرازہ بندی کے ساتھ منزل کی جانب گامزن ہے۔ جدوجہد کا جمہوری، سیاسی اور سفارتی میدان ہو یا انسانی حقوق اور آذادی کے تحفظ کیلئے چیخ و پکار، قلمکاری، خبر و حال کاری (میڈیا) کے جدید پلیٹ فارمز کو آزادی کے مقصد کے لئے ذریعہ بنانے کی کاوشیں ہوں یا کہ دشمن کے طاقت اور قوت کو توڑنے کیلئے مسلح جدوجہد ہو، بلوچ قوم اپنی آذادی کے لئے ہر محاذ پر کمر بستہ تگ و دو کرتے ہوئے نظر آتی ہے۔ بلوچ قومی آذادی میں روانی اور شیرازہ بندی دکھائی دیتا ہے۔ آج بلوچ قومی آزادی کیلئے ہر محاذ پر بڑے پیمانے پر کام ہورہا ہے۔ بلوچ تحریک آزادی بڑی حد تک علاقائی اور قبائلی قید و بند کو توڑتے ہوئے قومی رنگ میں رنگ گئی ہے۔ اس جدوجہد میں ایسے کئی مواقع آئے ہیں کہ کوئٹہ سے لیکر کراچی، چاغی، رخشان، مکران اور کچھی سے لیکر ڈیرہ غازی خان و تونسہ تک بلوچوں نے بڑے پیمانے پر پاکستان کے ریاستی مظالم اور جبر کے خلاف آواز بلند کی ہے، ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے اور ہم قدم ہوتے ہوئے ایک دوسرے کی آواز بنے ہیں، یکساں اپنے غصے اور نفرت کا مظاہرہ کیا ہے۔ سچی بات تو یہ ہیکہ ریاستی اور انتظامی حدود و حاشیہ سے بالاتر ہوکر باہر ان حدود سے باہر بیٹھے بلوچوں نے بھی پاکستانی مظالم اور جبر کو روکنے لئے ان مواقع پر اپنے قوم کے ساتھ آواز اٹھاتے اور شانہ بشانہ کھڑے دشمن کو لعنت و ملامت کرتے ہوئے دکھائی دیئے ہیں۔ایک طرف اگر سرمچاروں نے پاکستان کے لئے زمین کو گرم توا بنا دیا ہے تو دوسری طرف جمہوری، سفارتکاری، میڈیا، نوشتکاری اور انسانی حقوق و آزادیوں کی تحفظ کے میدان پر کام کرنے کے لئے کمربستہ بلوچ رہنما، تنظیم و گروہ، جہدکار اور قلمکار بھی جہان کو بیدار کرنے اور بلوچ قوم و قومی آزادی کی تحریک کے حوالے سے آگاہی دینے، دوست اور ہمدرد بنانے کی غرض سے انتھک کوششیں کررہی ہیں۔ جدوجہد کی صحت اور کامیابی، قومی جذبے اور حوصلے کو بڑھانے، آزادی کی تحریک میں عام بلوچوں کو بڑی تعداد میں ساتھ ملانے کے لئے بھی مختلف ذرائع پر کام ہورہا ہے۔
یہ حقیقت ہیکہ جدوجہد کے تمام محاذوں پر کام کرنے والے گروہ ایک فطری طور پر سیک دوسرے کے لئے معاون، ایک دوسرے کے دست و بازو ہیں۔ ان میں سے ہر کسی کی راہ الگ لیکن منزل ایک ہے۔ پھر بھی اکثر میں دیکھتا ہوں کہ تحریک کے مختلف محاذوں پر کام کرنے والےکچھ تنظیم اور لوگ جدوجہد کے اپنے محاذ اور سرگرمیوں کو پوری تحریک تصور کرنے کی غلطی کرتے ہیں۔ وہ جدوجہد میں اپنے محاذ اور سرگرمیوں کو تحریک آزادی کے دوسرے محاذ اور سرگرمیوں سے موازنہ بھی کرتے ہیں، ان کی اہمیت کو گھٹاتے اور کمتر بتاتے ہیں۔