
بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) شہید راشد زون، آواران کے ممبران پر مشتمل وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ کی وفات پر ایک تعزیتی ریفرنس منعقد کیا گیا، جس میں بی این ایم کے کارکنان اور عہدیداران نے شرکت کی۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے ماما قدیر بلوچ کی جدوجہد اور خدمات کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ مقررین کا کہنا تھا کہ ماما قدیر بلوچ نے جبری گمشدگی جیسے سنگین انسانی مسئلے کو کبھی فراموش نہیں ہونے دیا اور اپنی انتھک جدوجہد کے ذریعے اسے دنیا بھر میں اجاگر کیا۔ انھوں نے عالمی سطح پر اس مسئلے کو اٹھا کر ریاستِ پاکستان کو بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے حوالے سے جوابدہ ٹھہرایا۔
اس تعزیتی ریفرنس سے زونل صدر استاد مھران، بی این ایم مشکے زون کے سابق سیکریٹری امان اللہ بلوچ اور رکن علی بلوچ نے خطاب کیا، جبکہ تقریب کی نظامت کے فرائض زونل فنانس سیکریٹری میرک بلوچ نے انجام دیے۔
زونل صدر استاد مھران نے ماما قدیر کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ماما قدیر بلوچ بلوچ راج میں ایک روشن چراغ کی مانند تھے، جن کی روشنی نے پوری دنیا کو منور کیا۔ انھوں نے عالمی انسان دوست حلقوں کو بلوچستان کی طرف متوجہ کیا تاکہ دنیا دیکھ سکے کہ پاکستانی فوج اور ایجنسیاں بلوچ قوم پر کس طرح کے مظالم ڈھا رہی ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ ماما قدیر کے بیٹے جلیل ریکی کو پاکستانی فوج نے جبری طور پر لاپتہ کیا، جس کے بعد ماما قدیر نے ایک طویل اور تاریخی احتجاجی جدوجہد کا آغاز کیا۔ وہ تاریخ کی طویل ترین علامتی بھوک ہڑتال پر بیٹھے رہے۔ بھوک ہڑتال کو دنیا بھر میں ضمیر کی آواز سمجھا جاتا ہے، لیکن بدقسمتی سے پاکستانی حکمرانوں نے اس آواز کو مسلسل نظرانداز کیا۔
امان اللہ بلوچ نے اپنے خطاب میں کہا کہ ماما قدیر ایک مضبوط اعصاب کے مالک، باہمت اور فہمیدہ شخصیت تھے، جنھوں نے اپنی جدوجہد کے دوران بے شمار مشکلات کا سامنا کیا۔ انھوں نے اپنے بیٹے کی جبری گمشدگی کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے تمام لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے ایک تاریخی تحریک کی بنیاد رکھی، جو ان کی وفات کے بعد بھی پوری قوت سے جاری ہے۔
انھوں نے کہا کہ جب ماما قدیر کے بیٹے کی لاش پھینکی گئی تو وہ اپنے پوتے کو ساتھ لے کر لاش دیکھنے گئے، جس کے دل میں سوراخ تھا۔ لوگوں کے منع کرنے کے باوجود انھوں نے اپنے بیٹے کی لاش پوتے کو دکھائی، کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ آنے والی نسلیں یہ حقیقت یاد رکھیں کہ ان کے والد کو جبری گمشدگی کے دوران قتل کیا گیا۔ ماما قدیر نے اپنے پوتے سے کہا کہ یہ تمہارے والد کی لاش ہے، جسے پاکستانی فوجیوں نے حراست میں قتل کیا۔
مقررین نے کہا کہ ماما قدیر صرف بلوچ قوم ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں انسانی حقوق کے تحفظ کی جدوجہد کرنے والوں کے لیے ایک مثالی اور قابلِ تقلید شخصیت تھے۔ ان کی قربانیاں اور جدوجہد ہمیشہ مظلوم اقوام کے لیے مشعلِ راہ بنی رہیں گی۔
