
بلوچ معاشرےکے ہر طبقہ کو بی ایس او کا فلسفہ اپنا کر قومی آزادی کی تحریک میں اپنی قومی زمہ داریاں ایمانداری سے نبھانی چاہئیں، تاکہ ہم بلوچ قومی ریاست کی تشکیل میں کامیاب ہوجائیں۔” چئیرپرسن زرّین بلوچ
بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) آزاد کا 24واں قومی کونسل سیشن دسمبر میں سابقہ چیئرپرسن درپشان بلوچ کی صدارت میں تین روز تک منعقد ہوا۔ اجلاس بیادِ “شہید کمبر چاکر” اور بنام “بلوچ تحریک میں مسلسل ڈٹے رہنے والے گمنام کرداروں” کے عنوان سے کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔
تین روزہ اجلاس میں چئیرپرسن کا افتتاحی تقریر، آئین سازی، دو سالہ تنظیمی رپورٹ، تنقیدی نشست، علاقائی و عالمی سیاسی صورتحال،آئندہ لائحہ عمل و انتخابات، صابقہ چئیرپرسن کا خطاب سمیت نئے منتخب چئیرپرسن کا خطاب شامل تھے جو کامیابی سے سرانجام دیے گئے۔
مرکزی کونسل سیشن کا پہلا روزشہیدوں کی یاد میں دو منٹ کی خاموشی کے ساتھ آغاز کیا گیا جس کے بعد چئیرپرسن کا افتتاحی خطاب تھا جنہوں نے کونسلران سے گفتگو کی۔ آئین سازی کے یجنڈہ میں آئین میں ضروری ترمیم کے بعد دو سالہ تنظیمی رپورٹ پیش کی گئی جس میں دو سالہ تمام تنظیمی کارکردگی شامل تھی۔ تینوں ایجنڈوں پر سیر حاصل بحث کے بعد اجلاس کا پہلا روز ختم ہوا۔
اجلاس کے دوسرے روز کا آغاز تنقیدی نشت کے ایجنڈہ سے ہوا جہاں تنظیم کے تمام کمزوریوں پر گفتگو ہوئی جس میں تمام کونسلران نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
تنقیدی نشست کے ایجنڈہ پر اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے تنظیم کے رہنماؤں نے کہا کہ انقلابی تنظیموں میں تنقید وہ ناگزیر عمل ہے جس سے ہم اپنے ماضی اور حاضر کا سائنسی معائنہ کرکے اپنی تنظیمی کمزوریوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کا خاتمہ کرتے ہیں، مگر تنقید ہمیشہ اجتماعی مفادات کے حصول کے لئے ہوتی ہے جہاں قومی تحریک کے وسیع تر مفاد کی خاطر تنقید دیانتداری اور بغیر کسی تعصب کے کرنی چاہئے کیونکہ یہ تنقیدی عمل ہی ہے جو ہمیں اپنے مقصد سے انحراف کرنے سے روکتا ہے اور انقلابی اصولوں سے ہمکنار کرتا ہے۔ ہمیں نہ صرف اپنی تنظیم کے اندر تنقیدی روایت کو منظم کرنا ہے بلکہ قومی تحریک میں اس روایت کو پروان چڑھانا ہے تاکہ ہم تحریک کے ہر محاذ پر تنقیدی سوچ اپنا سکیں اور اپنی کمزوریوں کی نشاندہی کرکے ان درست کرنے میں نیک نیتی کا مظاہرہ کریں اور اپنی تمام تر کارکردگیوں کے حوالے سے سیاسی طور پر حساس ہوجائیں۔ یہ بی ایس او کی تاریخی روایت رہی ہے کہ وہ تنقید سے کبھی پیچھے نہیں ہٹی ہے بلکہ خندہ پیشانی سے ان کا سامنا کیا ہے اور سنجیدگی سے انقلابی اصولوں پر عمل پیرا ہوکر کمزوریوں کا تدارک کیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ تنقیدی عمل کے بغیر ہمارے تمام انقلابی اقدامات بے اصول ہوں گے، اور جب کوئی عمل اصولوں سے عاری ہو اور اسے کسی سیاسی احتساب کا سامنا نہ ہو تو وہ عمل کبھی بھی اپنی منزل اور مقاصد کو حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔
تنقیدی نشست کے ایجنڈہ کے اختتام کے بعد تنظیم امور کا ایجنڈہ کھولا گیا جہاں بلوچ قومی تحریک کے موجودہ حقائق و ضروریات کو مدِ نظر رکھتے ہوئےنئے پالیسیوں و حکمت عملیوں پر سیرحاصل گفتگو ہوئی، مختلف موضوعات پر مباحثے کے بعد اجلاس کا دوسرا روز اسی ایجنڈے پر اختتام ہوا۔
مرکزی کونسل سیشن کے تیسرےروزکا آغاز علاقائی و عالمی سیاسی صورتحال کے ایجنڈہ سے کیا گیا جہاں کونسلران نے موجودہ سیاسی صورتحال پر جائزہ لینے کے بعد اس ایجنڈہ بند کیا گیا۔
اجلاس کا ساتواں ایجنڈا آئندہ لائحہ عمل و انتخابات تھے، پہلے حصہ میں تنظیمی دو سالہ پالیسیاں ترتیب دی گئیں اور نئے فیصلہ لیے گئے جبکہ دوسرے حصہ میں موجودہ سنٹرل کمیٹی باڑی کا خاتمہ کیا گیا اور الیکشن کمیشن کمیٹی بنائی گئی ۔ سابقہ چئیرپرسن درپشان بلوچ کی سربراہی میں تین رکنی الیکشن کمیٹی کا قائم کی گئی جہاں مختلف کونسلران نے نئے عہدوں کیے لیے اپنے کاغذات جمع کرائے ، جس کے بعد انتخاب کا عمل شروع کیا گیا۔ انتخابات کا عمل کامیابی سےسرانجام دینے کے بعد الیکشن کمیٹی نے اجلاس میں نتائج کا اعلان کیا جس میں زرّین بلوچ چئیرپرسن ، مہردار بلوچ سیکریٹری جنرل، اور شولان بلوچ مرکزی ترجمان منتخب ہوئے۔
اجلاس کے پہلے حصےکے تمام ایجنڈے کامیابی سے سرانجام دینے کے بعد سابقہ چئیرپرسن درپشان بلوچ نے نئے منتخب عہدیدارو ں سے حلف لیا۔ نئے سنٹرل کمیٹی کو حلف دینے کے بعد اجلاس کے پہلے حصے کا کامیابی سے اختتام کیا گیا۔ اجلاس کے دوسرے حصے میں سابقہ چئیرپرسن درپشا ن بلوچ کا خطاب اور نئے منتخب چئیرپرسن زرّین بلوچ کا خطاب شامل تھا جنہوں نے اجلاس میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
اجلاس کے دوسرے حصے میں سابقہ چئیرپرسن درپشان بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں نئی کابینہ و مرکزی کمیٹی کو مبارک باد دیتا ہوں اور اُمید کرتا ہوں کہ نئی لیڈرشپ اس قومی ذمہ داری کے لوازمات کو سمجھتے ہوئے بی ایس او کو مزید مضبوط، منظم اورمستحکم کرنے کے لئے کسی بھی قربانی سے پیچھے نہیں ہٹے گی اور بلوچستان کے آزادی کی اس جہد کو ایک قدم آگے لے جانے میں اپنا کردار ادا کرے گی۔ آج بی ایس او کے ساتھ میرا سفر ختم ہورہا ہے، اور یہ میرے لئے کسی اذیت سے کم نہیں، کیونکہ میں نے جب سے سر اٹھایا ہے، تو اسی کاروان کا حصہ رہا ہوں۔ بی ایس او نے ہی ہماری سماجی و سیاسی پرورش کی ہے۔ میرا درسگاہ، خاندان اور زندگی سمیت سب کچھ یہیں بی ایس او ہی رہا ہے۔ بی ایس او کے لئے ہم جو کچھ بھی کریں پھر بھی محسوس ہوتا ہے کہ وہ کم ہے، کیونکہ یہ یہی ادارہ ہے جس کے سبب بلوچ تحریکِ آزادی کی جدوجہد کا تسلسل برقرار ہے، ہر قسم کے حالات میں یہ ادارہ تحریک کے ساتھ کھڑا رہا ہے اور اپنے عوام اور نوجوانوں کی نہ صرف سیاسی تربیت کی ہے بلکہ سائنسی طرز پر نوجوانوں کی قیادت بھی کرتا آ رہا ہے۔ بی ایس او کی بُنیاد سے لیکر آج تک اس لمبے سفر میں اس تنظیم کو کئی طرح کے مشکلات کا سامنا رہا ہے، دشمن کا کریک ڈاؤن ہو، مفاد پرست گروہوں کی سیاست یا اندرونی تضاد ہوں لیکن ان سب مسائل کے علاوہ یہ اس تنظیم کے باہمت ورکرز اور کیڈرز کی صلاحیت اور نظریاتی مستحکمی ہے کہ تمام تر حالات کے مقابلے میں بی ایس او مستقل جدو جہد کی علامت بنی رہی اور اپنے وجود سمیت بلوچ جہدِ آجوئی کی اساس کو برقرار رکھا ہے۔
چئیرپرسن درپشان نے مزید کہا کہ اس طویل سفر میں ایک تو قومی شہیدوں کی قربانی کی بدولت ہے کہ جنہوں نے نہ صرف ہمیں عہدِ وفا کے معنی سکھائے بلکہ آزادی کے اس جہد میں کام کرنے پر انکی قربانیاں ہمارے حوصلہ و ہمت رہے ہیں، اور دوسرا وہ گمنام کردار جنہوں نے آزادی کی خاطر اپنا نام، شناخت، زات اور عہدہ سب کچھ قربان کر کے اس جہد کے ساتھ اس طرح جُڑے ہیں کہ اپنی ہر چیز کو قربان کرنے کے باوجود تھکن کا نشان تک اُن کے ماتھے پر نہیں ہے۔ بلوچ آجوئی جہد کو اسی طرح کے کیڈروں کی ضرورت ہے کہ آزادی کے منزل کی خاطر اپنا وجود قربان کرنے سے بھی نہ کترائیں، بلکہ شب و روز اسی منزل کے جستجو می محوِ سفر رہیں۔ اس پلیٹ فارم سے جُڑنے کے بعد ہماری زندگی اب ہماری نہیں، بلکہ اس تحریک کی ہے، اور یہاں موجود ہر نوجوان بلوچ گُلزمین کی خاطر اپنی زندگی قربان کرنے کو تیار ہے لیکن آج بھی ضرورت اس امر کی تجسس کا ہے کہ جب تک ہم زندہ ہیں تو ہم اپنے کردار اور جہد سے بلوچ قومی آزادی کی تحریک میں کیا جدت لا رہے ہیں، یا اس جدوجہد کو ایک قدم آگے لے جانے میں ہمارا کیا کردار اور حصہ داری ہے۔ اسی فکر اور نظریہ کے ساتھ ہمیں ہمارے عمل کو مزید منظم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ تمام سماجی بیماریوں سے بالاترا ہوکر ہم اپنے علم و عمل کے ذریعے اس تحریک میں اپنا کردار ادا کریں۔
درپشان بلوچ نے مزید کہا کہ بلوچ نوجوان نہایت ہُنر مند اور باصلاحیت ہیں، لیکن بعض اوقات ہم اپنے غیر انقلابی رویوں اور ناپختگی کے سبب خود کو نقصان پہنچاتے ہیں، ہمیں اپنے صلاحیت اور ہُنر کو بروئے کار لا کر ان سے بلوچ جہد کی ضرورتوں کے مطابق کام لینا چائیے، لیکن ہمارے نوجوان غیر انقلابی اور سطحی رویوں سے متاثر ہوکر آزادی کی راہ سےکنارہ کشی اختیار کرتے ہیں۔ غلام اور جنگ زدہ سرزمین میں پیدا ہونا ہی ہمیں دیگر قوم کے جوانوں سے مختلف بناتی ہے، اس قوم کے ہر نوجوان کا عمل ہمارے اجتماعی جہد سے مشابہہ ہے، اور ہمیں اپنی قابلیت اور صلاحیتوں کے مطابق اس تحریک کی ضرورتوں کو سمجھنے کے بعد اس تحریک کے ساتھ جُڑنے کی ضرورت ہے۔ بی ایس او کے ساتھ جُڑا نوجوان خود کو علمی، سائنسی اور تکنیکی بنیادوں پر منظم کرے اور انقلابی عمل کو آگے لے جائے۔ بی ایس او کے ساتھ مخلصی کے معنی یہی ہے کہ ہم اس کے فکر اور فلسفہ کو کس حد تک اپنے عمل کا حصہ بناتے ہیں۔ اس تنظیم کے ساتھ ایماندار ہونا بلوچ تحریک کو منظم کرنے اور مقصد کے حصول کا ذریعہ بن سکتی ہے، اسی لیئے بلوچ نوجوان وقت کی ضرورت کو سمجھتے ہوئے، خود کو با صلاحیت بنائے، تاکہ بلوچ قومی وجود کے بقا کی اس جہد میں اپنا کردار ادا کر سکے۔