میں نہیں جانتا کہ تحریک آزادی کی کامیابی کے لئے جدوجہد میں اپنے محاذ کے سرگرمیوں کی ضرورت، اہمیت اور کردار کو سمجھانے کی کوشش میں وہ گفتگو میں توازن نہیں رکھ پاتے، غیر ارادی طور پر مختلف محاذوں کی سرگرمیوں کا موازنہ کرتے ہیں، دوسروں کو غیر اہم گردانتے ہیں، تحریک میں انکی ضرورت ، کردار اور حیثیت کو کمتر لکھتے ہیں یا انکا سیاسی و فکری نظریات، عقیدہ اور یقین ایسا ہے؟ وجہ کچھ بھی ہو لیکن اسطرح کی باتیں ، یہ نظریات و فکر تحریک آزادی کے لئے صحت مند اور مفید نہیں ہیں۔ یہ باتیں تحریک آزادی میں مختلف محاذوں پر کام کرنے والے تنظیموں کے مابین ایک دوسرے کے ساتھ بے انتہا تضاد، دوری اور بٹوارے کا سبب بنتی ہیں، انہیں ایک دوسرے کے مد مقابل لاکر کھڑا کردیتی ہیں۔ اسطرح کی باتیں اور رویہ، سوچ و نظریہ تحریک آزادی میں اتحاد و یکجہتی کے عمل نقصان پہنچاتی اور کمزور کرتی ہیں۔
جدوجہد میں ایک محاذ کی کامیابی دوسرے محاذوں کی کامیابی کے راستے کو صاف اور ہموار کرتی ہے، نہ کہ راستے پر خار لگا دیتی ہے۔ سیاست اور جدوجہد کے بارے میں معمولی فہم رکھنے والا انسان بھی جدوجہد کے مختلف محاذوں پر کام کی ضرورت، اہمیت اور کردار کو سمجھتا ہے۔ مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ پھر اسطرح کی باتیں اور بحث و مباحث کیوں سر اٹھاتی ہیں۔اسی طرح کی ایک بحث حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر ایک بار پھر سر اٹھا چکی ہے جس کی شروعات 24 اپریل 2024 کے دن رزاق سربازی نام کے ایک بلوچ صحافی نے اپنے ایک تحریر میں کیا تھا۔ وہ بی ایل اے کے سربراہ بشیر زیب بلوچ کے ساتھ اپنے پہلے ملاقات کو یاد کرتے ہوئے طنز و مذاق کے انداز میں بشیر جان کے واسکٹ اور ظاہری حلیے کے بارے میں کچھ لکھتے ہیں۔ میرا خیال ہیکہ جدوجہد میں کسی کی پوشاک، شخصی طبع اور حلیہ اہمیت نہیں رکھتا، اہمیت تو ہر انسان کے کردار کی ہے۔ اس نے اپنی بات کماش بشیر زیب کے واسکٹ سے شروع کی ہے اور بلوچ تحریک آزادی کی مسلح محاذ کا انسانی حقوق کے میدان سے موازنہ پر ختم کیا ہے۔ سربازی نے اپنے تحریر میں ایک طرف انسانی حقوق کے محاذ پر ہونے والے سرگرمیوں اور انہیں سرانجام دینے والے کچھ رہنماؤں کی تعریف و توصیف کی ہے (صحیح کام اور کام کرنے والوں کی ستائش، تعریف و توصیف ایک اچھی بات ہے جس سے ان کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور ان میں کام کرنے کا جزبہ، ہمت اور حوصلہ مزید بڑھتا ہے) دوسری جانب تحریک آزادی کے مسلح محاذ، اسکے سرگرمیوں، کامیابیوں، قربانیوں، جدوجہد کی اہمیت اور کردار کو گھٹا کر دکھایا ہے۔