ماں دل کے آنسو رو رہی تھی کے میرا بیٹا شعیب جان کہاں ہو مگر وہ خوش مزاج بیٹا ہر روز اپنے دوستوں کے ساتھ گھوم رہا تھا۔ اس کو وہ لوگ عزیز تھے جو بلوچستان کے کسی بھی کونے سے تھے وہ کبھی کسی میں فرق نہیں کرتا، کوئی سروان جھالاوان یا مکران اور کوہ سلیمان سے تھا ۔کئی بار اسی ماں نے آپ کو پکارا آپ نے اسے جواب دیا نہیں اماں آج میرے دوست آۓ ہیں میں ان کے ساتھ ہوں آتا ہوں جلدی مگر اسی دوران آپ ان دوستوں کے ساتھ مزاق میں لگ گئے وہ ماں نیند میں سو گیا صبح جلدی روتی ہوئی آنکھوں کے ساتھ جاگ گیا آپ کے کمرے میں آیا اور آپ کو دیکھ کے دل کو تسلی دیا کہ میرے جان کا ٹکڑا موجود ہے ماں انتظار میں تھا کب اس کا لخت جگر نیند سے اٹھتا ہے
اس کے ساتھ بیٹھے ان سے بات کرے مگر خدا کو منظور نہیں تھا شعیب آپ کو پتا ہے ماں رو رہی ہے یاد ہے آپ نے مجھے بتایا کہ جلدی جاتے ہیں گھر امی پریشان ہوتی ہے جب مجھے نہ دیکھے یار چلو امی کے پاس اس سے بات کرتے ہیں پر نکلتے ہیں شعیب اٹھو امی گھر میں ہے آج سارا خاندان آیا ہے آپ کو دیکھنے یاد ہے وہ ہمارے دوست لاہور کے وہ بھی آئے ہیں پروم کو دیکھنے ان کو لے کے چلتے ہیں پکنک پرشعیب اٹھو امی بہت رو رہی ہے کہاں جا رہے ہو شعیب اٹھو امی پریشان ہے کیوں سو رہے ہو شعیب امی نے کھانا نہیں کھائی ہے آپ کے انتظار میں ہے شعیب اٹھو یار جلدی کرو ہوٹل جانا ہے دوست آئے ہوئے ہیں چائے پیتے ہیں پر جلدی گھر آنا ہے امی پریشان ہوگی شعیب امی کو دیکھو امی کی تکن دور ہو جائے گی جواب دو شعیب امی گھر آئی ہے کیوں بات نہیں کرتے ہو امی آپ کے جواب کے انتظار میں صبح سے بیٹھی ہوئی ہے کسی اور سے بات بھی نہیں کر رہی بار بار آپ سے بات کرنے کو بے چین ہے شعیب پتا ہے آپ کے اچھے کتاب بلوچ اور ان کا وطن اور بلوچستان کا مسئلہ ابھی اسی صفحہ پر ہے
جہاں رات کو آپ نے چھوڑا تھا کہ دوبارہ وہاں سے شروع کروں گا وہی ٹیبل وہی کرسی آج ترس رہے ہیں کہ کوئی آئے اور وہاں بیھٹے اور مطالعہ کرے امی ان کو بند نہیں کر رہا کے اس کا شھزادہ گھر آئے گا اور اسی کرسی پہ بیٹھے اور مطالعہ کرے آج وہ ماں چیخ رہی ہے اپنے بیٹے سے بات کرنے کیلے وہ عاشق مزاج نیند میں سویا ہے گویا کوئی اس کو آواز نہیں دے رہا وہ سن رہا ہے ماں کی چیخ کو وہ آواز بھی دے رہا مگر ماں روتی روتی اس آواز کو پہچاں نہیں کر پاتی لوگ کہتے ہیں کہ خدا اپنے بندوں کو ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے مگر وہی خدا جو ایک ماں کی درد کو محسوس نہیں کر پا رہا ہے آج خدا نے بھی شکست کو تسلیم کیا اس کے پاس بھی اس درد کو کرنے کا کیفیت بھی نہیں ہے۔