استعمار کا ہیجمنک بیانیہ اور آزادی!

تحریر: رامین بلوچ

انسانی تاریخ کا گہرا مطالعہ یہ حقیقت آشکار کرتا ہے کہ انسان کو زیرِ نگیں رکھنے والی سب سے مؤثر قوت تلوار، توپ یا فوج نہیں بلکہ خوف ہے۔ طاقت کے یہ ظاہری مظاہر دراصل خوف کے سہارے ہی اپنی ہیبت قائم رکھتے ہیں۔ خاص طور پر استعمار نے خوف کو ایک منظم ہتھیار کے طور پر استعمال کیا، جس کے ذریعے اس نے صدیوں تک اقوام کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رکھا۔استعماری خوف ظلم، تشدد، بربریت، دبدبے، قتلِ عام اور وسائل کی اجارہ داری سے جنم لیتا ہے۔ یہ خوف محض جسمانی نہیں بلکہ نفسیاتی اور فکری ہوتا ہے، جو آہستہ آہستہ انسان کے شعور میں سرایت کر جاتا ہے۔ استعمار نے صرف زمینوں پر قبضہ نہیں کیا بلکہ انسانوں کے اذہان کو بھی مسخر کیا، اور یہی ذہنی غلامی استعمار کی سب سے خطرناک اور دیرپا فتح ثابت ہوئی۔وقت کے ساتھ غلامی میں جکڑے انسانوں نے اس خوف کو صرف قبول ہی نہیں کیا بلکہ اسے تقدیس کا لبادہ بھی اوڑھا دیا۔ طاقتور فاتح اور ظالم قوت کو کبھی والدین کا درجہ دیا گیا، کبھی رازق، کبھی محافظ اور کبھی نجات دہندہ کے روپ میں پیش کیا گیا۔ یہ وہ مرحلہ ہوتا ہے جہاں مظلوم اپنی زنجیروں سے محبت کرنے لگتا ہے اور غلامی کو اپنی بقا کی شرط سمجھ بیٹھتا ہے۔

یہ نفسیاتی کیفیت اس بات کی واضح دلیل ہے کہ استعمار کی اصل فتح میدانِ جنگ میں نہیں بلکہ انسانی شعور میں ہوتی ہے۔ جب کوئی مقبوضہ قوم یہ مان لیتی ہے کہ اس کی زندگی، روزی، امن اور شناخت سب کچھ نوآبادیاتی سامراج کے رحم و کرم پر ہے، تو پھر ظلم کو جاری رکھنے کے لیے بندوق یا گولی کی ضرورت نہیں رہتی۔ خوف خود ہی نظم و ضبط کا کام انجام دیتا ہے اور غلامی ایک معمول بن جاتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ استعمار کی طاقت بذاتِ خود کوئی اٹل حقیقت نہیں بلکہ ایک فریب ہے جو خوف کے سہارے قائم رہتی ہے۔ اس کی فوجیں، معیشت، ٹیکنالوجی اور وسائل اسی وقت تک ناقابلِ شکست دکھائی دیتے ہیں جب تک مقبوضہ اقوام ان سے مرعوب رہتی ہیں۔ جیسے ہی یہ خوف ٹوٹتا ہے، طاقت کا یہ طلسم بکھرنے لگتا ہے اور استعماری دبدبہ کھوکھلا ثابت ہو جاتا ہے۔تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ ظاہری طور پر کمزور قومیں جن کے پاس نہ جدید اسلحہ تھا، نہ بڑی معیشت اور نہ ہی وافر حربی وسائل محض بے خوفی کے سہارے طاقتور استعماری قوتوں کو شکست دے چکی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اصل طاقت محض جسمانی نہیں بلکہ اخلاقی، فکری اور شعوری ہوتی ہے، اور یہی طاقت خوف کی دیوار کو منہدم کر دیتی ہے۔

