بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ کبیر بلوچ، مشتاق بلوچ اور عطاءاللہ بلوچ کی جبری گمشدگی کو پندرہ برس مکمل ہوگئے۔ اب تک نہ ہی ان کا جرم بتایا گیا ہے اور نہ ہی ان کے ورثا کو ان کے متعلق کسی قسم کا معلومات دیا گیا ہے۔
انھوں نے کہاہے کہ جبری گمشدگیاں اجتماعی سزا کی بد ترین شکل ہے۔ کسی ایک فرد کے لاپتہ ہونے سے اس کا پورا خاندان سمیت عزیز اقارب ذہنی کوفت میں مبتلا ہوتے ہیں ۔بلوچستان میں جبری گمشدگیاں روز کا معمول بن چکا ہے۔ بلوچ عوام گھروں، تعلیمی اداروں سمیت کسی بھی جگہ محفوظ نہیں ہیں۔ انسانی حقوق کی بد ترین پامالیوں پر نام نہاد قومی اداروں سمیت عالمی برادی نے مجرمانہ خاموشی اختیار کیا ہوا ہے۔
بی ایس او مطالبہ کرتی ہے کہ کبیر، مشتاق اور عطاءاللہ سمیت ہزاروں کی تعداد میں جبری طور پر لاپتہ کئے گئے بلوچ سیاسی کارکنان، طلبہ، اساتذہ اور عام افراد کو منظر عام پر لایا جائے۔ علاوہ از ایں عالمی ادارے بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں کا نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ اداروں پر ان غیر انسانی افعال کو روکنے کے لئے زور دیں۔