بلوچ تحریک آزادی میں بلوچ عورتوں نے میاناز کردار ادا کیا ہے بلوچستان میں مختلف تحریکیں شروع ہوئیں جن کی سربراہی بلوچ خواتین کر رہے تھے اگر تاریخ میں دیکھا جائے تو بلوچ خواتین مردوں کے شانہ بشانہ جنگ کہ میدان میں ایک صفحہ میں کھڑے تھے آزادی کی اس تحریک میں بلوچ خواتین کا بھرپور ساتھ ہونا قابلِ ستائش ہے کہ بلوچ ماضی کی طرح آج بھی اپنے عورتوں یکساں مقبول مانتھا ہے بلوچ معاشرے میں مرد و خواتین کے درمیان کسی قسم کی تفریق نہیں بلوچ معاشرے میں قومی جنگوں میں خواتین کے قومی کردار کا ذکر بار بار ملتا ہے تحریک کہ اس میدان میں عورتوں کے قلیدی کردار کا جائزہ لیں تو ہمیں کُرداستان کی خواتین فدائین اور گوریلا کاروائیاں دیکھنے کو ملتے ہیں اور اسی ضمن میں بلوچ خواتین فدائین بھی کسی اور سے پیچھے نہیں ہے
بلوچ خواتین دن بہ دن آزادی کی اس تحریک کو ایک اور پہچان دے رہے ہیں اگر ماضی میں دیکھ ہیں تو بہت سے ایسے بلوچ خواتین جنہونے اپنے خون سے تاریخ رقم کردی ہیں جس میں لمہ یاسمین،بی بی مہناز،بی بی زیبا اور اسیے بہت سارے خواتین ہیں جنہوں نے تحریک آزادی کہ لے اپنے پھول جیسے بیٹوں اور اپنے پھول جیسے بھائیوں کی قربانی دینے میں کوئی قہسر نہیں چھوڑا اس ضمن میں دیکھا جائے تو ہم شہید بانک کریمہ کی قربانیوں کا ایک لازوال فہرست مل جاہگا بانک کریمہ سیاست سے خوب واقف تھا بانک کریمہ ایک تاریخ ساز عورت تھا جس نے بلوچستان کہ لیے نہ رات دیکھا نہ کے دن بانک کریمہ کی بہلوس محنت نے بلوچ تحریک کی جہد جِہد اور مزاحمت کو ایک الگ پہچان مہا کیا ہے بانک نہ یا سابت کیا تھا کہ مزاحمت ہی زندگی ہے بانک نے جدوجہد ہی کو اپنی زندگی مقصد بنا چکا تھا اج جب بھی بلوچ خواتین کی تاریخ لکا جاہگا تو بانک صفہ اول پہ ہونگے
اگر اج کہ دور میں بلوچ خواتین کی سایسی فہرست نکالیں تو ہمیں بہت سے نام مل جانگے جس میں ڈکٹر مارنگ، ڈکٹر شلی، ڈکٹر صبیہ، بیبو بلوچ، ساہرہ بلوچ،مازیب بلوچ اور بہت سارے اسے خواتین ہے جنہونے اج کی تاریخ میں میاناز کردار ادا کیا ہے تاریخ اُن ماؤں کو بھول نہیں سکتی جنہونے اسلام آباد میں کلے آسمان تلے اپنے پیاروں کے لیے اس سرد بری موسم میں اپنے پیاروں کے لیے سرپہ احتجاج میں تھےاور ہم اپنے گوریلا اور فدائین خواتین کو بھولے نہیں ہیں کہ اُنہونے اپنے مستقبل کو رد کر کے ہمارے مستقبل کو روشن بنانے کہ لئے اپنی زندگی کا نزرانہ پیش کیا جہاں فدائی شاری بلوچ جس نے اپنی عیش و آرام زندگی کو رد کردیا ہمارے لیئے۔
شہید فدائی کامریڑ سمیہ بلوچ جس نے اٹھارہ سال کی عمر میں اپنی زندگی کا نظرانہ بلوچستان کے لیے پیش کیا بلوچ تحریک آزادی کو بلوچ خواتین نے ایک الگ ءِ پہچان دیا ہے بلوچ تحریک آزادی بغیر خوتین میں دیکھا جائے تو وہ نامکمل ہے