جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5359 دن ہوگئے.احتجاجی کیمپ میں وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ کے بیٹھے رہے، جبکہ شہید بالاچ مولا بخش کے لواحقین بھی کیمپ میں موجود رہے اور مختلف طبقہ فکر کے لوگوں نے کیمپ آکر اظہارِ یکجہتی کی۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ جنوری 2014 کو خضدار کے علاقے توتک سے تین اجتماعی قبریں برآمد ہوئی تھیں ۔ جن سے 169 افراد کی مسخ شدہ نعشیں برآمد ہوئی تھیں، جو بلوچ لاپتہ افراد کے تھے، جن میں سے کچھ شناخت ہو ئے۔ جبکہ بیشتر کی صرف ہڈیاں ملے ، ہیومن رائٹس کے اداروں نے ان کا ڈی این اے ٹیسٹ کرانے کا مطالبہ بھی کیا تھا مگر ٹیسٹ نہیں کیے گئے –
انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان سے اس وقت ہزاروں افراد جبری لاپتہ ہیں، ہمیں خدشہ ہے کہ بیشتر لوگوں کو ماورائے عدالت حراست میں قتل کر دیا جاتا ہے اور انہیں گمنام قرار دیکر دفن کیا جاتا ہے یا انکی نعشیں ویرانوں میں پھینک دیے جاتے ہیں _
شہید بالاچ کے والدین انصاف کیلئے اب بھی ریاستی عدالتوں میں آتے ہیں ، ریاست کی طرف سے کمیشن اور کمیٹی تو تشکیل پاتے ہیں، لیکن ان سے لاپتہ افراد کو کوئی ریلیف نہیں ملتا مسلسل کمیٹیاں بنا کر ریاست دنیا سامنے ایک ایسا تاثر قائم کرنا چاہتا ہے کہ وہ جبری گمشدگیوں کے مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں لیکن یہ سب دنیا کے آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے کیے جاتے ہیں –