سرزمین کا عظیم سپوت شہید آغا عابد شاہ بلوچ ۔تحریر: عزت بلوچ

ہزاروں سال بعد قوموں کی تاریخ میں ایسے انسان پیدا ہوتے ہیں جن کو اپنی ذات ،خاندان، قبیلہ اور علاقہ کے بجائے اپنے پورے قوم اور سرزمین کی فکر کچھ اس شدت کے ساتھ رہتی ہے کہ وہ شدت ان کے لیے ایک مشن اور نصب العین بن جاتا ہے۔ پھر ایسا لگتا ہے کہ وہ کسی فطری قانون کے زیر اثر اس عظیم مقصد کو پورا کرنے کے لیے جنون میں مبتلا ہوتا ہے، یقیناََ یہ قدرت کا ایک فطری چناؤ ہے کہ وہ ایسے عظیم کرداروں کا انتخاب ایک فطری قانون کے تحت کرتا ہے۔

دنیا کے اندر روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں لوگ پیدا ہوتے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کی اموات واقع ہو جاتی ہے۔لیکن تاریخ کو ان کے پیدائش سے نہ کوئی تعلق ہوتا ہے اور نہ ہی ان کے مرنے اور فنا ہونے سے تعلق ہوتا ہے۔ میرے نزدیک انسان کی پیدائش دو طریقے کے ہوتی ہے، ایک تو وہ فطری پیدائش ہے ، جب ایک انسان ماں کی پیٹ سے پیدا ہوتا ہے جب کہ دوسرا وہ انسان جو تاریخ کی کوکھ سے کردار بن کر جنم لیتا ہے، اس لئے میں تاریخ کو کرداروں کا ماں قرار دیتا ہوں۔

تاریخ کی کوکھ سے جنم لینا ایک اعزاز اور عنایت ہے، جس کی ہر انسان خواہش رکھتا ہے، مگر سب سے حیرانگی کی بات یہ ہے کہ تاریخ جب کسی کردار کو جنم دیتی ہے تو ایسے کرداروں کے دل میں اپنی زاتی زندگی کیلئے کوئی خواہش پیدا نہیں ہوتا، اس کے برعکس ایسے کرداروں کے پاس ہمیشہ ایک پختہ عزم اور ارادہ ہوتا ہے۔ میں بزات خود تاریخ کی کوکھ سے جنم لینے والے اس عظیم انسان کے کردار پر بس اتنا کہہ سکتا ہوں کہ "عابد” اپنے نام کے معنوی اعتبار سے کسی عبادت گزار بندے کو کہا جاتا ہے، جس کا سر ہمیشہ خدا کے سامنے جھکتا ہے، اور ظالم کے سامنے ہمیشہ سر بلند اور سینہ تھان کے کھڑا رہتا ہے۔

شہید آغا عابد شاہ اس کردار کا تجسیم تھا۔۔۔وہ اپنے سرزمین کا پیدائشی مجنون تھا۔ بلوچ قوم پرستی ان کے لیے محض ایک سیاسی نظریہ نہیں تھا بلکہ یہ ان کیلئے ایک عبادت تھی، وہ سیاست اور قومی خدمات کو عبادت سمجھتا تھا، قوم کو خلق خدا سمجھ کر ان کی خدمت کو افضل ترین عبادت سمجھتے تھے۔

بلوچ قوم کی قومی پسماندگی، محرومی اور محکومی کے خلاف سیاسی شعور کے علم بردار، فطری اور پیدائشی سیاسی و سماجی کارکن، استاد ،رہبر ”شہید آغا عابد شاہ“ نے اپنی پوری زندگی بلوچ قومی خوشحالی کے لیے وقف کر رکھا تھا، اب مجھے ان کے نام کے ساتھ شہید لکھنا پڑھے گا۔ مگر وہ زندگی کا ہم سفر تھا، وہ زندگی کا شیدائی تھا ان کو زندگی سے شدت سے محبت تھی، اس زندگی کے ہم سفر سے زندگی چھین لی گئی۔