میں نہیں جانتا کہ واجہ سربازی بلوچ قومی تحریک کے کاز سے کتنا جڑے اور کمیٹڈ ہیں یا نہیں ہیں لیکن یہ جانتا ہوں کہ بلوچ تحریک اور مسلح بلوچ تنظیموں کا بنیادی مقصد حصولِ آزادی ہے۔ انسانی حقوق اور آزادیوں کی پامالی کے خلاف جدوجہد اور احتجاج کرنے والی تنظیمیں اور لوگ بلوچستان کے آزادی کی بات اور اسکا مطالبہ نہیں کررہے۔ وہ پاکستان کے آئین اور عالمی قانون میں تسلیم کئے گئے حقوق اور آزادیوں کو بلوچ کے لئے مانگ رہے ہیں۔ انسانی حقوق کے تنظیم اور مسلح تنظیموں کا مقاصد اور مطالبے، ان کی جدوجہد کے محاذ اور راستے الگ ہیں۔ انکی سرگرمیوں، کامیابی اور ناکامیوں کے موازنے کا کوئی جواز نہیں۔ یہ بالکل بھی ضروری نہیں ہیکہ انسانی حقوق اور آزادی کیلئے چیخ و پکار، آزادی کی تحریک سے بندھا ہوا یا اسکا حصہ ہو البتہ انکا چیخنا چلانا، آواز اٹھانا، احتجاج کرنا کسی نہ کسی حد تک دشمن کو کمزور کردیتا ہے، دشمن کے ظلم اور جبر کو دنیا کے سامنے آشکار کردیتا ہے، عام لوگوں میں پاکستان کی بلوچ دشمن کردار اور فطرت کو بےنقاب کرتا ہے، آزادی کیلئے تحریک کی اہمثیت، ضرورت اور جواز کو مزید واضح، روشن اور اسکو سمجھنا آسان کردیتا ہے۔ بلوچستان میں انسانی بنیادی حقوق اور آزادی کو کچلنے کی سب سے بڑی وجہ پاکستان کے جبری قبضہ گیریت سے آزادی کی کوششیں نظر آتی ہیں۔ آزادی کیلئے ہونے والے جدوجہد کو شکست دینے کی کوشش میں پاکستان کی فوج اور جاسوس عام بلوچوں کو اٹھاتے ہیں، جبراً لاپتہ کردیتے ہیں، عقوبت خانوں میں تشدد کا نشانہ بناتے ہیں، کچھ کو شہید کردیتے ہیں، لاشوں کو مسخ کرکے پھینک دیتے ہیں۔ اگر بلوچ آزادی کی مانگ سے دستبردار ہوجائیں، سرتسلیم خم ہوجائیں، پاکستان کی قبضہ گیریت کو قبول کرلیں، پاکستان کے ہاتھوں بلوچ قومی وسائل کی استحصال کے خلاف آواز اٹھانا بند کردیں تو ہوسکتا ہیکہ بلوچستان میں انسانی حقوق اور آزادیوں کی پامالیاں اس حد تک نہ ہوں جتنا کہ اس وقت ہورہا ہے۔اسی طرح 27 اپریل 2024 کے دن ہیومن رائٹس کونسل، بلوچستان کے سرکردہ رہنما واجہ تاج بلوچ کا ایک تحریر بلوچستان ٹائمز نے شائع کیا تھا۔ تحریر بلوچی زبان میں تھا جس کا عنوان "فدائی ایک اسلحہ ہے یا انسان ؟” تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ میں سمجھ نہیں پارہا کہ واجہ تاج بلوچ کیا کہنا چاہتے ہیں؟ وہ بلوچ تحریکِ آزادی میں مسلح جہدوجہد کو بلوچ قوم کیلئے نقصاندہ سمجھتے ہیں یا پھر مسلح تنظیموں کی کچھ غلطیوں (یہ الگ بات ہے کہ کتنے تہمت صحیح اور کتنے غلط ہیں) سے دلگران اور ناخوش ہیں؟ آیا وہ بلوچ مسلح جدوجہد کے حق میں نہیں ہیں یا فدائی حملوں کے ؟ فدائی حملوں کو نقصاندہ گردانتے ہیں یا اس وقت تک ہونے والے فدائی حملوں میں سے کچھ حملوں کے اہداف اور وقت (Targets and Timing) کے تعین پر انہیں اعتراضات ہیں ؟ یا انکو فدائی حملوں میں نوجوان اور بلوچ عورتوں کی شمولیت پر اعتراض ہے ؟واجہ تاج کے تحریر سے ایک اور تاثر یہ بھی ملتا ہے کہ جنگ میں فدائی حملہ مُلا اور مذہبی تنظیموں کا ایک جنگی حربہ ہے جسے جنونیت پسند ملا جنت میں جگہ جیتنے کی غرض سے کرتے ہیں۔ اگر واجہ یہی تصور کرتے ہیں پھر میں سمجھتا ہوں کہ وہ غلطی پر ہیں۔ قومی آزادی کی تحریکیں ہوں، یا سکیولر طاقتوں کے بیچ ہونے والی جنگیں ، فدائی حملوں کی مثالیں بہت جگہوں پر ملتی ہیں۔ بلکہ واجہ تاج بلوچ نے اپنے تحریر میں فدائی حملوں کی جو تعریف کی ہے اس میں بھی بعض صورتوں میں فدائی حملوں کا جواز موجود ہے۔ اگر اس مکتب کے خیال میں بلوچ قوم کے اپنے رسم و رواج اور مخصوص حالات اس کی اجازت نہیں دیتے یا فدائی حملے بلوچ تحریک آزادی کیلئے دنیا میں رائے عامہ کی ہمدردی اور نیک خواہیوں کو کم کررہے ہیں، یا انکا خیال اور معلومات ایسے ہیں کہ فدائی حملوں سے تحریک آزادی کیلئے فائدے اور کامیابْیاں کم اور نقصانات زیادہ ہورہے ہیں اور بلوچ مسلح تنظیم فدائی حملے نہ کریں تو وہ اس حوالے سے دلیل دیں۔اگر اعتراض فدائی حملوں پر نہیں بلکہ حملوں کیلئے منتخب اہداف اور وقت کے تعین پر ہے، اگر سوال اٹھانے والے کے پاس عذر و اعتراض کے حق میں دلیل ہے تو وہ دلیل و منطق کے ساتھ اعتراضات سامنے رکھیں تو پھر فدائی حملوں کی منصوبہ بندی کرنے والے ، حملوں کے ہدف اور وقت کا فیصلہ کرنے والے اور فدائی مشن پر بھیجنے والوں کو بھی چاہیئے کہ ان چیزوں کو باریک بینی سے دیکھیں اور ان پر غور کریں۔ تہمت بازی، طعنہ و طنز جو مکتب بھی کرے وہ اجتماعی جدوجہد کیلئے مفید و معاون نہیں بلکہ سنجیدہ مباحثہ کو بھی غلط رخ دیکر بے سود بناتا ہے۔واجہ تاج نے پاکستانی فوج و انٹیلیجنس کیلئے جاسوسی و دلالی کے تہمت میں مقامی بلوچوں کو سزا دینے، جان سے مارنے اور اس بارے میں ثبوت اثبات، سزا و جزا کے طریقوں پر بھی سوال اٹھایا ہے۔ اگر ریاست کے عدالتی نظام میں بھی سزا و جزا کے فیصلوں کیلئے غلط نتیجوں پر پہنچنے کی گنجائش ہے اور اس حوالے سے ثبوت اور مثالیں بھی موجود ہیں پھر گوریلا [بے قاعدہ] نظام میں غلطیوں سے منکر ہونا بہت مشکل ہے حالانکہ ریاست کے پاس جرم کی تفتیش، ثبوت اکھٹا کرنےاور صحیح نتیجہ نکالنے کیلئے جس قدر تعلیم، تربیت، مہارت اور سہولیات موجود ہیں اتنا گوریلہ تنظیموں کے پاس نہیں ہے۔ ایک مطالبہ یہ سامنے آرہا ہیکہ مسلح تنظیمیں جاسوسوں کے خاندان اور انسانی حقوق کے تنظیموں کی تسلی کیلئے سزا و جزا کے اپنے نظام اور ثبوتوں کے بارے میں انھیں بتائیں۔ میں نہیں جانتا کہ انڈر گراؤنڈ جنگ کرنے والے گوریلہ تنظیموں کی رازداری اور سلامتی کیلئے یہ بات کس قدر قابلِ عمل ہوسکتا ہے ؟ اگر مسلح تنظیمیں اپنے دوستوں اور ہمدردوں کی سلامتی کیلئے سزا و جزا کے اپنے نظام کے بارے میں معلومات سامنے نہیں لاسکتے تاہم انکے کمانڈر دوسرے عذر و اعتراضات پر ضرور توجہ دیں کیونکہ اگر مضبوط اور قابل یقین اثبات کے بغیر گوریلہ تنظیمیں اور سرمچار مقامی لوگوں کو ماریں گے تو پھر یہی چیز معاشرے میں تحریک آزادی کیلئے، مسلح تنظیموں اور سرمچاروں کیلئے ہمدردی، دوستخواہی اور مدد کے جذبے کو کم کرنے، انکے لئے بد خواہ اور دشمنوں کو بڑھانے کی وجہ بن سکتے ہیں۔اعتراض کرنے والے بھی اس حقیقت کو جان لیں اور اپنے ذہن میں جگہ دیں کہ گوریلہ جنگ کو روکنے میں بڑی فوج، جدید فوجی اسلحہ اور سہولیات، طاقت و ٹیکنالوجی اُس وقت تک بے سود اور بیکار ہیں جب تک کہ مقامی معاشرے میں فوج کیلئے تانک جھانک کرنے، بو سونگنے والے مخبر، جاسوس اور چغل خور نہ ہوں۔ گوریلہ جنگ کو ناکام بنانے کیلئے ریاست کی ردِ بغاوت (Counterinsurgency) پالیسی میں جاسوسی نیٹورک کی اہمیت و ضرورت ایسا ہے جیسے جسم کیلئے ریڑھ کی ہڈی، یا پھر گھر، جھومپڑی و عمارت کی مضبوطی اور سلامتی کیلئے ستون اور وشہتیر۔ ردِ بغاوت جنگ میں جاسوس فوج کیلئے آنکھ، کان اور ناک کا کام کرتے ہیں۔ اگر فوج کیلئے بلوچ سماج میں جاسوس نہ ہوں تو سرمچار گاؤں، شہر اور گھروں میں بےخوف بیٹھیں اور دشمن کو نشانہ بنائیں، جانی و مالی نقصان پہنچادیں۔ دشمن کبھی جان نہیں پائےگا کہ کس گاؤں، شہر اور گھر میں کون بیٹھا ہے۔ لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ شہر، گاؤں اور بازار اپنی جگہ، سرمچار پہاڑوں، ندیوں اور جنگلوں میں بھی محفوظ نہیں، فوج کو انکی لوکیشن، آمدورفت کی آگاہی مل جاتی ہے۔ تو خبر پہنچانے، تعاقب کرنے اور چغل خوری کرنے والے کون ہیں ؟ ظاہر ہے طویل و وسیع بلوچستان کے بلند اور بڑے پہاڑوں، ندیوں اور جنگلوں میں سرمچاروں کا کھوج لگانا، فوج کیلئے راز نکالنا جہلم، سیالکوٹ، پنڈی اور لاہور سے آنے والوں کے بس کی بات تو نہیں ؟ یہ جاسوسی کرنے والے ، کھوج لگانے اور راز نکالنے والے یہی مقامی لوگ ہیں۔ یہ بھی واضح ہے کہ فوج کیلئے جاسوسی کرنے والے بلوچ ہوں یا کوئی اور، وہ اپنے کام اور سرگرمیوں کے حوالے سے اپنے خاندان، دوستوں اور رشتہ داروں کو تو نہیں بتائیں گے۔ انکے خاندان اور قریبی لوگ انکے کام کے بارے میں معلومات نہیں رکھتے اس لئے واویلا کرتے ہیں۔یہ تو بلوچ سماج میں میڈیا اور انسانی حقوق و آزادی کے میدان میں سرگرم کچھ لوگوں کا نقطہ نظر اور باتیں ہوئیں۔
