جما ل سے فدائی کمبر مھروان تک سفر۔تحریر مومن قاضی

جمال شاد 1994میں آواران کے علاقے جھاو کھڑو میں عبدالمجید کے گھر میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے اپنے پڑھائی ہائی سکول جھاو کہڑو سے حاصل کی ۔ 2010میں میٹرک کرنے کے بعد مزید اپنے پڑھائی جاری رکھنے کیلے شال چلا گیا۔ اس دوران BSO AZAD میں اپنی سیاسی سفر شروع کی ، جب ایف اے پورا کیے تو تنگدستی کی وجہ سے اپنی تعلیم جاری نہ رکھ سکااور واپس علاقہ میں آگیا تو اس دوران بی ایس او آزاد اپنی عروج پر تھا تو جمال بھی آزاد کے دوستوں کے ساتھ جلد گُھل مل گیےاور ہر کام میں پیش پیش رہے ۔

اس دوراں بی ایس اوکےمرکزی دوست بھی جھاو میں موجودتھے تو سب کی نظریں جمال پر تھی اگر چاکینگ ہو یا علاقہ میں جلسہ کی تیاری ہو یا جھاو سے باہر دوستون کو لانےکی کام ہو کبھی آواران تو کبھی لسبیلہ تنظیمی کام ہو کہیں پر بھی اس کی پیروں میں دشمن کو دیکھتے ہوئے بھی خوف لرزش نہیں دیکھی ۔ جب اگست 2013 میں رضاجھانگیر دشمن کے ہاتھوں امداد کےساتھ شہید ہو ئے تو مرکزی دوستون پر ذمہدری زیادہ پڑی ۔ اس دوران چیرمیں زاہد بلوچ بھی جھاو میں موجود تھا۔ رضا جان کے جانے کے بعد چیرمیں زاھد کو خود شہر میں جانا پڑا تو جھاو میں جمال اور باقی دوستوں پر زمہداری اور زیادہ ہو گئی تو جمال کو جھاو زون میں زمہداریاں دی گئیں۔ رضا کے بعد پورے بی ایس او آزاد پر کریک ڈاوں شروع کر دی گئی اور18 مارچ 2014 کو چئیرمیں زاہد کو شال میں ریاست نے اسد بلوچ کے ساتھ گرفتار کیا۔ اسی دوراں مشکے زون کے صدر حاصل قاضی کو شہید کیا گیا ۔

اس کے بعد شبیر بلوچ جو بی ایس او آزاد کا انفارمیشن سیکرٹری تھا اس کو کولواہ سے جبری لاپتہ کردیا گیا اور اسی دوراں جھاو زون کے صدر خمار بلوچ کو شہید کیا گیا تو جھاو آواران مشکے کولوہ میں جمال اور اس کے ساتھیوں پر زمہداری اور زیادہ ہوگئیں ، کبھی جھاو تو کھبی مشکے اور آوران تو کبھی کولواہ میں تنظمی کاموں میں سرگرم رہا۔ اور اسی دوراں بی ایس او کے جرنل سیکٹری ثنا بلوچ کو دو سی سی ممبر زکے ساتھ کراچی سے جبری لاپتہ کر دیا گیا تو بی ایس او کو انڈرگراونڈ کرنا پڑا۔

جمال اور اس کے ساتھیوں کو شہروں میں بیٹھ کر کام کرنا کسی رسک سے کم نہیں تھا تو ایسے تربیت یافتہ نوجواں کو ریاست خاموش کرنا چاہتا تھا مگرجمال کبھی بھی اپنے دوستوں کو چھوڑ کر ریاست کے سامنے سرنڈر نہیں ہوا۔ انھیں خاموش کرنے کیلے انکے والد کو بھی ایک مرتبہ دو مہینہ کیلے لاپتہ کردیا گیا۔ مگر جمال کے پیروں میں کبھی لرزش محسوس نہیں ہوا ، بلکہ جمال پہلے سے بھی اور زیادہ کام کرنا چاہتا تھا اور بی ایل ایف میں شامل ہوگئے ۔ بہت جلد دوستوں میں بھی مشہور ہوا ۔

اپنی خوش اخلاق اور خوش مزاجی کی وجہ سے ہر وقت دوستوں کے محفلوں کی رونق بنا رہا، بہت جلد اپنی ایمانداری اورجنگی صلاحیت کی وجہ سے ایک زمہدار سپاہی کی حیثیت سے سب دوستوں کی دلوں میں راج کرگیا۔ علاقہ میں کمیونیکیشن بہت تیز تھا ہر دوست اور ہمدرد سے رابط میں رہتا تھا۔۔