زندگی سے محبت ہر انقلابی اور ہر سرمچار کا عشق ہے۔ بھگت سنگھ سے پھانسی سے چند لمحہ پہلے پوچھا گیا کہ ہم تم کو پھانسی کے گھاٹ لے جانے کے لئے آئے ہیں، اور جاتے جاتے ان سے پوچھا گیا کہ کیا آپ کو اس بات کا غم ہے کہ اب تمہاری زندگی ختم ہورہی ہے۔۔تو بھگت سنگھ ان کو جواب دیتا ہے ”ہاں بہت زیادہ“۔۔ جیل انتظامیہ کے اہلکار نے پوچھا پوری زندگی تو تم نے زندگی کی کبھی پرواہ نہیں کی، تمہیں ہمیشہ سرمچاری کی حالت میں دیکھا ہےکہ آپ نے اپنی زندگی کو ہتھیلی پر رکھا ہے ، بھگت سنگھ ان کو یہ جواب دیتا ہے کہ مجھے دکھ اس بات کا نہیں کہ میری زندگی ختم ہو رہی ہے، غم اس بات کی ہے کہ میں اپنے کام کا ہزارویں حصہ کا کام بھی نہ کرسکا اور موت کو گلے لگا رہا ہوں، میری خواہش ہے کہ میں مزید زندہ رہتا اور اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لئے مزید شدت سے کام کرتا۔۔۔

شہید آغا عابد شاہ ایک عظیم انقلابی رہنما تھا۔ ان کو زندگی سے اس لئے عشق تھا کہ وہ زندہ رہ کر قومی تحریک میں مزید اپنا کردار ادا کرتا۔ مجھے یقین ہے کہ شہید کھبی نہیں مرتے وہ رہتی دنیا تک زندہ رہتے ہیں، عابد شاہ کے کردار سے پریشان بیرونی قبضہ گیر اور ان کے مقامی دلالوں کا خیال تھا کہ بلوچ سیاسی جہد کاروں کو شہید کرکے وہ حق اور باطل کے درمیان جنگ میں اپنے ریاستی طاقت کے زریعے مظلوم کو شکست دے سکتے ہیں، لیکن تاریخ اس بات کا گواہ ہے کہ جیت ہمیشہ سچ کی رہی ہے یہ ایک فطری قانون ہے جن کو کوئی تبدیل نہیں کرسکتا۔

اگرچہ آج عابد شاہ بلوچ جسمانی طور پر ہم سے جدا ہیں مگر اس کی نظریہ، سوچ، فکر و فلسفہ ایک مشعل راہ کی صورت میں بلوچستان کے پہاڈوں، گیابانوں، وادیوں، دیہاتوں اور گاؤں میں موجود ہیں، جس پر چلتے ہوئے ہزاروں بلوچ نوجوانوں نے اپنے خون سے ایک نئی تاریخ رقم کرکے ان قبضہ گیر قوتوں کو یہ پیغام پہنچایا کہ قومیں اس وقت فنا ہو جاتی ہیں جب قومی شعور ختم ہو جاتی ہے۔

شہید آغا عابد شاہ بلوچ کی شہادت کے 13 سال بعد جب ہم آج موجودہ قومی صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس مقصد کے پیش نظر شہید آغا عابد شاہ بلوچ اور دیگر ہزاروں بلوچ نوجوانوں کو شہید کیا گیا ان کو بلوچ قومی تحریک سے جسمانی طور پر تو جدا کیا گیا تاکہ بلوچ قومی شعور کو ختم کیا جاسکے مگر انکی قربانیوں کا فلسفہ ہر قدم ہماری رہنمائی کر رہی ہے۔

ہمیں یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ بلوچ قومی شعور اب اس قدر مضبوط ہوچکی ہے کہ وہ آوازیں جو بلوچ قومی شناخت اور قومی سوال کے لیے بلوچستان میں سنائی دے رہی تھی اب اس آواز کی گونج دنیا بھر میں بلوچ قومی آزادی کی شکل میں گونج رہی ہے۔

اب یہ ہمارا یقین بن چکا ہے کہ شہیدوں کی قربانیاں کبھی رائیگان نہیں ہوں گے، ایک نہ ایک دن بلوچ شہیدوں کی عظیم مقصد کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر اپنی سرزمین کو اغیار کے پنجوں سے آزاد کریں گے۔

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

Next Post

گیشکور میں پاکستانی فورسز اہلکاروں کو بم کا نشانہ بنایا گیا

جمعہ مئی 10 , 2024
بلوچستان کے ضلع کیچ میں پاکستانی فوج کے اہلکاروں کو بم دھماکے میں نشانہ بنایا گیا،تفصیلات کےمطابق پاکستان فوج کے پیدل اہلکاروں کو بم حملے میں اس وقت نشانہ بنایا گیا ،جب وہ سامی، گیشکور میں فوج کی گاڑیوں کو پکٹ سیکورٹی فراہم کررہے تھے۔ ذرائع کے مطابق دھماکے کے […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