شناخت کے لیے جدوجہد جرم نہیں، عشق ہے۔ ڈاکٹر شلی بلوچ کے خطاب کے تناظر میں

تحریر: رامین بلوچ

گزشتہ دنوں شال میں بلوچ وومن فورم کے زیرِ اہتمام بلوچ راجی راہشون اور خواتین مزاحمت کی علامت، بانک کریمہ بلوچ کی پانچویں برسی کے موقع پر ایک باوقار یادگاری ریفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ یہ تقریب دو حصوں پر مشتمل تھی، جس میں فکری، فنی، ثقافتی اور ادبی سرگرمیوں کے ذریعے بانک کریمہ بلوچ کی جدوجہد اور بلوچ قومی تحریک میں ان کے تاریخی کردار کو بھرپور خراجِ عقیدت پیش کیا گیاجس کی وہ بجا طور پر حق دار تھیں۔تقریب کا آغاز ماما قدیر بلوچ اور جبری طور پر گمشدہ کیے گئے لاتعداد بلوچ فرزندان کی یاد میں دو منٹ کی خاموشی سے کیا گیا، جس نے پورے ہال کو گہرے احترام، سنجیدگی اور راجی بزگی کے احساس سے بھر دیا۔تقریب کے پہلے حصے میں بلوچ "راجی سوت” پیش کیا گیا، جس کے بعد بلوچ وومن فورم کی جانب سے تیار کردہ ڈاکیومنٹری فلم “کریمہ: بلوچستان کی شیرزال” پردہ اسکرین پر دکھائی گئی۔ اس فلم میں بانک کریمہ بلوچ کی سیاسی جدوجہد، مزاحمتی کردار اور بلوچ قومی تحریک سے ان کی غیرمتزلزل وابستگی کو مؤثر اور مدلل انداز میں اجاگر کیا گیا۔اسی حصے میں بلوچ وومن فورم کے مرکزی آرگن کے پہلے شمارے “برمش” کی باضابطہ رونمائی بھی عمل میں آئی، جسے بلوچ خواتین کی فکری، ادبی اور سیاسی آواز کے طور پر ایک اہم اور تاریخی پیش رفت قرار دیا جا سکتا ہے۔تقریب کے آخری حصے میں آرٹس ایگزیبیشن اور بُک اسٹال کا انعقاد کیا گیا، جہاں بلوچ فنکاروں کی جانب سے بانک کریمہ بلوچ کے حوالے سے تخلیق کیے گئے فن پارے نمائش کے لیے پیش کیے گئے۔ یہ فن پارے محض جمالیاتی اظہار نہیں تھے بلکہ بلوچ مزاحمتی جدوجہد کی زندہ دستاویزات تھے۔ بلوچ فنکاروں نے رنگوں، لکیروں اور علامتوں کے ذریعے بانک کریمہ بلوچ اور بلوچ سرزمین کے زخموں، درد اور مزاحمت کو کینوس پر منتقل کر دیا تھا۔

تقریب سے بلوچ وومن فورم کی سربراہ ڈاکٹر شلی بلوچ کا خطاب نہایت فکرانگیز اور لائقِ تحسین تھا۔ زیرِ نظر مضمون محض اس تقریب کی روئیداد نہیں بلکہ اس میں ڈاکٹر شلی بلوچ کے فکری خطاب اور بانک کریمہ بلوچ کی عملی زندگی، تعلیمات،جدوجہد اور ان کے ناقابلِ فراموش کردار کو سمیٹنے کی کوشش کی گئی۔ڈاکٹر شلی بلوچ کسی بھی پہلو سے جذباتی مقرر نہیں ہیں۔ وہ جملوں کو سطحی یا وقتی جوش کے ساتھ ادا نہیں کرتی، بلکہ ان کا انقلابی اسلوب ایک سنجیدہ فکری مکالمہ اور شعوری دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ انہوں نے بانک کریمہ بلوچ کی جدوجہد کو فکری، سیاسی اور تاریخی سیاق و سباق میں رکھ کر پرکھا اور واضح کیا کہ یہ جدوجہد محض ایک فرد کی نہیں بلکہ ایک مشترکہ قومی ذمہ داری کا تسلسل ہے۔ ان کے خطاب نے نہ صرف کریمہ بلوچ کے کردار کو تاریخ کے درست مقام پر رکھا بلکہ ہم سب کے کندھوں پر عائد بھاری ذمہ داریوں کی بھی نشاندہی کی۔