جمال ہر وقت کہتا تھا کہ جو سرمچار جنگ لڈرہے ہیں انکی مدد عام عوام کی ذمہداری ہے اور کریں اور جنگ کو مزید تیز کرنے کیلے اور ضلع آواراں جیسے پسماندہ علاقہ میں میر اور سرداروں کی راج تھا کھبی بھی نوجواںوں کویہان سے اٹھنے نہیں دیتے اور انکی آوازوں کو دبا دیتے تھے اسی علاقہ سے نکل کر اپنی نام فدائی کیلے مجید برگیڈ میں درج کروایا، اور بہت رازداری کے ساتھ جلد اپنی ٹرینگ ختم کر کے اپنی باری کا انتظار کرنے لگا ۔ جب انکی باری کا فیصلہ ہوگیا ، تو بہت بے صبر ہوگیا اور بولاں کے پہاڑوں کو دیکھنے کا 29 اور 30تاریخ میں بولاں کے علاقہ مچھ میں اپنے یاروں سے ہنسی اور مسکراتے ہو ئے دشمن پر کہر بن کر ٹوٹ پڑا۔ جہاں دشمن کو چھپنے کی جگہ بھی نہیں ملی، دو دن تک ایٹمی ریاست کو وہاں نچواتے رہے، جب اپنی مشن میں کامیاب ہوگئے ۔ دو دن دوراں دشمن کے78اہلکار کو مردار کرکے ایف سی ہیڈکواٹر مچھ جیل پولیس اسٹیشن اور ریلوےاسٹیشن پر قبضہ جمائے اور دشمن کی جنگی ساز و سامان کو اپنے قبضے میں لے لیا ۔

اپنی باقی دوستوں کو صیح سلامت نکال کر خود آخری گولی کا فلسفہ پر عمل پیرا ہوئے اور یوں پوری دنیا میں اپنا لوہا منوایا اور یوں سورگر کی پہاڑوں میں پلا پڑھنے والا جمال جاں بولاں کا بھی حق ادا کر گیا۔ دشمن ان کی لاشوں سے خوف زدہ تھا۔ لاشوں کو بھی ڈروں سے بمباری کیا گیا تھا ، چہرہ بلکل مسخ تھے، تیں دن تک نعشوں کو فیملی کے حوالے نہیں کیا گیا کہ اگر یہ یہاں سے اپنی آبائی گاوں جائیں گے تو ہزاروں لوگ ان کی میتوں کی استقبال کریں گے۔ مگر پھر بھی بلوچستاں کے لوگوں کو اپنے ہیروں پر ناز ہے جب جمال جان کی میت اپنے آبائی گاوں جھاو میں پہنچتا ہے تو راستے میں شیریں فرھار میں سورگر کے پہاڑ اپنےدولہے کا استقبال کرنے اپنے بند بازوں کو کھول دیتے ہیں ۔

پرندے خوشی سے گُن گاتے ہیں کہ سورگر کے نوجواں بولاں میں فدا ہو کر واپس سورگر کے آغوش میں ابدی نیند سونے آرہا ہے ۔ جب جمال جان کے نعش واجہ باغ پہنچ جاتا ہے تو پورے جھاو کے لوگ جوان پیر مرد خواتین سب بڑے اعزاز اور گرج دار ناروں کے ساتھ بلوچستاں کی بیرک میں لپیٹ کر جھاو کہڑو کی سر زمیں میں پہنچا دیتے ہیں اور کہڑو کی سرزمیں کے آغوش میں ہمیشہ کیلے سلا دیتے ہیں۔ یوں جھاو میں میر اور سردارون کی کمر توڈ دی جمال جان نے اپنی شہادت سے ہر نوجواں کی دل سے خوف ختم کر دی آج جمال جان کی قربانی کی وجہ سے جھاو میں ہر گھر میں اپنی قومی سپاہیوں کا استقبال کیا جاتا ہے ۔۔

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

Next Post

ڈیرہ مراد جمالی پولیس اہلکاروں پر دستی بم حملہ

ہفتہ مارچ 23 , 2024
ڈیرہ مراد جمالی پیرو پل جو ڈر شاخ پر روڈ کے تعمیراتی کمپنی کی حفاظت پر معمور پولیس اہلکاروں پر دستی بم حملہ کیا گیا ۔ جس میں جانی مالی نقصانات کی اطلاعات نہیں ملی ہیں۔ باخبر ذرائع کے مطابق واقعے کے بعد قابض پاکستانی فورسز کی مزید نفری علاقے […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