مسلح محاذوں کے بعض کمانڈران کی جانب سے بھی کبھی کبھی ایسی باتیں سامنے آتی ہیں کہ وہ بھی بلوچ قومی آزادی کے فتح کی غرض سے مسلح جدوجہد کی ضرورت، کردار اور اہمیت باور کرانے کی کوشش میں جمہوری، سیاسی ، سفارتی اور انسانی حقوق و آزادیوں کی تحفظ کے میدان میں سرگرم لوگوں کے کام کی اہمیت کو گھٹا کر دکھاتے ہیں۔ اس بارے میں بی ایل اے کے رہنما بشیر زیب کے ایک ویڈیو بیان کا مثال دیتا ہوں۔ واجہ کا وہ ویڈیو بیان 30 جون 2023 کے دن میڈیا میں نشر ہوا تھا۔ وہ شہید سمعیہ قلندرانی کی فدائی حملے کے بعد سوشل میڈیا پر فدائی حملے ، فدائی حملوں میں خواتین کی شراکت داری پر اٹھے سوالات و اعتراضات کا جواب دینے کی کوشش کررہے تھے۔ وہ مسلح جدوجہد اور فدائی حملوں کے حق میں دلیل دے رہے تھے۔ اپنی باتوں کو وزن دار بنانے کیلئے وہ سیاسی ، سفارتی اور انسانی حقوق کے سرگرمیوں کی اہمیت، ضرورت اور افادیت کو مسلح جدوجہد کے ساتھ موازنہ کرنا شروع کرتے ہیں۔ سیاسی، جمہوری، سفارتی و انسانی حقوق کیلئے ہونے والے سرگرمیوں کی اہمیت اور افادیت کو گھٹا کر بیان کرتے ہیں اور ان محاذوں پر کام کرنے والے تنظیم و گروہوں کو مخاطب کرکے کہتے ہیں کہ آپ کی سیاسی ، سفارتی کام، فریاد، چیخ و پکار، لعن طعن اور احتجاج کا دشمن پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ میں سمجھ نہیں پارہا اس نے یہ بات کیوں کی ؟ مسلح جدوجہد کی حیثیت و کردار کو زیادہ واضح و موثر جتلانے اور ثابت کرنے کی کوشش میں یہ بات واجہ کے منہ سے نکلا ہے یا انکا نظریہ ، سوچ و فکر ایسا ہے ؟ اس بات کو کرنے کی وجہ کچھ بھی ہو لیکن یہ نظریہ فائدہ مند و متوازن نہیں ہے۔ اگر یہ سوچ اور نظریہ درست ہوتا پھر پاکستان کیوں واجہ غلام محمد بلوچ، ڈاکٹر منان یا بی این ایم ، بی آر پی اور بی ایس او آزاد کے سینکڑوں عہدیداروں، ممبران و کیڈرز کو شہید کرتا؟ کیوں پروفیسر صباء دشتیاری، پروفیسر رزاق زہری، استاد علی جان بزنجو، نعیم صابر جمالدینی یا بہت سے دوسرے صحافیوں و عام بلوچوں کو شہید کرتا ؟ کیوں ڈاکٹر دین محمد بلوچ، زاکر مجید بلوچ، چیئرمین زاہد کرد، شبیر بلوچ یا بی این ایم، بی ایس او آزاد و بی آر پی کے ہزاروں ممبران کو شہید کرتا، صحافیوں و دوسرے عام بلوچوں کو حراست میں لیتا، کیوں انہیں جبراً لاپتہ کرتا ؟ لمہ کریمہ بیرونِ ملک بم و بارود کا سودا نہیں کر رہی تھیں بلکہ محض باتیں، احتجاج اور سفارتکاری کررہی تھیں، ساجد حسین لکھ رہا تھا پھر انہیں دشمن نے کیوں شہید کیا؟