اجلاس میں نئے منتخب چئیرپرسن زرّین بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں نئے منتخب عہدیداروں کو مبارکباد دیتا ہوں اور ان سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنے اس عہدے کو صرف ایک رسمی مقام نہ سمجھیں بلکہ اسے قومی ذمہ داری کے طور پر لیں۔ انہیں اپنے فرائض اس انداز میں انجام دینے چاہیئں کہ وہ بی ایس او کو فکری، ادارتی اور سائنسی حوالوں سے مزید مضبوط بنا سکیں۔بی ایس او نے اپنے سیاسی سفر میں ہر قسم کی مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا کیا ہے اور ان کا مقابلہ دلیری سے کیا ہے۔ یہ تاریخ میں درج ہے کہ تنظیم نے “باہر اور اندر” کے تضادات اور کشمکش کے باوجود کبھی بھی قومی جدوجہد اور انقلابی سرگرمیوں میں ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹی۔ فردوں و رہنماؤں نے بی ایس او کو مضبوط کیا ہے، لیکن ایسا بھی مقام آیا ہے کچھ افراد نے اسے نقصان پہنچانے کی ناکام کوشش کی ہے۔ تاہم، بی ایس او کے انقلابی نظریے کی پختگی کے باعث یہ مسائل نہ صرف حل ہوئے بلکہ بی ایس او نے ترقی بھی کی ہے۔ حتیٰ کہ بی ایس او نے اپنے سیاسی سفر میں یہ ثابت کیا کہ فرد ادارہ اور قومی تحریک سے بالاتر نہیں ہیں۔
انقلابی اداروں کے لیے سیاسی مقصد سب سے اہم ہوتا ہے۔ اسی لیے بی ایس او کے کارکنوں نے اس عظیم مقصد کو نہ صرف سنبھالا بلکہ اس کو آگے بڑھانے اور نظریاتی بنیادوں پر مضبوط کرنے میں اپنی توانائیاں صرف کیں ہیں۔ یہ ادارہ ہمارے لیے قومی امانت ہے، اور اس کی حفاظت و مضبوطی نہ صرف اس کے اراکین کی ذمہ داری ہے بلکہ بلوچ عوام اور نوجوانوں پر بھی یہ بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس کے نظریے اور اسباق کو اپنائیں اور اس کے نقش قدم پر چلیں۔ اگرچہ کوئی شخص بی ایس او کا رکن نہ ہو، پھر بھی اسے بی ایس او کے نظریے اور فلسفے پر عمل کرنا اپنی قومی ذمہ داری سمجھنا چاہیے تاکہ وہ دشمن کے پروپیگنڈے اور بلوچ دشمن حکمت عملیوں سے بچ سکے۔بلوچ نوجوان، چاہے وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں، بی ایس او کے نظریے اور مقصد پر عمل کرکے بلوچ تحریک میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں، اور اس کا فائدہ اجتماعی طور پر بلوچ قوم کو حاصل ہوگا۔ بلوچ قوم کے نوجوانوں کو بی ایس او کے نظریے کو اپنے دل و دماغ میں بٹھا کر بلوچ تحریک کی اہم ضروریات کے لیے جدوجہد کرنی ہوگی۔