اس پورے دورانیے میں بلوچ وومن فورم کی بانی سربراہ ڈاکٹر شلی بلوچ کا خطاب غیر معمولی اہمیت کا حامل تھا۔ انہوں نے نہایت واضح اور دوٹوک الفاظ میں کہا کہ موجودہ گھٹن زدہ، جبر آلود اور خوف مسلط کرنے والے حالات میں اس نوعیت کے پروگراموں کا انعقاد محض ایک سرگرمی نہیں بلکہ ایک عملی مزاحمت ہے، اور یہ مزاحمت کسی چیلنج سے کم نہیں۔انہوں نے کہا کہ انقلاب کبھی سازگار حالات کی کوکھ سے جنم نہیں لیتا۔ تاریخ گواہ ہے کہ انقلاب کے لیے حالات کا انتظار نہیں کیا جاتا، بلکہ جدوجہد کے ذریعے حالات پیدا کیے جاتے ہیں۔ جو قومیں “مناسب وقت” کی آس میں خاموش رہتی ہیں، وہ وقت کے قبرستان میں دفن ہو جاتی ہیں۔ وقت خود نہیں بدلتا، وقت کو بدلا جاتا ہے۔ڈاکٹر شلی بلوچ نے کہا کہ گھٹن زدہ فضا میں بولنا، مزاحمت کرنا، آواز اٹھانا اور سوال کرنا پورے استعماری نظام کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن جاتا ہے۔ اور یہی خطرہ جدوجہد کی سانس ہے۔ یہی سانسوں کی ردھم آنے والے کل کی بنیاد رکھتی ہے۔ جب یہ سانس رکتی ہے تو تاریخ مر جاتی ہے، اور جب یہ سانس تیز ہوتی ہے تو سامراج کے ایوان لرزنے لگتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس راستے پر چلنے کے لیے ہمیں رسک لینا ہوگا، خطرات سے کھیلنا ہوگا، اور قربانی کے لیے خود کو ذہنی، فکری اور عملی طور پر تیار کرنا ہوگا۔ خاموشی، مصلحت اور انتظار جدوجہد کی فطرت کے خلاف ہیں۔ خاموش رہ کر سازگار حالات کا انتظار کرنا دراصل ظلم کے ساتھ غیر اعلانیہ اتحاد ہے۔ان کے بقول، جدوجہد وہ شعلہ ہے جو خود اپنے لیے راستہ بناتی ہے، وہ روشنی ہے جو اندھیروں سے اجازت نہیں مانگتی۔ اگر ہم نے بولنا چھوڑ دیا، اگر ہم نے مزاحمت سے منہ موڑ لیا، تو پھر تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ آج ایسے حالات مسلط کر دیے گئے ہیں جہاں ریاست کو پانچ یا چھ افراد کے اکٹھا ہونے سے بھی خوف لاحق ہے، جہاں اجتماع اور تقاریب جرم بنا دیا گیا ہے
۔ مگر اس جبر اور پابندی کے باوجود لوگوں کا یہاں جمع ہونا، ایک سیاسی اور فکری تقریب کا انعقاد کرنا، اس سچ کا اعلان ہے کہ بلوچ قوم کا مزاحمتی شعور زندہ ہے اس مین کوئی شک نہین کہ جب استعمار مظلوموں کے اکٹھ اوراجتماع سے ڈرنے لگے تو سمجھ لینا چاہیے کہ جبر کی ایوانوں مین زلزلہ برپا ہوچکا ہے ۔ ایسے اجتماعات محض لوگوں کا مل بیٹھنا یا فیشن شو نہیں ہوتے بلکہ یہ استعماری تسلط کے سینے میں اترا ہوا وہ خنجر ہوتے ہیں جو اس کی طاقت کے غرور کو چیر کر رکھ دیتے ہیں

ڈاکٹر شلی بلوچ نے مزید کہا کہ دنیا میں انسانوں کی تعداد بے شمار ہے، مگر تاریخ میں صرف وہی لوگ زندہ رہتے ہیں جو اپنی ذات کی محدودات سے نکل کر کسی عظیم مقصد کے لیے اپنی زندگی وقف کر دیتے ہیں۔ ان کے مطابق بانک کریمہ بلوچ بھی انہی چند منفرد شخصیات میں شامل تھیں نے کہا کہ بانک کریمہ بلوچ بھی انہی چند لوگوں میں شامل تھیں جنہوں نے اپنی ذاتی زندگی کو پسِ پشت ڈال کر بلوچستان اور بلوچ قوم کو اپنا مقصد حیات بنایا، اور آخری سانس تک بلوچ جدوجہد سے اپنی وابستگی کو مضبوطی سے نبھایا۔ یہی پختہ عزم یہی فکری استقامت اور یہی قربانی کا شعور انسان کو ایک عام فرد کے درجے سے اٹھا کر ایک عظیم انسان کے مقام تک پہنچا دیتا ہے۔

اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو ایسے عظیم افراد ہی تاریخ کا خالقِ ہوتے ہیں۔ انسانی سماج ہمیشہ سے غلام اور نوآبادی نہیں رہا انسان کو اپنی موجودہ جسمانی ساخت میں ارتقاء پزیر ہوئے قریبا دو لاکھ سال ہوچکے ہیں اگرچہ 33لاکھ سال پرانے پتھر کے اوزار بھی دریافت ہوچکے ہین۔اس کے برعکس نوآبادیات،فتوحات اور قبضہ کا وجود محض پچھلے آٹھ سے دس ہزار سال کے دوران ہی نمایاں ہوتاہے۔ یون انسانی تاریخ کا بیشتر حصہ سامراجیت اور قبضہ گیریت کی غلاظت سے پاک رہا ہے۔ قدیم انسان اشتراکی ماحول میں زندہ رہا جہاں بقاء اجتماعی تھی اور طاقت کا ارتکاز کسی ایک مرکز میں نہیں تھا۔تاریخ کبھی ایک ہی جگہ جنم نہیں لیتی۔اگر ایسا ہوتا تو شاید انسان آج بھی غاروں میں آگ جلا رہا ہوتا۔ تاریخ دراصل ایک مسلسل سفر ہے،ایک ایسا قافلہ جو ایک خطے سے نکلتا ہے، دوسرے خطوں سے گزرتا ہے، کہیں ٹھہرتا ہے، کہیں اپنی صورت بدلتا ہے اور کہیں بالکل نئی شناخت اختیار کر لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ کو کسی ایک قوم، ایک زبان یا ایک سرحد میں قید نہیں کیا جا سکتا۔

