شال: بلوچ جبری لاپتہ افراد کیلئے قائم احتجاجی کیمپ کو 5409 دن ہوگئے، اظہار یکجہتی کرنے والوں میں بی ایس او (پجار) کے سابق چیئرمین زبیر بلوچ ، ڈاکٹر طارق بلوچ ایم جے بلوچ اور دیگر نے کیمپ آکر اظہار یکجہتی کیوی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وفد مخاطب ہوکر کہا کہ انسانی حقوق کے اقوم متحدہ کے انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں ہوا کہ پاکستان بلوچستان میں مارو پھینکو کی روکنے جو یکم نومبر کے سوشل میڈیا کی شہ سرخی تھی اگر مختصراً جائزہ لیاجائے تو بلوچ تمام نشیب وفراز باہمی دوریوں کے باوجود عالمی عالمی دنیا میں پزیرائی حاصل کرچکی ہے یقیناً شہدا کے خون جبری لاپتہ افراد کے لواحقین کی پرامن جدوجہد کا ثمر ہے۔ماما قدیر بلوچ نے کہاکہ آج بلوچ پاکستان کی درودیوار کو چیرتی ہوئی عالمی دنیا اور دیگر اقوام کو اپنی جانب متوجہ کررہی ہے تو دوسری جانب داخلی طور پر آج بھی ایسا لگتا ہے کہ دوریاں اعتماد کا فقدان بے یقینی کے شکار ہیں ہم نومبر کا مہینہ کو خاص کر اس کی جاگتی ثبوت ہے
ریاستی خفیہ اداروںکے ہاتھوں اغوا کےبعد شدید احتجاج کا سلسلہ جاری ہےپھر انسانی حقوق کے علمبردار عالمی تنظیمی گہری نیند میں ہیں اکثر دیکھنے میں آتا ہیکہ اگر کوئی مقامی مخبر مارا جائے تو اسے بے گنا پیش کرنے میں علاقائی میر و معتبر لگے ہوتے ہیں مگر آج کسی مخبر کی بے گنائی یہ ریاستی ایجنٹ پیش نہ کرسکے جبری اغوا میں یہی مقامی مخبر جو صرف چند روپوں خی لالچ یا ڈیتھ اسکواڈز کے ورغلانے پر یہ سب کرتے ہیںجب انھیں نشان عبرت بناتے ہیںتو بے گناہی کا روانا شروع ہوتاہے بلوچ نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں گرنا ڈیتھ اسکواڈ کے ذریعے نوجوانوں کو ٹارگٹ کلنگ لواحقین کے گھروں پر حملے جبری لاپتہ افراد کی بازیابی میں بھیٹے لواحقین کو ڈرانادھمکانا روز کا معمول بن چکے ہیں بلوچ قوم کیلئے اتحاد ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا وقت ان حالات میں اختلافات عدم برداشت ہیروازم و شخصیت پرستی کی کوئی گنجائش نہیں ۔