چیئرپرسن نے اپنی خطاب جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آج بلوچ قومی تحریک نوجوانوں اور عوام سے بہت بڑی توقعات رکھتی ہے اور ان ضروریات کو پورا کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ بی ایس او روز بروز اپنے نظریے کی بنیادوں پر مضبوط ہوتی جا رہی ہے، اسی لیے اس کے کارکنوں اور نوجوانوں کو صرف قومی آزادی کی تحریک کے لیے تیار نہیں رہنا چاہیے بلکہ انہیں نئے حکمت عملیوں اور تدابیر کے ذریعے آزادی کی جدوجہد میں اپنی ذمہ داریاں نبھانی چاہئیں۔ ہم قومی ریاست کے قیام کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، اور ہمیں دور رس حکمت عملی سے جدوجہد کرنی ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ہمیں ماضی کی غلطیوں سے سیکھنا ہوگا، تاکہ ہم اپنی منزل تک پہنچ سکیں۔بلوچ نوجوانوں کو قربانی دینے میں پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے، کیونکہ آج ان قربانیوں کی بدولت ہمارے سر فخر سے بلند ہیں اور ہمیں ہمت ملی ہے۔ لیکن یہ قربانیاں صرف کردار تک محدود نہیں ہونی چاہیے، بلکہ ان کے دیے ہوئے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے اس کے انجام تک پہنچنا اصل میں ان کی قربانیوں کے ساتھ انصاف ہوگا۔ اس کے لیے بلوچ نوجوانوں کے ساتھ ساتھ ہر طبقے کے افراد کو ایمانداری کے ساتھ قومی تحریک میں شامل ہونا ہوگا اور جو بھی ذمہ داری ان کے اوپر ہے، اُسے ایمانداری اور محنت سے نبھانا ہوگا، تاکہ یہی چھوٹے چھوٹے کام اور ذمہ داریاں مل کر ہمارے اجتماعی مقصد کو حاصل کرنے میں مدد دیں۔
بی ایس او کے ہر کارکن کو فرداً فرداً قومی تحریک اور ادارے میں مضبوطی سے پالیسی اپنانی ہوگی، تاکہ وہ قومی تحریک میں پیچھے رہ جانے والے خلا کو پر کر سکیں۔ آج بلوچ قوم پر ہر قسم کا ظلم و جبر ہو رہا ہے، لیکن ان تمام مظالم کے باوجود بلوچ قوم کی اجتماعی جدوجہد نے ان تمام مصائب کا مقابلہ کیا ہے اور تحریک کو آگے بڑھایا ہے، جہاں ہر کوئی اپنی ذمہ داری نبھا رہا ہے۔یہ تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ کے لیے درج رہے گا کہ سیاہی اور اندھیروں کے بعد روشنی آتی ہے، اور یہ امید صرف ہماری قوم کے دلوں میں نہیں، بلکہ فکری طور پر اتنی مضبوط ہو چکی ہے کہ ہم اپنی جانوں کا نذرانہ دینے میں ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹ رہے۔ تاہم، آج کے دور میں قومی تحریک کی ضروریات بہت بڑھ چکے ہیں، اور بلوچ قوم کے نوجوانوں کے ساتھ ساتھ ہر طبقہ فکر کے افراد کو بھی قومی تحریک میں اپنے حصے کی دانشورانہ خدمات پیش کرنی ہوگی۔ کیونکہ ماضی میں ہم نے جو کچھ بھی کیا وہ قومی تحریک کے لیے بہت کم تھا، اس لیے ہمیں اب بہت زیادہ جدوجہد کرنا ہوگا، ذمہ داریاں اپنے کندھوں پر لینی ہوںگی اور قومی تحریک کو کامیاب بنانا ہوگا تاکہ ہم جلد ہی آزاد بلوچستان کے مقصد کو حاصل کر سکیں اور بلوچ قومی ریاست کے قیام میں کامیاب ہو سکیں۔
تین روزہ مرکزی کونسل سیشن کے تمام ایجنڈوں پر سیربحث گفتگو کے بعد نئے منتخب سیکریٹری جنرل مہردار بلوچ نے چئیرپرسن کی اجازت سے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کاچوبیسواں قومی کونسل سیشن بیادِ "شہید کمبر چاکر”اور بنام” بلوچ تحریک میں مسلسل ڈٹے رہنے والے گمنام کرداروں” کے کامیابی سے اختتام کیا۔
