عام انسان جب دنیا چھوڑ کر چلاجاتا ہے تو اس کے جانے سے ایک خاندان یا چند ایک عزیز و اقارب مختصر مدت کے لیے کرب میں مبتلا ہوسکتے ہیں، اس کے بعد پھر معمول کی زندگی۔ اس کے برعکس اگر کوئی ایسا انسان جس کی زندگی کا محور ایک عظیم اجتماعی مقصدہو، اس کا اٹھنا، بیٹھنا، زبان سے ادا کیے ہوئے الفاظ، قلم سے نکلنے والی سیاہی، الغرض ہر عمل مقصد اور فقط مقصد کا لباس زیب تن کیا ہو، تو اس کی جدائی سے پورے معاشرے میں تاریکی چھاجاتی ہے، یہ کرب اس وقت زیادہ شدت کے ساتھ محسوس کیا جاتا ہے جب آپ منزل کی جانب ابتدائی زینہ چڑھ رہے ہوں۔ حالیہ تحریک آزادی میں دھرتی کے ایسے بہت سارے فرزندجسمانی طور پر ہم سے جدا ہوچکے ہیں جن کی کمی انتہائی شدت کے ساتھ محسوس کی جاتی ہے۔ کسی تحریک کے لیے پندرہ، بیس سال کا عرصہ ایک قلیل مدت تصور کیا جاتا ہے۔ اس مختصر عرصے میں سماج کو تاریکیوں سے نکالنے والے عظیم رہنماؤں نے خود کو وطن پہ قربان کیا، انہی ہستیوں میں سے ایک شہید آغامحمود جان بھی تھا جو مدبر و دانا، جو علیم و حکیم تھا۔ وہ اپنے علم و فراست کی بدولت جس محفل میں موجود ہوتا، سب کی توجہ کا باعث بنتا۔
دانشورانہ و رہنماکردار اور تحریک آزادی سے فکری وابستگی کی وجہ سے آغا محمود جان کی جدائی کا کرب محسوس کرتے ہوئے شہید ڈاکٹر منان بلوچ نے کہا تھا کہ ”قلات یتیم ہوگیا“ دیکھنے میں تو یہ ایک مختصر جملہ ہے لیکن اس کی گہرائی میں جھانکنے سے ہم اس حقیقت سے آشنا ہوتے ہیں کہ ایسے کرداروں کی جدائی سے سماج میں بسنے والوں پہ کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔بلوچ طلبا تنظیم (بی ایس او) سے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کرنے والا شہید آغا محمود جان حالیہ تحریک آزادی کے ان رہنماؤں میں شمار ہوتا ہے جو ”حق توارپروگرام“ سے قبل قومی تحریک سے فکری و نظریاتی بنیاد پہ وابستہ ہوچکا تھا۔ وہ ایک مفکر و دانشور تھا اور اس کی فکری و نظریاتی وابستگی کی وجہ بھی اس کا یہی کردار رہا۔ یہ مقولہ مشہور ہے کہ انقلاب کو صحیح سمت فراہم کرنا دانشوروں کا کا م ہے۔ جہاں وہ اپنے علم، عمل اور فکر کی بنیاد پر کاررواں کو صحیح سمت دینے کی صلاحیت رکھنے کے ساتھ عملی طور پر اپنے رہنما کردار کو بھی ثابت کرتے ہیں۔ آغا محمود جان کے کردار کو جب پرکھتے ہیں تو اس کے ہر عمل میں ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ وہ ہمہ وقت جدوجہد آزادی کو ادارتی بنیادوں پہ استوار کرنے کی کوششوں میں مگن رہتا تھا۔