اگر سیاسی و سفارتی سرگرمیاں، نعرہ بازی، لعن طعن بے اثر ہوتے تو 2023 کے اواخر و 2024 کے اوائل میں پاکستان کے نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ، فوج و حکومت کے ترجمان، فوج کی سائبر برگیڈ اور دوسرے کٹھ پتلیاں کمربستہ ہوکر میڈیا میں بلوچ یکجہتی کمیٹی و وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے خلاف ریاستی پروپیگنڈہ مشینری کو حرکت میں نہ لاتے۔ بی وائی سی کی سربراہی میں ہونے والے لانگ مارچ میں شامل بچوں، عورتوں، بزرگوں کو اسلام آباد پولیس تشدد کا نشانہ نہ بناتی، انھیں سڑکوں پر نہ گھسیٹتے، جبراً اسلام آباد سے نکال کر کوئٹہ بھیجنے کی کوشش نہ کرتے۔ آزادی کی تحریک کو روکنے اور شکست دینے کی غرض سے ریاست کی ردِ بغاوت پالیسی میں اسکا پہلا ہدف ہمیشہ جمہوری سیاسی تنظیمیں اور سیاسی محاذ ہوتے ہیں۔ ریاست جانتا ہے کہ سیاسی، سفارتی، قلمکاری، چیخ و پکار کے میدان میں سرگرم لوگوں کی زبان جب تک بند نہیں کی جاتی ہے تب تک تحریک آزادی کو روکنا، اسے شکست دینا و ناکام بنانے کی خواہش و خیال محض خام خیالی اور ایک خواب سے زیادہ کچھ نہیں۔مسلح جدوجہد یا سیاسی ، سفارتی و انسانی حقوق و آزادیوں کے تحفظ کے لئے چیخ و پکار کو کُل تحریک تصور کرنے کا نظریہ و خیال جدوجہد کے ہر محاذ پر سرگرم کچھ لوگوں میں موجود ہے جوکہ کبھی کبھی بحث و تکرار کی صورت میں سر اٹھاتا اور سامنے آتا ہے۔ بلوچ جدوجہدِ آزادی کے ہر ایک محاذ پر ہونے والے سرگرمیوں کی کامیابی و پیش رفت پر اگر بات کی جائے، جدوجہد کے حوالے سے قوم کو آگاہی دینا، قوم دوستی و جذبہ آزادی، جوش و خروش کو بڑھانا، انہیں جدوجہد کے ساتھ جوڑنے کے بارے میں علم، دلیل و منطق کے ساتھ بات ہونا چاہیئے۔ اگر علمی رد و بند کو دیکھا جائے تو تحریک آزادی میں کام کرنے والے ہر محاذ کی سرگرمیوں میں کمزوریوں پر بات ہونی چاہیے تاکہ اِس سے کمزوریوں کو پکڑنے اور دور کرنے میں مدد ملے لیکن یہ ایک حساس کام ہے۔ مجھے یاد ہیکہ بلوچ جدوجہدِ آزادی میں کمزوریوں کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں بلوچ قومی رہنما سردار خیر بخش مری نے کہا تھا کہ اپنی کمزوریوں کو دشمن کے سامنے کیوں ظاہر کریں اور کیوں دشمن کے کام کو آسان کردیں ؟مرحوم نواب خیر بخش مری کی یہ بات مجھے اچھا لگتا ہے اور مجھے پسند ہے کہ اپنی کمزوریوں کو کیوں دشمن کے سامنے آشکار کریں؟ لیکن میرا خیال ہیکہ بلوچ تحریک آزادی میں جدوجہد کے مختلف محاذ، محاذوں پر ہونے والے سرگرمیوں کا موازنہ کرنا، جدوجہد کے دوسرے محاذ و سنگروں کو کمتر تصور کرنا ایک ایسی کمزوری ہے جو دشمن کو کم جبکہ بلوچ قومی جدوجہد ، تحریک کے مختلف محاذ اور بازؤوں کے مابین اتحاد و ایکتا کو زیادہ نقصان دے سکتا ہے۔ اگر ہم نے اپنے اس کمزوری کی نشاندہی نہیں کی، دلیل و منطق کے ساتھ اس کا حل نہیں ڈھونڈا تو یہ کمزوری پروان چڑھتا ہوا پھیلتا جائیگا۔ یہ بحث و تکرار بارہا سر اٹھاتا ہے اس لئے میں نے بہت سوچ و بچار بعد اس خیال کو لکھنے اور شائع کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس تحریر کا مقصد کسی کو ملامت کرنا اور ڈی گریڈ کرنا نہیں ہے بلکہ تحریک آزادی کے مختلف محاذ اور انکے سرگرمیوں کا موازنہ کرنے،انھیں ایک دوسرے کے مدمقابل لانے اور کھڑا کرنے کے عمل، فکر و سوچ کے نقصانات کی نشاندہی کرنا ہے۔ جب بلوچ قومی آزادی کے تحریک و جدوجہد کے کمزوریوں پر بات ہوتی ہے تو بات بغیر دلیل کے اور یک طرفہ نہیں ہونا چاہیئے۔ اگر کوئی تنقید کرتا ہے، نقص ڈھونڈتا ہے، عیب نکالتا ہے، سوال اٹھاتا ہے تو بیشک یہ کام وہ کرے لیکن نیک نیتی ، دلیل اور سچائی کے ساتھ کرے۔
معلومات و آگاہی دینا، مجموعی جدوجہد میں کمزوری اور خامیوں کو دور کرنے کے مقصد سے سوال اٹھائے، بات کرے، دلیل دے۔المختصر یہ کہنا چاہونگا کہ تحریک آزادی کی کامیابی و منزل تک پہنچنے کیلئے جدوجہد کے تمام محاذوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ بلکہ آزادی کے منزل تک پہنچنے کا تقاضا کچھ یوں ہے کہ سرگرمیوں میں مزید شدت اور تیزی (بقول کماش بشیر زیب جدت و شدت) لائی جائے۔ جدوجہد کے مختلف محاذوں اور ان پر ہونے والے سرگرمیوں کا موازنہ کرنے، ایک دوسرے کے مدمقابل لا کھڑا کرنے، ایک کی تعریف و توصیف جبکہ دوسرے میں نقص نکالنے کے بجائے تمام محاذوں کو قومی لڑی میں پرو کے ساتھ جوڑنے کی ضرورت ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ استعمار و قبضہ گیر کی سوچ اور نفسیات ایسا ہیکہ وہ صرف طاقت کی زبان سمجھتا ہے۔ ہاتھ باندھنے اور منت سماجت سے نہ دنیا میں کسی دوسرے قوم کو آزادی ملی ہے اور نہ ہی پاکستان خدا کے نام پر بلوچ کو آزادی خیرات میں اس کے پلو پر باندھ کر دیگا۔ یہ تو حقیقت ہے کہ ایک کمانڈر جب جدوجہد کے متعلق گفتگو اور تبلیغ کرتا ہے تو لازم وہ مسلح جدوجہد کی ضرورت و اہمیت پر بات کریگا، بیشک بات کرے لیکن جدوجہد کے دوسرے محاذوں کو کمتر نہ سمجھے۔ کیونکہ مسلح جنگ کے ساتھ سیاستکاری، سفارتکاری، قلمکاری، میڈیا، انسانی حقوق و آزادیوں کے تحفظ کیلئے جدوجہد کے محاذوں پر بھی کام کی سخت ضرورت ہے۔ جدوجہد کے کسی بھی محاذ کو خالی چھوڑنا سود مند یا عقلمندی کا کام نہیں ہوگا۔