جب انسان استعمار کے خوف سے آزاد ہوتا ہے تو وہ بظاہر کمزور ہو کر بھی حقیقتاً طاقت ور بن جاتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ خوف انسان کی صلاحیتوں کو مفلوج کر دیتا ہے، جبکہ بے خوفی انہیں آزاد کر دیتی ہے۔ خوف انسان کو سوچنے، بولنے اور عمل کرنے سے روکتا ہے، اور بے خوفی اسے تاریخ کے دھارے میں مداخلت کا حوصلہ عطا کرتی ہے۔ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب طاقت کا توازن بدلنے لگتا ہے۔بے خوف انسان کو نہ دھمکی روک سکتی ہے، نہ تشدد، اور نہ ہی موت کا خوف۔ جو انسان موت کے خوف پر قابو پا لیتا ہے، اسے غلام بنانا ناممکن ہو جاتا ہے۔ آزادی ہمیشہ موت کی شکست کی کوکھ سے جنم لیتی ہے۔ وہ قومیں اور افراد جو موت کو حتمی شکست نہیں بلکہ ایک امکان سمجھ لیتے ہیں، وہی تاریخ کا رخ موڑتے ہیں۔ یہی وہ مرحلہ ہے جہاں خاموشی ٹوٹتی ہے، خوف کی دیواریں گرنے لگتی ہیں، اور آزادی کی گرج سنائی دیتی ہے۔ یہ گرج بیدار شعور اور بے خوف جرأت کا جوہر ہوتی ہے، جو ظلم کے ایوانوں کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔

استعمار کے خلاف جدوجہد کا پہلا اور سب سے بنیادی مرحلہ خوف سے نجات ہے۔ جب تک خوف مقدس بنا رہے گا، غلامی برقرار رہے گی؛ اور جس دن خوف ٹوٹ جائے گا، غلامی خود بخود دم توڑ دے گی۔ آزادی کسی بیرونی طاقت کی عطا نہیں، بلکہ ایک داخلی مزاحمت ہےخوف کے خلاف، ذہنی غلامی کے خلاف، اور جھوٹی و مصنوعی طاقت کے خلاف۔ یہی مزاحمت انسان کو انسان بناتی ہے اور قوموں کی تاریخ رقم کرتی ہے۔استعمار کی سب سے بڑی قوت نہ توپ ہے، نہ ٹینک، نہ معیشت، نہ ٹیکنالوجی؛ بلکہ خوف ہے۔ اور اس خوف کا سب سے سفاک روپ خود استعمار ہے۔ استعمار اپنی طاقت ظلم، تشدد، بربریت، خون، لوٹ مار جنگی جرائم اور وسائل کی اجارہ داری سے کم، اور ان سب کے خوف سے زیادہ قائم رکھتا ہے۔ گولی بعد میں چلتی ہے، خوف پہلے دل میں اتارا جاتا ہے۔غلام اقوام نے وقت کے ساتھ اپنے جلاد کے خوف کو مقدس بنا لیا۔ جس طاقت نے ان کی زمین لوٹی، ان کی تاریخ مسخ کی، ان کی زبان چھینی، ان کی شناخت پامال کی اور ان کی آزادی سلب کی، اسی کو محافظ اور نجات دہندہ کے روپ میں پیش کیا گیا۔ یہ وہ مقام ہے جہاں غلامی محض زنجیر نہیں رہتی، بلکہ عقیدہ بن جاتی ہے۔ استعمار یہاں جیت جاتا ہے، کیونکہ اب اسے فوج کی ضرورت نہیں رہتی؛ ذہنوں پر پہرا ہی کافی ہوتا ہے۔ غلام خود اپنے ضمیر کو قید رکھتا ہے اور اپنے قاتل کی عظمت کے قصیدے پڑھتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ استعمار کی طاقت ایک کاغذی شیر سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ اس کا دبدبہ صرف اسی وقت تک زندہ ہے جب تک محکوم خوف زدہ رہیں۔ جس دن خوف ٹوٹتا ہے، اسی دن استعمار کے ایوان لرزنے لگتے ہیں۔ تاریخ چیخ چیخ کر گواہی دیتی ہے کہ دنیا کی بڑی سامراجی طاقتیں مٹھی بھر بے خوف انسانوں کے سامنے ڈھیر ہو چکی ہیں۔ جو قوم موت سے ڈرنا چھوڑ دے، اسے کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔جب انسان خوف سے آزاد ہوتا ہے تو وہ ناقابلِ شکست ہو جاتا ہے۔ خوف انسان کو زندہ لاش بنا دیتا ہے، جبکہ بے خوفی اسے چلتا پھرتا مزاحمت کار بنا دیتی ہے۔ استعمار بندوق سے نہیں، ڈرے ہوئے دلوں پر حکومت کرتا ہے۔ اور جس دن زہن آزاد ہو جائیں، اسی دن زنجیریں ٹوٹ جاتی ہیں۔