فرانسیسی انقلاب پیرس کی گلیوں میں بھڑکا، مگر اس کی چنگاریاں یورپ کی سرحدوں تک محدود نہ رہ سکیں۔ سوال یہ نہیں کہ انقلاب کہاں پیدا ہوا، اصل سوال یہ ہے کہ وہ کہاں کہاں زندہ رہا۔ یہی تاریخ کا اصل مزاج ہے۔ وہ نقل مکانی کرتی ہے، ہجرت کرتی ہے، اور اپنے ساتھ الفاظ نہیں بلکہ نظریات لے کر چلتی ہے۔ اور نظریات کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔مارکس جرمنی میں پیدا ہوا، روس میں انقلاب کی صورت اختیار کی، چین میں کسانی تحریک بنا، اور لاطینی امریکہ میں استعمار مخالف بیانیہ بنی ۔ ہر جگہ زبان بدلی، نعروں کا آہنگ بدلا، مگر سوال وہی رہا: طاقت کو جواب دہ کیسے بنایا جائے؟ جبر و استعمارکے نظام کو کیسے چیلنج کیا جائے؟

تاریخ جب کسی نئے سیاق میں داخل ہوتی ہے تو وہ محض ایک پرانی کتاب نہیں رہتی جسے سرسری طور پر پڑھ کر بند کر دیا جائے؛ وہ نئے سوالات کو جنم دیتی ہے اور ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم اسے اپنے عہد کے آئینے میں دیکھیں۔ تاریخ کا یہی زندہ پن اسے محض ماضی کا بیان نہیں رہنے دیتا، بلکہ حال کی تفہیم اور مستقبل کی سمت متعین کرنے کا وسیلہ بنا دیتا ہے۔آزادی ہی کی مثال لیجیے۔ یورپ میں آزادی کا مفہوم بادشاہت اور جاگیردارانہ اقتدار سے نجات کے گرد گھومتا تھا، جب کہ نوآبادیاتی دنیا میں آزادی کا مطلب براہِ راست قبضے، تسلط اور سامراجی جبر سے چھٹکارا تھا۔ یہی فکری فرق اس حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے کہ تاریخ کو اگر جامد، غیر متحرک اور مقدس متن سمجھ لیا جائے تو وہ ایک بوجھ میں تبدیل ہو جاتی ہے؛ لیکن اگر اسے زندہ، متحرک اور سوال اٹھانے والی قوت مانا جائے تو وہ رہنمائی کا سرچشمہ بن جاتی ہے۔تاریخ کوئی مزار نہیں کہ اس پر محض چادر چڑھا دی جائے۔ تاریخ دراصل ماضی، حال اور مستقبل کے درمیان ایک مسلسل مکالمہ ہے۔ یہ مکالمہ اسی وقت بامعنی ہو سکتا ہے جب ہم یہ تسلیم کریں کہ خیالات سرحدوں کے پابند نہیں ہوتے، زبانیں بدل لیتے ہیں، اور ہر نئے سیاق میں خود کو نئے معنی پہنا لیتے ہیں۔شاید یہی تاریخ کا سب سے بڑا سبق ہے: جو خیال زندہ ہوتا ہے، وہ کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی صورت میں، دوبارہ جنم لے لیتا ہے۔ اور وہ سماج جو اس جنم کو سمجھنے، قبول کرنے اور اس سے سیکھنے سے انکار کر دے، وہ خود تاریخ کے حاشیے پر چلا جاتا ہے۔

1789ء کا فرانسیسی انقلاب محض ایک سیاسی ہلچل نہیں تھا؛ یہ یورپ کی اجتماعی روح میں پڑنے والی وہ دراڑ تھی جس سے صدیوں پرانی مطلق العنانیت اور استعماری جبر ٹوٹ کر بکھر گیا۔ یہ انقلاب تخت و تاج کے خلاف عوامی مزاحمت ضرور تھا، مگر اس کی اصل اہمیت اس فکری زلزلے میں مضمر ہے جس نے یورپ کے ذہن کو نئی سمت دی، سماج کے پرانے سانچوں کو توڑا، اور انسان کو بحیثیتِ انسان دیکھنے کی بنیاد رکھی۔ یہی وہ لمحہ تھا جب تاریخ نے پہلی مرتبہ باقاعدہ انداز میں یہ سوال اٹھایاکہ آزادی کا مفہوم کیا ہے؟یہی سوال بعد کی صدیوں میں مختلف خطوں میں مختلف لہجوں کے ساتھ دہرایا گیا۔ چے گویرا نے اسے لاطینی امریکہ کے جنگلوں میں اٹھایا، فیڈل کاسترو نے کیوبا میں ریاستی ڈھانچے کو چیلنج کیا، بھگت سنگھ نے ہندوستان میں برٹش قبضہ کے خلاف وار کیا، عمر مختار نے لیبیا کے ریگستانوں میں فاشزم کے خلاف مزاحمت کو علامت بنایا، ہوچی منہ نے ویت نام میں قومی آزادی کو عوامی جدوجہد سے جوڑا، ماؤ زے تنگ نے کسان کو تاریخ کے مرکز میں لا کھڑا کیا، اور لینن نے ریاست و انقلاب کے تعلق پر نئی بحث چھیڑی۔