انہیں تحریک آزادی کے حصول کے لیے اداروں کی اہمیت کے بارے میں مکمل جانکاری تھی، وہ ماضی میں ہونے والی غلطیوں کو دوہرانے کو اجتماعی موت کے مترادف قرار دیتا تھا، وہ معروض و موضوع کی مناسبت سے نہ صرف تبدیلیوں کا خواہاں تھا بلکہ عملی طور پر اس بات کا قائل بھی تھا۔اسی لیے وہ اداروں کے قیام اور انہیں وقت و حالات کے سانچے میں ڈالنے کے لیے ہمہ وقت کوشش بھی کرتا رہا۔وہ ایک حقیقی رہنما تھا، وہ عوام کے ساتھ ملکر کام کرنے کا متمنی تھا، وہ روایتی طریقہ کار کو پسِ پشت ڈال چکا تھا، وہ عوام کے ساتھ جڑ چکا تھا، اور یہی ایک عظیم رہنما کی خصوصیات ہوتی ہیں۔غالباً 2000ء میں آغا محمود جان سے میری ملاقات بلوچستان یونیورسٹی میں ہوئی، دو گھنٹے کی اس ملاقات میں آغا محمود جان کو میں نے ایک انقلابی دانشور اور قومی رہنما کے روپ میں دیکھا۔ جہاں اس کی باتیں منطقی اور مدلل ہوتی تھی۔ آغا محمود جان سماج کا حقیقی معلم تھا، اپنے علم اور مدبرانہ کردار کی بدولت انہوں نے صحیح معنوں میں قوم کی رہنمائی کی۔ ان کی رہنمائی کی بدولت قوم کی ایک کثیر تعداد جہد آزادی سے وابستہ ہوگیا جو آج بھی تحریک آزادی کو ایندھن فراہم کررہے ہیں۔ جنہیں آغا محمود جان کے مجالس نصیب ہوئے ہیں وہ اس کے دانشورانہ عمل سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہے، اسی لیے آج بھی آغا محمود سے قربت رکھنے والے اکثر یہ کہا کرتے ہیں کہ آغامحمود جان ایک فرد کا نام نہیں بلکہ وہ ایک اکیڈمی تھا، جس کے کردار، عمل اور علم سے انقلاب کی روشنی پھیلتی تھی، جہاں جاتا لوگ اس کے گرویدہ ہوتے، جو لب کھولتا تو ایسا لگتا کہ بولان کے بہتے ہوئے میٹھے چشمے بولان کی خوبصورتی کو بیان کررہے ہوں، جیسے موسمِ بہار میں ”دشتِ گونڈین“ نے اپنی بنجر زمین کی خوبصورتی کو دوبالا کرنے کے لیے گواڑخ کے خوبصورت رنگ بکھیرے ہوں، جیسے بحر بلوچ کے دل لبھانے والے مناظر جو دیکھنے والوں کو اپنے اندر سما لینے کے ہنر سے آشنا ہیں۔
آغا محمود جان ایساہی تھا یا شاید اس سے بڑھکر، اور ایسے انقلابیوں کی تعلیمات کی بدولت سماج کی تقدیر بدلتی ہے۔ اس کی زندگی کا مقصد اس کا وطن اور اس وطن کے باسیوں کو ایک روشن مستقبل کی جانب گامزن کرناتھا اور اپنی شہادت تک وہ اسی مقصد کے حصول کے لیے اس یقین کے ساتھ جدوجہد کرتا رہا کہ میں رہوں یا نہ رہوں، آنے والی نسلیں روشن صبح ضرور دیکھیں گے۔ تحریک آزادی سے نظریاتی وابستگی اور ہمہ وقت مقصد کے لیے متحرک انداز کی وجہ سے وہ دشمن کے نشانے پہ تھا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ جلد یا بدیر دشمن کا حدف بن سکتا ہے، اس کے باجود بھی وہ متحرک رہا اور قوم کے باشندوں کو جہد آزادی کی راہ پہ گامزن کرنے کے لیے موسم اور دن رات میں تفریق کیے بنا، ثابت قدمی اور استقامت کے ساتھ منزل کی جانب بڑھتا رہا۔ تحریک کو آغا محمود جان کی ضرورت تھی، ابھی اسے ابدی زندگی کی جانب جانا نہیں تھا، ابھی تو”میری“ پہ عَلمِ آزادی بلند نہیں ہوا، ابھی تو ”ہر بوئی“ نے خود کو چاندی کی چادر میں نہیں لپیٹا ہے، ابھی تیرے دیدار سے چلتن کی پیاس نہیں بجھی، یہ تیرے جانے کا وقت نہیں تھا۔ یہ خیالات ہر وقت ذہن میں گردش کرتے ہیں۔۔۔ پر دشمن نے اپنے مذموم عزائم کو تکمیل تک پہنچایا اوریوں 14مارچ 2011ء کے دن گلزمین نے اپنے ”سقراط“ کے غم میں سیاہ چادر اوڑھ لیا۔