اس میں کوئی دورائے نہیں کہ آزادی کبھی مذاکرات کی میز سے پیدا نہیں ہوتی، نہ ہی ظالم کی خیرات سے حاصل کی جاتی ہے۔ آزادی ہمیشہ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے سے جنم لیتی ہے۔ ظلم کے نظام میں خاموش رہنا معصومیت نہیں بلکہ جرم ہے، اور خوف کے ساتھ جینا زندگی نہیں بلکہ ایک تدریجی موت ہے۔ انقلاب کا پہلا نعرہ یہ نہیں ہوتا کہ “ہم طاقتور ہیں” بلکہ یہ اعلان ہوتا ہے کہ “ہم اب نہیں ڈرتے”۔ یہی جملہ ہے جو استعمار کے ایوانوں میں زلزلہ بن کر گرتا ہے۔ استعمار کو شکست دینے کے لیے اس کی فوج سے نہیں، بلکہ اس کے پیدا کردہ خوف سے لڑنا پڑتا ہے۔ جس دن یہ خوف ٹوٹ جائے، اسی دن غلامی کا جنازہ اٹھ جاتا ہے۔
استعمار کی سب سے بڑی طاقت اس کے ہتھیار، اس کی فوج یا اس کے وسائل نہیں ہوتے، بلکہ وہ خوف ہوتا ہے جو وہ محکوم قوم کے ذہن میں بٹھا دیتا ہے۔ جب تک یہ خوف زندہ رہتا ہے، غلامی قائم رہتی ہے؛ اور جب یہ خوف ٹوٹ جاتا ہے تو استعمار اپنی تمام ظاہری طاقت کے باوجود کھوکھلا ہو جاتا ہے۔ آج بلوچ اسی فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکا ہے، اور یہی اس کی آزادی کی اصل بنیاد ہے۔
ہمیں برسوں یہ سکھایا گیا کہ استعمار پہاڑ ہے، چٹان ہے، باپ ہے، رازق ہے؛ اس سے ٹکرانا خودکشی ہے، اس کے خلاف بولنا گناہ ہے، اور اس کی اطاعت ہی بقا کا واحد راستہ ہے۔ مگر یہ کوئی زمینی سچائیاں نہیں تھیں، بلکہ وہ من گھڑت عقیدے تھے جو استعمار نے اپنے قبضے کو دوام دینے کے لیے تراشے۔ حقیقت یہ ہے کہ استعمار نہ ماں ہوتا ہے نہ باپ، نہ پہاڑ ہوتا ہے نہ تقدیر؛ وہ محض ایک سامراجی، معاشی اور عسکری نظام ہوتا ہے، جو لوٹ مار اور غلبے کے لیے قائم کیا جاتا ہے۔

استعمار سب سے پہلے بندوق نہیں چلاتا؛ وہ خاموش قوتیں تخلیق کرتا ہے۔ وہ سائلنٹ فورسز کے ذریعے کام لیتا ہے، بغیر تشدد کے ذہنوں پر قبضہ کرتا ہے۔ یہی ہمارے ساتھ ہوا۔ اس نے تعلیمی نصاب لکھا، اسکولوں میں وہ تاریخ پڑھائی گئی جس میں قابض کو ہیرو اور مسیحا بنا کر پیش کیا گیا۔ جناح اور سرسید خان جیسے قابض نظام کے نمائندوں کو نجات دہندہ کے طور پر دکھایا گیا، جبکہ مقامی سہولت کار ایجنٹوں اور اشرافیہ کی من گھڑت کہانیاں ہماری اجتماعی یادداشت میں اتاری گئیں۔ اسکولوں کی اسمبلیوں میں ہمیں وہ ترانے پڑھائے گئے جو ہماری تاریخ، ہماری شناخت اور ہمارے راجی شعور سے کوئی مطابقت نہیں رکھتے تھے۔
مدرسوں میں ہمیں یہ باور کرایا گیا کہ ظلم ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے، مسخ شدہ لاشیں ہماری تقدیر ہیں، اور خاموشی صبر ہے جس کا اجر بعد میں ملے گا۔ ہمیں کہا گیا کہ انصاف قیامت میں ملے گا۔ یوں مذہب کو روحانی آزادی کے بجائے ریاستی اطاعت کا آلہ بنا دیا گیا۔ یہ سب کوئی اتفاق نہیں تھا، بلکہ ایک منظم نوآبادیاتی منصوبہ تھا سوچا سمجھا، منصوبہ بند اور پلانٹڈ۔