اسی عالمی مکالمے اور تاریخ کے اسی تسلسل میں اگر بانک کریمہ بلوچ کی جدوجہد کو رکھا جائے تو وہ محض ایک علاقائی سیاسی کردار نہیں رہتیں بلکہ ایک عہد، ایک روایت اور ایک فکری تسلسل کی علامت بن کر سامنے آتی ہیں۔ تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ مزاحمت کبھی اچانک پیدا نہیں ہوتی، نہ ہی وہ کسی بند کمرے میں لکھی گئی حکمتِ عملی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ مزاحمت جبر اور استحصال کے خلاف انسانی حافظے میں پلتی ہے، نسلوں کے دکھ، اور نامکمل خوابوں سے توانائی حاصل کرتی ہے۔ کریمہ بلوچ بھی اسی روایت کا تسلسل تھی جو صدیوں سے بلوچ قوم کی آزادی، شناخت اور وقار کے لیے جاری جدوجہد میں سانس لے رہی ہے۔کریمہ بلوچ کی سیاست کسی خواب سے جاگ کر اچانک لیڈر بن جانے کی کہانی نہیں تھی۔ وہ کسی ایلیٹ کلاس سے جڑی نہیں تھی، ان کی سیاست اسی گل زمین کی خمیر سے اٹھی، اپنے لوگوں کے دکھوں سے جڑی، اور گلی کوچوں میں پروان چڑھی۔ وہ کیمپس کی محدود سیاست تک قید رہنے والی رہنما نہیں تھیں، بلکہ وہ ایک عوامی، ایک ماس لیڈر تھیں۔ ان کا اثر کسی ایک تنظیم یا ایک پلیٹ فارم تک محدود نہیں تھا؛ وہ خود ایک متحرک تحریک تھیں، ایک ایسی آواز جو فرد کی حدوں سے نکل کر قومی ضمیر کی نمائندہ بن گئی تھی۔ کریمہ بلوچ کو سمجھنے کے لیے ہمیں فرد کے بجائے عمل، اور نام کے بجائے معنی پر توجہ دینی ہوگی۔ وہ ایک جسم نہیں تھیں جسے خاموش کیا جا سکے، وہ ایک سوال تھیں جو ریاستی بیانیے کے سامنے کھڑا تھا۔

کریمہ بلوچ کی سب سے بڑی فکری اور سیاسی اہمیت یہ تھی کہ انہوں نے خواتین کو جدوجہد کے آزادی کے نیو کلیس میں لا کھڑا کیا۔ وہ بلوچ تاریخ میں ان صف اول کے خواتین میں شامل تھیں جنہوں نے قومی آزادی، جبری گمشدگیوں اور ریاستی تشدد کے خلاف نہ صرف آواز اٹھائی بلکہ خواتین کو منظم کیا، انہیں سڑکوں پر لے آئیں، انہیں یہ احساس دلایا کہ سیاسی جدوجہد صرف مردوں کا میدان نہیں۔ اس عمل میں انہوں نے پدرسری سماجی ڈھانچوں کو بھی چیلنج کیا اور ریاستی جبر کو بھی۔ یہ دوہرا چیلنج تھا، اور شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی جدوجہد زیادہ خطرناک سمجھی گئی۔

عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو کریمہ بلوچ کی سیاست لاطینی امریکہ کی ماؤں، جنوبی افریقہ کی اینٹی اپارتھائیڈ تحریک، اور عرب دنیا کی اُن خواتین کی یاد دلاتی ہے جنہوں نے ریاستی جبر کے سامنے خاموشی اختیار کرنے سے انکار کیا۔ یہ ایک عالمی مزاحمتی مکالمہ ہے، جہاں درد کی زبانیں بدل جاتی ہیں مگر معنی وہی رہتے ہیں۔ کریمہ بلوچ اسی مکالمے کا حصہ تھیں ایک قومی آواز جو عالمی ضمیر سے جڑتی ہے۔ان کی جدوجہد ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ قیادت کا مفہوم طاقت کے مراکز تک رسائی نہیں، بلکہ طاقت کے بیانیے کو چیلنج کرنا ہے۔ وہ محض ایک فرد نہیں تھیں؛ وہ ایک عمل تھیں جس نے یہ ثابت کیا کہ اگر سوال زندہ رہے تو کردار کو مٹایا نہیں جا سکتا۔ کریمہ بلوچ اسی تسلسل کی علامت ہیں، جہاں مزاحمت فرد سے نکل کر تاریخ کا حصہ بن جاتی ہے، اور جہاں ایک عورت کی آواز ایک پوری قوم کے اجتماعی شعور کی ترجمان بن جاتی ہے۔

