
کوئٹہ: بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے سابق مرکزی سیکرٹری جنرل سعید یوسف بلوچ نے ممتاز انسانی حقوق کے علمبردار اور بلوچ قومی تحریک کی علامتی شخصیت ماما قدیر بلوچ کے انتقال پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ اپنے تعزیتی بیان میں انہوں نے کہا کہ ماما قدیر بلوچ کی وفات ایک ایسے عہد کے خاتمے کے مترادف ہے جس میں ایک فرد نے ریاستی جبر کے مقابل انسانی وقار، انصاف اور سچائی کی علمبرداری کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا۔
سعید یوسف بلوچ نے کہا کہ ماما قدیر بلوچ نے اپنی پوری زندگی بلوچستان میں جبری لاپتہ افراد کی بازیابی اور اس سنگین انسانی بحران کے خلاف پرامن جدوجہد کے لیے وقف کیے رکھی۔ انہوں نے کہا کہ 2012 میں ماما قدیر بلوچ کے بیٹے جلیل ریکی کی جبری گمشدگی اور بعد ازاں دورانِ حراست قتل جیسے المناک سانحے کے باوجود، ماما قدیر بلوچ نے ذاتی غم کو اجتماعی انسانی جدوجہد میں تبدیل کیا اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز (VBMP) کے پلیٹ فارم سے ہزاروں متاثرہ خاندانوں کی آواز بنے۔
انہوں نے کہا کہ ماما قدیر بلوچ سولہ برس تک بلا ناغہ پرامن احتجاج کرتے رہے۔ شدید بیماری، بڑھاپے، موسمی سختیوں اور سیکیورٹی خطرات کے باوجود وہ روزانہ جبری لاپتہ افراد کے احتجاجی کیمپ میں موجود رہتے تھے۔ ان کی قیادت میں شال (کوئٹہ) سے اسلام آباد تک دو ہزار کلومیٹر طویل لانگ مارچ نے بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے مسئلے کو عالمی سطح پر اجاگر کیا اور اسے بین الاقوامی انسانی حقوق کے ایجنڈے کا حصہ بنایا۔
بیان میں کہا گیا کہ ماما قدیر بلوچ کی جدوجہد اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے، جبری گمشدگی کے خلاف بین الاقوامی کنونشن اور حقِ زندگی، آزادی اور انسانی وقار کے بنیادی اصولوں کی عملی مثال تھی۔ سعید یوسف بلوچ کے مطابق وہ نہ صرف بلوچ قوم بلکہ دنیا بھر کی محکوم اور مظلوم اقوام کے لیے پرامن مزاحمت، استقامت اور اخلاقی جرات کی علامت تھے۔
انہوں نے کہا کہ ماما قدیر بلوچ کی وفات سے انسانی حقوق کی جدوجہد میں ایک بڑا خلا پیدا ہوا ہے، تاہم ان کی زندگی اور قربانی اس بات کی گواہ ہے کہ جبری گمشدگیاں کسی ایک فرد یا قوم کا نہیں بلکہ پوری انسانیت کے ضمیر کا مسئلہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ماما قدیر بلوچ کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کا مؤثر طریقہ یہی ہے کہ ان کے مشن کو جاری رکھا جائے اور جبری لاپتہ افراد کے مسئلے کے حل کے لیے سنجیدہ، شفاف اور جوابدہ اقدامات کو یقینی بنایا جائے۔
سعید یوسف بلوچ نے اقوامِ متحدہ، اس کے انسانی حقوقی اداروں، جبری گمشدگیوں سے متعلق ورکنگ گروپ اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے مسئلے کا فوری نوٹس لیا جائے، آزادانہ تحقیقات کو یقینی بنایا جائے اور متاثرہ خاندانوں کو انصاف، سچائی اور ازالہ فراہم کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ماما قدیر بلوچ کی جدوجہد ہمیشہ یاد رکھی جائے گی، کیونکہ حق، انصاف اور انسانی وقار کی آواز کو خاموش نہیں کیا جا سکتا۔