سیاسی ادارے تشکیل دیے گئے تاکہ ہمیں ڈی پولیٹیسائز کیا جا سکے، ہماری اجتماعی مزاحمت کو منتشر کیا جائے، اور شعوری بیداری کو جرم بنایا جائے۔ بلوچ نیشنلزم کو کفر قرار دیا گیا، ، اوراحتجاج کو ریاست دشمنی بنا دیا گیا۔ مقصد واضح تھا: خوف کو زندہ رکھنا، تاکہ غلامی قائم رہے۔لیکن تاریخ کا فیصلہ یہی ہے کہ جب کوئی قوم خوف سے آزاد ہو جاتی ہے تو وہ بظاہر کمزور ہو کر بھی حقیقتاً طاقتور بن جاتی ہے۔ کیونکہ خوف انسان کی صلاحیتوں کو مفلوج کرتا ہے، اور بے خوفی انہیں آزاد کر دیتی ہے۔ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب طاقت کا توازن بدلنے لگتا ہےاور استعمار، اپنی تمام تر فوجی اور معاشی قوت کے باوجود، شکست کے دہانے پر آ کھڑا ہوتا ہے۔جب بلوچ نے سوال کرنا شروع کیا،جب اس نے یہ ماننے سے انکار کر دیا کہ اس کی لاش ہی اس کی تقدیر ہے،اور جب اس نے یہ سمجھ لیا کہ خوف کوئی فطری حقیقت نہیں بلکہ ایک پیدا کیا گیا ہتھیار ہےتو اسی لمحے استعمار کی بنیادیں لرزنے لگیں۔یہی وہ نکتۂ آغاز ہے جہاں محکوم، بظاہر کمزور ہوتے ہوئے بھی، حقیقتاً طاقتور ہو جاتا ہےاور قابض، اپنی تمام تر عسکری، معاشی اور بیانیاتی طاقت کے باوجود، خوف زدہ ہو جاتا ہے۔آج بلوچ جہدکار موت کو ہتھیلی پر رکھ کر جدوجہد کر رہے ہیں،لیکن یہ خودکشی نہیں یہ شعوری فدائیت ہے۔کیونکہ جو قوم موت کے خوف سے آزاد ہو جائے،اسے زندہ رکھنے یا مارنے کی

طاقت کسی ریاست کے پاس باقی نہیں رہتی۔

یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ استعمار صرف گولی نہیں چلاتاوہ بیانیہ استعمال کرتا ہے،مذہب کو ہتھیار بناتا ہے، میڈیا، خوف، لالچ، مراعات اور شراکت سب کچھ بروئے کار لاتا ہے۔وہ بندوق سے پہلے نصاب، منبر اور عقیدہ استعمال کرتا ہے۔استعمار ہمیشہ خوف کو تقدس کا لباس پہنا کر پیش کرتا ہے:کبھی وہ “ریاست” بن جاتا ہے،کبھی “باپ”،کبھی “پہاڑ”،اور کبھی “ناقابلِ شکست ”۔ہم سے کہا گیا:استعمار کے خلاف بات نہ کرو، یہ پہاڑ ہے،سر ٹکراؤ گے تو ٹوٹ جاؤ گے۔
یہ باپ ہےاس کی تعظیم کرو۔یہ تمہارے اعمال کا نتیجہ ہے۔
یہ تمہاری تقدیر ہے۔مدرسوں میں مذہب کو استعمال کیا گیا تاکہ ظلم کو خدا کی مرضی بنا دیا جائے۔لاشیں دی گئیں، اور کہا گیا:“صبر کرو، یہ آزمائش ہے۔”یہی وہ اوزار تھے جہاں مذہب، نصاب اور ریاست تینوں استعمار کے اسٹیپنی بن گئے۔فرانز فینن کہتا ہے:“نوآبادیاتی نظام مذہب کو بھی ایک ہتھیار بنا لیتا ہے،تاکہ محکوم اپنی زنجیروں کو بوسہ دے۔”بلوچ سماج میں ہر سمت زنجیریں ڈال دی گئیں زبان پر،سوچ پر،سوال پر،اور مزاحمت پر۔مگر استعمار ایک بنیادی حقیقت بھول گیا:خوف ہمیشہ عارضی ہوتا ہے،اور شعور پائیدار۔جس دن بلوچ نے یہ جان لیا کہ استعمار نہ ماں ہوتا ہے،نہ باپ،نہ پہاڑ،نہ چٹان، نہ کوئی دیوتا نہ کوئی ہاتھی وہ دن استعمار کی شکست کا پہلا دن تھا۔جب بلوچ نے یہ سمجھ لیا کہ ظلم تقدیر نہیں بلکہ دہشت گردی ہے،جب اس نے یہ پہچان لیا کہ خاموشی عبادت نہیں بلکہ جرم ہے،اور جب اس نے یہ ماننے سے انکار کر دیا کہ اس کی لاش خدا کی مرضی ہےوہیں سے مزاحمت نے جنم لیا۔فینن کہتا ہے کہ آزادی اس لمحے پیدا ہوتی ہے جب محکوم یہ کہہ دے:“میں وہ نہیں ہوں جو تم نے مجھے بتایا تھا۔”آج بلوچ یہی کہہ رہا ہے۔اسی لیے استعمار گھبراہٹ میں ہے،
کیونکہ اس کی اصل طاقت کا منبعہ خوف ختم ہو چکی ہے۔
اور یہ ایک اٹل سچ ہےہم جتنا زیادہ بے خوف ہوں گے،
یہ جنگ اتنی ہی مضبوط ہوگی۔