ڈاکٹر شلی بلوچ نے اپنی تقریر میں ایک جملہ بار بار دہرایا کہ ہر کوئی یہ کہتا ہے کہ وہ نیشنلِسٹ ہے، مگر نیشنلِسٹ بننا آسان نہیں۔ ان کے نزدیک نیشنلزم کو پرکھنے کا ایک واضح پیمانہ موجود ہے:“نیشنلزم انگاروں کے ساتھ کھیلنے کا نام ہے۔”ان کے مطابق قوم دوستی کسی محفوظ راستے یا جان کی امان کا انتخاب نہیں، بلکہ قربانی اور بے خوفی کا وہ سفر ہے جس میں ہر قدم کانٹوں پر رکھ کر چلنا پڑتا ہے۔ نیشنلزم کوئی رومانوی تصور نہیں، نہ ہی اقتدار تک پہنچنے کی سیڑھی؛ یہ ایک مسلسل آزمائش ہے۔ جو قوم اپنے حقِ شناخت کی بات کرتی ہے، اسے ریاستی جبر، سماجی تنہائی اور متعدد محاذوں پر جدوجہد کا سامنا کرنا پڑتا ہےخود سے لڑنا پڑتا ہے، سماج سے، حالات سے، اور

بالآخر انگاروں پر چلنا پڑتا ہے۔نیشنلزم آرام دہ کرسیوں پر بیٹھ کر، نرم کمبل اوڑھ کر مکمل نہیں ہوتا؛ یہ جیلوں، جلاوطنیوں اور قبروں کے سائے میں پروان چڑھتا ہے۔ نیشنلزم کے لیے انگاروں سے کھیلنا شرطِ اوّل ہے۔جو شخص استعمار کے سامنے جھک جائے اور پھر یہ دعویٰ کرے کہ وہ قوم دوست ہے، وہ درحقیقت قوم دوستی کے دائرے سے خارج ہو چکا ہوتا ہے۔ وہ نیشنلِسٹ نہیں رہتا، بلکہ وقتی فائدہ اٹھانے والا ایک مصلحت پسند بن جاتا ہے۔ بانک کریمہ بلوچ کی زندگی اس اصول کی عملی تصویر تھی۔ ریاستی دباؤ، کریک ڈاؤن، جلاوطنی، اور رشتوں کی قربانیاں یہ سب اس قیمت کا حصہ تھے جو انہوں نے نیشنلزم کے بدلے ادا کی۔

آج کے عہد میں، جب نیشنلزم کو اکثر نعروں، سوشل میڈیا پوسٹس اور وقتی جوش تک محدود کر دیا گیا ہے، یہ حقیقت فراموش کر دی گئی ہے کہ قوم دوستی قربانی مانگتی ہے، قیمت مانگتی ہے، اور سب سے بڑھ کر حوصلہ مانگتی ہے۔ انگاروں سے کھیلنے کا یہ فن ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ نیشنلزم پھولوں کی سیج نہیں؛ یہ آگ کا راستہ ہے۔ جو اس پر چلنے کا دعویٰ کرے، اسے جلنے کے لیے بھی تیار ہونا چاہیے۔نیشنلزم کوئی شناختی کارڈ نہیں، نہ یہ کسی فارم پر لگایا جانے والا خانہ ہے، نہ یہ محض بلوچ ہونے کا سرٹیفکیٹ۔ صرف نام، نسل یا زبان کسی کو نیشنلسٹ نہیں بناتی۔ نیشنلزم کوئی آسان راستہ نہیں؛ یہ انگاروں پر چلنے کا نام ہےایسا راستہ جو آرام، مصلحت اور خاموشی کو جلا کر راکھ کر دیتا ہے۔جو شخص محض اپنی مظلومیت بیان کرے مگر ظلم کے خلاف کھڑا نہ ہو، وہ نیشنلِسٹ نہیں؛ وہ محض شناخت کی سیاست کا حصہ ہے۔ نیشنلزم قربانی مانگتا ہے، شعور مانگتا ہے، وابستگی مانگتا ہے، اور سب سے بڑھ کر عمل مانگتا ہے۔ یہ وہ راستہ ہے جہاں سہولتیں دشمن بن جاتی ہیں اور خوف کو ترک کرنا پہلی شرط ٹھہرتی ہے۔ یہاں خاموشی بزدلی کہلاتی ہے اور غیر جانبداری ظلم کی ہم نوا بن جاتی ہے۔ اس راستے پر چلنے والا جانتا ہے کہ قیمت ادا کیے بغیر حالات تبدیل نہیں ہوتے۔

