
بی این ایم کے زیرِ اہتمام منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ورلڈ سندھی کانگریس (برطانیہ و یورپ) کی ڈپٹی آرگنائزر فہمیدہ خوشک نے کہا کہ ’ کریمہ بلوچ ‘ بلوچ آزادی تحریک کی ایک نمایاں رہنما تھیں۔ انھوں نے کہا کہ بطور سابق چیئرپرسن بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن–آزاد، کریمہ بلوچ نے بلوچ نوجوانوں کو سیاسی شعور، حقِ خودارادیت اور جبری گمشدگیوں و ماورائے عدالت قتل کے خلاف مزاحمت کے لیے منظم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
یہ سیمینار ہفتے کے روز لندن میں بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کے زیرِ اہتمام منعقد ہوا، جس میں بلوچ رہنما بانک کریمہ بلوچ کی پانچویں یوم شہادت منائی گئی۔
فہمیدہ خشک نے کہا ایک ایسے وقت میں جب بلوچ قوم کو منظم عسکریت، وسائل کی لوٹ مار اور ثقافتی تباہی کا سامنا تھا، کریمہ بلوچ صفِ اول میں کھڑی تھیں۔انھوں نے مسلسل غیرقانونی قبضے، آبادیاتی تبدیلیوں اور بنیادی سیاسی و انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف آواز بلند کی۔
انھوں نے کہا کہ بعد ازاں کریمہ بلوچ بلوچ مسئلے کی عالمی سطح پر نمائندہ بن کر ابھریں اور اس جدوجہد کو پاکستان کی سرحدوں سے باہر لے جا کر بین الاقوامی فورمز تک پہنچایا۔ ان کی قیادت نے واضح پیغام دیا کہ بلوچ جدوجہد کسی جنس، جغرافیے یا نسل تک محدود نہیں۔
فہمیدہ خشک کے مطابق کریمہ بلوچ نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کی بھاری قیمت ادا کی، جس میں ہراسانی، دھمکیاں اور جبری جلاوطنی شامل تھیں۔قریبی رشتہ داروں کے جانی نقصانات اور جلاوطنی کے باوجود کریمہ بلوچ نے بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے متاثرین اور تشدد کا سامنا کرنے والے خاندانوں کے لیے آواز اٹھانا جاری رکھا۔“جلاوطنی ان کے حوصلے کو کمزور نہ کر سکی اور وہ خاموش ماؤں، لاپتہ بیٹوں اور بلوچستان کی بے آواز قبروں کی نمائندگی کرتی رہیں۔
ان کی شہادت کے اثرات پر فہمیدہ خشک نے کہا، ان کی شہادت نہ صرف بلوچ قوم بلکہ سندھی قوم کے لیے بھی ایک ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔
انھوں نے کہا کریمہ بلوچ دسمبر 2020 میں کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں مردہ پائی گئیں۔ ایک سیاسی کارکن اور پاکستانی ریاست کی کھلی ناقد ہونے کے باعث ان کی موت نے عالمی سطح پر انسانی حقوق کے علمبرداروں میں سنگین خدشات کو جنم دیا۔ کینیڈین حکام نے بعد ازاں اس واقعے کو غیر مجرمانہ قرار دیا، تاہم اس فیصلے نے کئی سوالات کو جنم دیا۔
فہمیدہ خشک نے تشدد، جبری گمشدگیوں اور جلاوطنی میں مشکوک اموات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا بہت سے لوگوں کے لیے ان کی موت پاکستان میں محکوم قوموں کے کارکنوں کو درپیش سرحد پار جبر کی ایک مثال بن گئی۔
انھوں نے کہا کہ کریمہ بلوچ کی وراثت آج بھی مزاحمت اور سیاسی جدوجہد کو زندہ رکھے ہوئے ہے، بالخصوص بلوچ خواتین میں۔ ان کے مطابق کریمہ بلوچ کی زندگی اور جدوجہد نے ایک نئی نسل کو منظم ہونے، آواز بلند کرنے اور سیاسی حقوق کے حصول کی ترغیب دی۔
خطاب کے اختتام پر فہمیدہ خوشک نے شرکاء سے اپیل کی کہ وہ کریمہ بلوچ کی یاد کو زندہ رکھیں اور اس جدوجہد کو جاری رکھنے کے عزم کی تجدید کریں جس کی انھوں نے نمائندگی کی۔ انھوں نے کہا کہ کریمہ بلوچ کا نام آج بھی جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج اور انصاف و حقِ خودارادیت کے مطالبات میں گونجتا ہے۔