یہاں ایک اضافی نوٹ لکھنا ضروری ہے، کیونکہ ایک بنیادی مغالطہ اکثر مقبوضہ اقوام کے شعور میں سرایت کر جاتا ہے۔
اگر کوئی مقبوضہ قوم ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ جائے اور یہ سمجھنے لگے کہ آزادی اور انصاف اسے قدرت (نیچر) خود بخود عطا کر دے گی، تو میرے نزدیک یہ سوچ نہ صرف غیر منطقی ہے بلکہ خطرناک بھی ہے۔آزادی نہ فطری عطیہ ہے، نہ آسمانی انعام۔اس کے لیے جدوجہد کرنا پڑتی ہے، مزاحمت کرنا پڑتی ہے،لڑنا پڑتا ہے، اور قربانی دینا پڑتی ہے۔انصاف کسی قدرتی نظام سے ٹپک کر نہیں گرتا؛یہ مقبوضہ کی محنت، عمل، جفاکشی، جدوجہد اور جانثاری کی پیداوار ہوتا ہے۔میرے نزدیک نیچر منصف نہیں۔انصاف اور آزادی کوئی فطری حقیقت نہیں بلکہ انسانی جدوجہد کا حاصلِ وصول ہے۔
انسان خود ایک بڑا تخلیق کار ہےوہی انصاف تخلیق کرتا ہے،
وہی قانون بناتا ہے،وہی ریاست اور اخلاقی تصورات وضع کرتا ہے۔مقبوضہ اقوام نے اکثر اپنی کمزوری، خوف اور بے بسی کو چھپانے کے لیے قدرت پر انصاف کا اخلاقی لیبل چپکا دیا،حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ نیچر کو نہ انسان سے کوئی خاص دلچسپی ہے،نہ اس کے دکھ سکھ سے۔
برٹرینڈ رسل واضح طور پر لکھتا ہے کہ:“کائنات کسی اخلاقی مقصد کے تحت تخلیق نہیں کی گئی۔”زلزلہ مسجد اور کوٹھے میں فرق نہیں کرتا،وبا نیک اور بد کو الگ نہیں کرتی،بارش اور سیلاب کسان اور شہرون کو ایک ہی نظر سے دیکھتے ہیں۔اگر نیچر واقعی منصف ہوتی توبچوں کا کینسر،قحط،اور قدرتی آفات کسی اخلاقی منطق کے تابع ہوتیں۔حقیقت یہ ہے کہ نیچر صرف قوانین جانتی ہے،
اقدار نہیں۔انصاف ایک انسانی ایجاد ہےبالکل اسی طرح جیسے قانون، ریاست، اور خدا کے ادارے۔یہ سب انسانی شعور کی تخلیقات ہیں، فطرت کے عطیات نہیں۔

نیطشے اس نکتے کو بے رحمی سے بے نقاب کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے:“تم انصاف کی بات اس لیے کرتے ہو کیونکہ تم طاقت نہیں رکھتے۔”قدرت میں طاقتور غالب ہوتا ہے،کمزور مٹ جاتا ہے۔اور یہ نہ ظلم ہے، نہ انصاف،یہ زندگی کی حیاتیاتی منطق ہے۔انصاف کا تصور دراصل کمزور انسان کی اخلاقی چیخ ہے،
جو وہ طاقتور کے سامنے مارے جانے سے پہلے بلند کرتا ہے۔
اسی لیے نیطشے کہتا ہے:“قدرت کو اخلاقیات کی عدالت میں نہ گھسیٹووہ جج نہیں، وہ میدانِ جنگ ہے۔”لہٰذا اگر مقبوضہ قوم انصاف کو نیچر سے مانگتی ہے،تو وہ دراصل اپنی غلامی کو فلسفے کا لبادہ پہنا رہی ہوتی ہے۔انصاف مانگا نہیں جاتا،چھینا جاتا ہے، تخلیق کیا جاتا ہے، اور جدوجہد سے حاصل کیا جاتا ہے۔