نیشنلزم محض ایک نعرہ نہیں؛ یہ سوچ کا انقلابی بدلاؤ ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب انسان اپنے ذاتی مفاد کو قومی آزادی کے قربان گاہ پر قربان کر دیتا ہے جب وہ خود سے سوال کرتا ہے: میں نے کیا کیا؟ میں کہاں کھڑا ہوں؟ اور میں کس کے ساتھ ہوں؟ انقلاب سازگار حالات کا انتظار نہیں کرتا؛ وہ خود حالات پیدا کرتا ہے۔ نیشنلزم بھی اسی منطق پر قائم ہے۔ جو کہتا ہے کہ “وقت ٹھیک نہیں”، وہ دراصل وقت کے ہاتھوں یرغمال بن چکا ہوتا ہے۔ نیشنلِسٹ وقت سے اجازت نہیں مانگتا وہ وقت کو چیلنج کرتا ہے۔اس کے لیے بلوچ ہونا کافی نہیں۔ کافی یہ ہے کہ آپ جبر کے سامنے کہاں اور کس سطح پر کھڑے ہیں۔ کافی یہ ہے کہ آپ سچ بولنے کی کیا قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں۔ نیشنلزم ایک عہد ہےخود سے، اپنی قوم سے، اور آنے والی نسلوں سے۔ یہ عہد آرام دہ نہیں؛ یہ انگاروں کا راستہ ہے۔ مگر تاریخ ہمیشہ انہی کے قدموں کے نشان محفوظ رکھتی ہے جو انگاروں پر چلے اور پیچھے ہٹنے سے انکار کر دیا۔

ڈاکٹر شلی بلوچ کا دوسرا نکتہ فکری اعتبار سے نہایت گہرا اور سیاسی معنویت سے بھرپور ہے۔ وہ کہتے ہیں:
“دوسری کی زمین پر قبضہ کرنا لالچ ہے، ہوس ہے؛ اور اپنی زمین کے لیے جدوجہد کرنا عشق ہے۔”
دوسری کی زمین پر قبضہ دراصل اُس ذہنیت کی علامت ہے جو طاقت کے نشے میں مبتلا ہو کر وسائل، جغرافیہ اور انسان کو محض قابلِ استعمال شے سمجھتی ہے۔ یہ وہی ذہنیت ہے جس کا رشتہ تھامس ہوبز کے تصورِ “طاقت کی لامحدود خواہش” سے جڑتا ہےجہاں انسان اپنی بقا اور توسیع کے نام پر دوسرے انسان کے وجود کو روند ڈالنے میں بھی تامل نہیں کرتا۔اس کے برعکس، اپنی زمین کے لیے جدوجہد عشق ہےاور عشق رومان نہیں، بلکہ ایک گہرا شعوری، اخلاقی اور وجودی رشتہ ہے۔ یہ وہ عشق ہے جو فرانز فینن کے نزدیک نوآبادیاتی انسان کی نفسیاتی بحالی کا راستہ بنتا ہے، اور جو چے گویرا کے الفاظ میں “انسان کو انسان سے جوڑنے والی سب سے اعلیٰ قدر” ہے۔اپنی زمین کے لیے جدوجہد اس لیے عشق ہے کہ یہ ملکیت ہیں ، وابستگی ہے؛ یہ توسیع نہیں، تحفظ ہے؛ یہ تسلط نہیں، وقار ہے۔ یہ جدوجہد اس مٹی سے وفاداری کا اعلان ہے جس نے شناخت دی، زبان عطا کی، ثقافت بخشی اور تاریخ رقم کی۔ اگر اسے اخلاقی میزان پر تولا جائے تو حقیقت صاف نظر آتی ہے: قبضہ انسان کو جنس بنا دیتا ہے، جب کہ جدوجہد انسان کو مقصد میں ڈھال دیتی ہے۔

تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو دوسری کی زمین پر قبضہ انسانی تاریخ کا ایک مہا جرم ہے، جب کہ اپنی زمین کے لیے جدوجہد انسانیت کا سب سے قدیم اور بنیادی حق۔ لالچ سلطنتیں تو قائم کر سکتا ہے، مگر قوموں کو زندہ نہیں رکھ سکتا؛ اس کے برعکس، عشق قوموں کو زندہ رکھتا ہے، انہیں تاریخ میں راسخ کرتا ہے اور قومی شعور کو دوام بخشتا ہے۔ یہی وہ بنیادی فرق ہے جو ظالم اور مزاحم، قابض اور آزادی کے متوالے، ہوس اور عشق کے درمیان ایک واضح لکیر کھینچ دیتا ہے۔ زمین محض رقبہ نہیں شناخت ہے؛ اور شناخت کے

