شال : جبری لاپتہ افراد و شہداء ہے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5420 دن ہوگئے اظہار یکجہتی کرنے والوں میں تمپ کے سیاسی و سماجی کارکنان بیبرگ بلوچ، دیدگ بلوچ ، بی ایس او کے سابقہ چیرمین زبیر بلوچ ، نیشنل پارٹی کے حاجی نیاز بلوچ ، ایڈوکیٹ صدام مینگل بلوچ ، ایڈوکیٹ امین اللہ مگسی و دیگر نے اظہار یکجہتی کیوائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کے بلوچ عوام سے گزارش ہے کے وہ FC ,CTD و دیگر پاکستانی اداروں کو کسی بھی قسم کے معلومات دینے سے گریز کریں یہ تمام جاسوسی ادارے ان معلومات کو بلوچ عوام کے خلاف استعمال کرتے ہے اور انہیں نقصان پہنچانے کے درپے ہیں
ماما قدیر بلوچ نے کہا کے ہزاروں بلوچ فرزندوں کی مسخ شدہ لاشیں وصول کرنے اور ہزاروں فرزندوں کی جبری گمشدگی کے بعد ایف سی و دیگر پاکستانی اداروں کے امدادی و لالچی جہانسوں میں آنے والے نہیں ہیں بلوچ قوم کو بخوبی علم ہے کے اس کے ہمدرد کون ہے اور اس کے نوجوانوں کو لاپتہ و شہید کرنے والے کون ہے بلوچ قوم بھوک و افلاس سے موت قبول کرسکتا ہے لیکن اپنے قومی دشمن سے کبھی خیرات تسلیم نہیں کرئے گا۔ماما قدیر نے کہا کے قومی تحریک بلوچ فرزندان کے قربانیوں کے نتیجے میں منظم اور کامیابی کے ساتھ اپنے مراحل طے کرتے ہوئے منزل مقصود کی جانب بڑھ رہی ہیں جس سے قابض بوکھلاہٹ کا شکار ہوکر پرامن جہد کے راستے کو روکنے کے لئے مختلف ہتھکنڈے استعمال کررہا ہے ۔
ماما قدیر نے کہا کے بلوچستان میں جاری فوجی آپریشنز ، جبری گمشدگیوں ، مسخ شدہ لاشوں اور گھروں کو نظر آتش کرنے و سول آبادیوں پر بمباری عالمی قوانین کی کھلم کھلا سنگین خلاف ورزیوں میں شدت سے اصافہ ہو رہا ہے پاکستانی خفیہ اداروں ،ایف سی سمیت دیگر اداروں کی کارکردگی و انسانی حقوق کے خلاف ورزیاں دنیا کے لئے تشویش کے باعث ہے، بین الاقوامی سطح پر سی ٹی ڈی ، ایف سی و دیگر خفیہ اداروں کے حوالے سے شائع رپورٹس سے یہ واضح ہوچکا ہے کے یہ ادارے بلوچ پرامن جہد و جہد کو بزریعہ طاقت و غیر انسانی طریقوں سے زیر کرنے میں براراست ملوث ہے ایسے میں عالمی امداد ان اداروں کو ناصرف مزید قتل عام کا ہمت دیتا ہے بلکے اس خطے کے امن پر بھی یہ امداد اثرانداز ہوسکتا ہے ماما قدیر نے کہا کہ بلوچستان میں پاکستانی خفیہ اداروں تمام جرائم پیشہ عناصر و قاتلوں و اغواء کاروں کی براراست سرپرستی کررہے ہیں جن کے زریعے مسلسل لاپتہ افراد کے خاندانوں اور شہداء کے لواحقین کو ہراساں کیا جاتا ہے جس کے روک تھام کے لیے عالمی انسانی حقوق کے تنظیموں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ۔