انسانی تاریخ کا سب سے خطرناک فکری مغالطہ یہ رہا ہے کہ ظلم، جبر اور ناانصافی کو قدرت کے کھاتے میں ڈال دیا جائے۔جب ریاست جبر کرتی ہے تو کہا جاتا ہے: یہ نظامِ فطرت ہے؛جب سرمایہ دار محنت کش کا خون نچوڑتا ہے تو ایک فلسفہ گھڑ لیا جاتا ہے کہ طاقتور ہی آگے بڑھتا ہے؛

اور جب غلامی صدیوں تک قائم رہتی ہے تو اسے قدرتی ترتیب قرار دے کر تقدیس عطا کر دی جاتی ہے۔یہ وہ مقام ہے جہاں انسان قدرت کو نہیں،بلکہ اپنی بزدلی کو مقدس بنا دیتا ہے۔قدرت نہ انصاف کی ضامن ہے،نہ ظلم کی وکیل۔
قدرت تو محض قوتوں کا ایک اندھا توازن ہےنہ اس کی آنکھ میں اخلاق ہے،نہ اس کے ہاتھ میں قانون۔طوفان غریب اور امیر میں فرق نہیں کرتا،زلزلہ کسی اخلاقی دلیل کے تحت نہیں آتا،اور جنگل میں شیر کی فتح کسی اخلاقی برتری کا ثبوت نہیں ہوتی۔چنانچہ جب انسانی سماج میں ظلم کو قدرت کا نام دیا جاتا ہے تو یہ دراصل اخلاقی ذمہ داری سے فرار کی ایک فکری چال ہوتی ہے۔یہی وہ نکتہ ہے جہاں سیاسی شعور جنم لیتا ہے۔آزادی قدرت کا تحفہ نہیں۔آزادی کسی آسمانی نظم کا انعام نہیں۔آزادی سیاسی، فکری اور مزاحمتی جدوجہد کا نتیجہ ہے۔

اگر قدرت میں انصاف ہوتا تو غلامی کبھی وجود میں نہ آتی؛اگر انصاف فطری ہوتا تو نوآبادیات، نسل پرستی اور استحصال کو صدیوں کی سرپرستی نہ ملتی۔غلامی کا خاتمہ کسی قدرتی قانون نے نہیں کیایہ انسانوں نے کیا،اپنے عمل، اپنی قربانی اور اپنی مزاحمت سے۔آزادی کوئی فطری حادثہ نہیں؛یہ ایک تخلیقی انسانی عمل ہے۔یہ وہ جوہر ہے جو قدرت نے نہیں لکھا،بلکہ انسانوں نےاپنے خون،اپنی فدائیت،اور اپنی جدوجہد سے تحریر کیا ہے۔جہاں انسان ظلم کو فطرت سمجھنا چھوڑ دیتا ہے،وہیں تاریخ حرکت میں آتی ہے۔اور جہاں تاریخ حرکت میں آتی ہے،وہیں آزادی ایک امکان سے نکل کر حقیقت بن جاتی ہے۔اصل سوال یہ نہیں کہ قدرت کیا چاہتی ہے؛اصل سوال یہ ہے کہ انسان کیا قبول کرنے سے انکار کرتا ہے۔کیونکہ جس دن انسان نے ظلم کو مقدر ماننے سے انکار کر دیا،اسی دن قدرت کے نام پر کھڑی ہوئی ہر ناجائز طاقت اپنی اخلاقی بنیاد کھو دیتی ہے۔
اور وہی لمحہ آزادی کا لمحہ ہوتا ہے۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

شہید اقبال: وہ خاموشی جو دلوں میں بولتی ہے

اتوار دسمبر 28 , 2025
تحریر: محبت بلوچ کچھ جدائیاں ایسی ہوتی ہیں جو وقت کے ساتھ مدھم نہیں ہوتیں، بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اور گہری ہو جاتی ہیں۔ شہید اقبال کی جدائی بھی ایسی ہی ہے۔ یہ وہ دکھ ہے جو صرف آنکھوں سے نہیں بہتا، بلکہ دل کے اندر اتر کر […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