لیے جدوجہد کوئی جرم نہیں، بلکہ عشق ہے۔

ڈاکٹر شلی کے خطاب کا یہ پہلو دراصل زندگی اور جدوجہد کی اُس بے رحم حقیقت کو بے نقاب کرتا ہے جسے اکثر رومانوی لفظوں میں چھپا دیا جاتا ہے۔ ان کے بقول، موت آسان ہے سانسوں کا ایک لمحے میں تھم جانا، ایک جھٹکے میں سب کچھ ختم ہو جانا۔ مگر زندہ رہنا، اور وہ بھی شعور کے ساتھ، مزاحمت کے ساتھ، سچ کے ساتھ یہ سب سے کٹھن راستہ ہے۔ زندہ انسان وہ نہیں جو محض سانس لے، بلکہ وہ ہے جو ہر روز مرتا ہے، ہر روز ٹوٹتا ہے، اور ہر روز خود کو ازسرِنو جوڑتا ہے۔اسے صعوبتوں، اذیتوں، درد اور مسلسل تکلیفوں کے بیچ سے گزرنا پڑتا ہے۔ اسے زندگی کے دکھوں کا پورا آرکیٹیکچر دیکھنا پڑتا ہےوہ دیواریں جو خون سے بنی ہیں، وہ ستون جو لاشوں پر کھڑے ہیں۔ یہ لڑائی کسی ایک دن، کسی ایک لمحے، یا کسی ایک معرکے پر ختم نہیں ہوتی؛ یہ روز کی جنگ ہے۔ ہر صبح ایک نیا محاذ، ہر رات ایک نیا زخم۔ زندہ رہنے والے کے لیے زندگی پلِ صراط بن جاتی ہے جس پر اسے روزانہ سفر کرنا پڑتا ہے۔ڈاکٹر شلی کے اس جملے“موت تو آسان ہے، مگر زندہ رہ کر جدوجہد کا راستہ کھٹن ہے”میں مزاحمت کا پورا فلسفہ سانس لیتا ہے۔ یہ محض ایک فقرہ نہیں، بلکہ اس عہد کی تشریح ہے جس میں انسان کو روز مرنا بھی پڑتا ہے اور روز جینا بھی۔ موت ایک لمحہ ہے: سانسوں کا تھم جانا، آنکھوں کا بند ہو جانا، اور درد کا یک لخت ختم ہو جانا۔ مگر زندہ رہنا ایک مسلسل آزمائش ہے۔زندہ رہنا اُس انسان کا مقدر بنتا ہے جو ہر روز ٹوٹتا ہے مگر بکھرنے سے انکار کرتا ہے؛ جو ہر صبح اپنے زخموں کے ساتھ آنکھ کھولتا ہے اور ہر رات نئے زخموں کی تیاری کے ساتھ سوتا ہے۔ جدوجہد کرنے والا انسان ایک بار نہیں مرتاوہ ہر دن مرتا ہے۔ وہ لاشوں کے درمیان جیتا ہے، یادوں کے ملبے پر چلتا ہے، اور امید کو اپنے کندھوں پر اٹھائے رکھتا ہے۔ اسے زندگی کی تکلیفوں کا پورا نقشہ دیکھنا پڑتا ہے۔

مزاحمت کرنے والا انسان صرف دشمن سے نہیں لڑتا؛ وہ تھکن سے لڑتا ہے، لوگون سے لڑتاہے،سماج سے لڑتاہے،رشتون سے لڑتاہے، مایوسی سے لڑتا ہے، تنہائی سے لڑتا ہے۔ خاموش ہو جانا محفوظ راستہ ہے، اور بولتے رہنا مزاحمت۔ یہی حقیقت اُن تمام رومانوی تصورات کو توڑ دیتی ہے۔ اگر سچ بولا جائے تو اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ سب سے کٹھن کام مرنا نہیں، زندہ رہنا ہے اور زندہ رہنا ہی سب سے بڑی مزاحمت ہے۔زندہ انسان ہر روز مرتا ہے۔ وہ ہر صبح ایک نئی اذیت کے ساتھ آنکھ کھولتا ہے، ہر شام کسی نئے زخم کے ساتھ دن دفن کرتا ہے۔ اسے لاشوں کے سائے میں جینا پڑتا ہے، خاموش چیخوں، ماؤں کی سسکیوں اور گمشدہ چہروں کی قطاروں کے بیچ چلنا پڑتا ہے۔ یہ وہ زندگی ہے جو پلِ صراط میں بدل جاتی ہے۔ جدوجہد رومان نہیں، مسلسل درد ہے؛ یہ اعصاب کی جنگ ہے—وہ حالت جس میں انسان ہر روز اپنے خوف کو شکست دیتا ہے اور ہر روز اپنے ٹوٹنے کے امکان کے ساتھ جیتا ہے۔
یہ وہ ساخت ہے جس میں ہر دن ایک نیا دباؤ، ہر خبر ایک نیا جنازہ، اور ہر رات ایک نیا خدشہ بن جاتی ہے۔ یہ وہ زندگی ہے جہاں نیند بھی محتاط ہوتی ہے، خاموشی بھی خوفزدہ، اور مسکراہٹ بھی جرم بن جاتی ہے۔ یہاں لڑائی ختم نہیں ہوتی یہ روزانہ کی لڑائی ہے، روز جینے کی جدوجہد۔ یہی وہ مقام ہے جہاں جدوجہد کرنے والا اپنے اعصاب، اپنے شعور اور اپنے حوصلے سے لڑتا ہے۔ زندہ رہ کر جدوجہد کرنا کمزوری نہیں؛ یہی سب سے اعلیٰ انقلابی عمل ہے۔

استعمار کی جنگ اب محض میدانِ جنگ تک محدود نہیں رہی؛ یہ ڈیجیٹل اسپیس، بیانیوں اور نظریاتی استحصال کی ایک منظم جنگ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ ڈاکٹر شلی بلوچ کا یہ مؤقف نہایت اہم ہے کہ ریاست نے بلوچ تحریک کے خلاف اپنی تمام تر مشینری متحرک کر دی ہے، اور سوشل میڈیا پر جدید ڈیجیٹل ٹولز کے ذریعے ایک منظم ریاستی نیریٹو تشکیل دیا جا رہا ہے۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب ریاستیں کسی تحریک کو محض طاقت کے زور پر کچلنے میں ناکام ہو جاتی ہیں تو وہ بیانیے کی جنگ چھیڑ دیتی ہیں۔اس بیانیاتی جنگ میں ادارے، بیوروکریسی، سکیورٹی اسٹرکچرز اور ڈیجیٹل پروپیگنڈا ایک ہی ہدف کے تحت کام کرتے ہیں: مزاحمت کو غیر اخلاقی، غیر قانونی اور غیر انسانی ثابت کرنا۔ بلوچ تحریک کے تناظر میں بھی یہی حربہ اختیار کیا گیا ہے، جہاں ریاستی نیریٹو مسلسل بلوچ جدوجہد کو تشدد، انتشار اور بیرونی سازشوں کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔

تاہم تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ استعماری نیریٹو کبھی سچ پر مبنی نہیں ہوتا۔ وہ جھوٹ، دروغ گوئی، فریب اور اخلاقی پستی سے جنم لیتا ہے۔ ریاست کا بیانیہ جبر سے پیدا ہوتا ہے، جب کہ مزاحمتی نیریٹو حق اور انصاف کی بنیاد پر تشکیل پاتا ہے۔ یہی وہ بنیادی فرق ہے جو بلوچ تحریک کو اخلاقی، سیاسی اور قانونی جواز فراہم کرتا ہے۔ بلوچ جدوجہد نہ تو کسی دوسری قوم کی زمین پر قبضے کی خواہش ہے، نہ وسائل کی لوٹ مار کا منصوبہ؛ بلکہ یہ اپنی زمین، اپنی شناخت اور اپنی بقا کے حق کی جدوجہد ہےوہ حق جسے اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور

بین الاقوامی قوانین میں حقِ آزادی کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ریاست اپنی تمام متشدد اور غیر متشدد قوتوں کے ذریعے اس تحریک کو کچلنے کی کوشش کر رہی ہے۔ کہیں بندوق استعمال ہو رہی ہے، کہیں قانون؛ کہیں میڈیا کو ہتھیار بنایا جا رہا ہے، اور کہیں الگورتھمز کو۔ ڈیجیٹل اسپیس میں جعلی بیانیے، ٹرول نیٹ ورکس اور منظم خاموشی (Manufactured Silence) کے ذریعے بلوچ آواز کو دبانے کی منظم کوشش جاری ہے۔ مگر تاریخ کا ایک اٹل اصول ہے: طاقت سچ کو وقتی طور پر دبا تو سکتی ہے، مٹا نہیں سکتی۔
بلوچ نیریٹو اس لیے مضبوط ہے کہ وہ کسی دوسرے کی نفی پر نہیں، بلکہ اپنی اثبات پر قائم ہے۔ یہ بیانیہ کسی مذہب، نسل یا قوم کے خلاف نفرت نہیں پھیلاتا، بلکہ آزادی، استحصال اور تاریخی ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کرتا ہے۔ یہی وہ عنصر ہے جو اسے عالمی سطح پر قابلِ فہم اور قابلِ قبول بناتا ہے۔ اسی اخلاقی بنیاد پر بلوچ قومی مزاحمت ریاستی جبر اور دہشت گردی کے مقابل ایک واضح اخلاقی برتری حاصل کرتی ہے۔

یہ ضروری ہے کہ سفید جھوٹ اور گمراہ کن، مجرمانہ استعماری ریاستی نیریٹو کو قبول نہ کیا جائے۔ ایسے بیانیے تسلیم نہیں کیے جاتے، بلکہ چیلنج کیے جاتے ہیں۔ یہ جدوجہد محض بلوچ قوم کی نہیں، بلکہ اس اصول کی جدوجہد ہے کہ طاقت حق کو متعین نہیں کرتی؛ بلکہ حق طاقت کو اخلاقی جواز فراہم کرتا ہے۔ریاستی مشینری جتنی بھی طاقتور کیوں نہ ہو، وہ اس سچ کو شکست نہیں دے سکتی جو اپنی زمین، اپنی شناخت اور اپنی بقا کے لیے اٹھنے والی آواز میں ڈھل چکا ہو۔ یہی وہ نیریٹو ہے جسے آج دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے—اور یہی وہ سچ ہے جو کل تاریخ کے صفحات پر فتح کے عنوان سے لکھا جائے گا۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

پنجگور میں پاکستانی فورسز کا چار مسلح افراد کو مارنے کا دعوی

ہفتہ دسمبر 27 , 2025
بلوچستان کے ضلع پنجگور میں پاکستانی فورسز کی جانب سے کیے گئے ایک آپریشن کے دوران چار افراد کے مارے جانے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ حکام کے مطابق ہلاک ہونے والے افراد کی لاشیں سول اسپتال پنجگور منتقل کر دی گئی ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ مارے جانے […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