
تحریر: نصیر احمد بلوچ
زرمبش مضمون
دنیا کے مظلوم خطّوں کی داستانیں بظاہر ایک دوسرے سے جدا دکھائی دیتی ہیں، مگر ان کی دھڑکنوں میں بہنے والا درد ایک ہی نوعیت کا ہے۔ ان کے زخموں میں ایک ایسی ہم آہنگی ہوتی ہے جو فاصلوں کو مٹا دیتی ہے ۔دنیا کے مظلوم خطّے ،چاہے وہ مشرق میں ہوں یا مغرب میں ،اپنے اندر ایک مشترکہ نوحہ لیے ہوئے ہیں۔ درد الگ الگ سرحدوں میں بٹا ہوا نہیں ہوتا، وہ انسانیت کے دل پر ایک ہی جگہ چوٹ لگاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ظلم کی آگ جہاں بھی بھڑکے، اس کی تپش ہر حساس دل محسوس کرتا ہے ۔ظلم جب کسی سرزمین پر اُترتا ہے تو اس کی تپش پوری انسانیت کو جھلسا دیتی ہے۔اور ایک ہی طرح کا زخم چھوڑ جاتا ہے۔ اسی لیے مظلوم اقوام کا نوحہ سرحدوں، زبانوں اور نسلوں سے بالاتر ہو کر ایک مشترکہ صدا بن جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ظلم کی کہانی کہیں بھی لکھی جائے، اس کا درد ہر حساس دل کو ایک ہی دھڑکن میں محسوس ہوتا ہے۔ دنیا کے نقشے پر آج بھی ایسے خطّے موجود ہیں جہاں صرف انسان ہونے کا جرم کافی ہے۔ جہاں سانس لینا گناہ، سوچنا ،سچ کہنا ،اور سوال کرنا بغاوتِ کبریٰ ہے۔ ان زمینوں پر زندگی روز امتحان ہے، اور موت روزانہ کی حقیقت ہے ۔ دنیا کے نقشے پر کئی زمین ایسی ہیں جہاں آزادی ایک خواب، انصاف ایک تمنّا اور زندگی ایک مسلسل جدوجہد بنا ہوا ہے۔ ان خطّوں میں رہنے والا ہر فرد اپنی شناخت اور اپنے وجود کی قیمت روز ادا کرتا ہے۔ آج کے عہد میں بھی نقشۂ عالم پر ایسے خطّے موجود ہیں جہاں صرف زندہ رہنا ہی ایک امتحان، اپنی حق پر آواز اُٹھانا ، اور انسان ہونا جرمِ عظیم ہے۔ ان سرزمینوں پر زندگی کسی نعمت کے بجائے ایک مسلسل جدوجہد کا نام ہے، اور ہر دن اپنے اندر ایک نیا زخم لیے طلوع ہوتا ہے۔ فلسطین کی لہو رنگ گلیاں اور ملبوں میں دبی سانسیں، کشمیر کی سسکیاں اور لہو رنگ صبحیں ، کردستان کی نہ ختم ہونے والی جدوجہد، اور جدوجہد میں صدیوں کا حوصلہ، اور بلوچستان کی چیختی ہوئی خاموشی اور پہاڑوں میں گونجتی ہوئی صدائیں ، یہ سب ایک ہی المیے کی مختلف صورتیں ہیں۔ طاقتور کی جارحیت، قابض کا ظلم، اور کمزور کا صبر سب کہانیاں مختلف ہیں مگر رگِ جاں میں اُترنے والی تکلیف ایک جیسی ہے۔یہ کہانیاں دراصل ایک ہی داستان کے مختلف ابواب ہیں۔ ان سب خطّوں نے اپنے بچوں کے گرتے ہوئے لاشیں دیکھی ہیں ، اپنے بچوں کو گمشدہ ہوتے ہوئے دیکھا ہے، اپنے گھروں کو جلتے دیکھا، اپنی سرزمین کو قابض کے بوٹ تلے روندتے ہوئے دیکھا ہے۔اور شہید ہوتے ہوئے بے وطن دیکھے ہیں۔ یہ خطّے الگ دنیا نہیں، بلکہ ایک ہی دکھ کی توسیع ہیں اور یہ انسانی المیے کا ایک ہی پیکر ہیں۔ ان کا درد اس بات کا اعلان ہے کہ ظلم کا چہرہ چاہے کہیں بھی نمودار ہو، اس کی سفّاکی اور اس کی چوٹ ہمیشہ انسانیت کے دل پر ایک ہی نقش چھوڑتی ہے اور اس کی چیخ ہر جگہ ایک ہی زبان میں جنم لیتی ہے۔الگ خطّے، الگ داستانیں… مگر درد ایک ہی دھڑکن سے جنم لیتا ہے۔ ظلم کی شکلیں مختلف ہو سکتی ہیں، مگر اس کا زہر ایک جیسا ہوتا ہے۔ یہ زخم صرف جغرافیے کا نہیں، انسانیت کا زخم ہے جو فلسطین سے بلوچستان تک ایک ہی لہو میں دھڑکتا ہے۔اس لئے دس دسمبر کو دنیا بھر کے مظلوم قومیں اپنی فریاد اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے اداروں کو سنانے جاتے ہیں کہ ” ہمیں آزاد زندگی چائیے ، ظلم و ذلت نہیں”
دس دسمبر مظلوموں کی فریاد : انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ ظلم ہمیشہ طاقتور کے ہاتھ میں رہا ہے اور انصاف ہمیشہ کمزور کے ہتھیلیوں سے پھسلتا رہا ہے۔ صدیوں کے نشیب و فراز نے انسان کو ہر دور میں یہ حقیقت یاد دلائی ہے کہ انصاف کی جنگ، کمزور کا غم، اور آزادی کی خواہش کبھی ختم نہیں ہوتی— لیکن ظلم کے سامنے انسانیت کا عالمی نظام اکثر گھٹنے ٹیک دیتا ہے۔ دنیا ہر سال 10 دسمبر کو انسانی حقوق کا عالمی دن مناتی ہے، مگر دنیا کے نقشے پر ایسے بے شمار خطّے موجود ہیں جہاں انسانیت آج بھی سسکتی ہے، انصاف آج بھی غلام ہے، اور انسان آج بھی انسانیت کے نام پر قائم عالمی اداروں میں پناہ تلاش کرتا ہے— لیکن وہاں صرف خاموش دروازے اور بے جان قراردادیں ملتی ہیں۔ یہ دن مظلوم اقوام کے لیے کسی جشن کا نہیں، ایک زخم کا دن ہے۔ ایک ایسا دن جو یاد دلاتا ہے کہ عالمی ضمیر اب بھی زندہ نہیں ہوا۔ اعلامیہ حقوقِ انسانی : 10 دسمبر 1948 کو دنیا نے دعویٰ کیا کہ انسان اب آزاد ہوگا، محفوظ ہوگا، اور اس کی عزت و حرمت کو عالمی سطح پر تحفظ ملے گا۔ مگر 74 سال بعد حقیقت چیخ کر بتاتی ہے کہ اعلامیہ منظور ہوا ، مگر انسانیت پھر بھی غیر محفوظ رہی۔قراردادیں پاس ہوئیں مگر مظلوم پھر بھی مر رہے ہیں۔ عالمی ادارے قائم ہوئے — مگر انصاف آج بھی بے بس ہے۔ اقوام متحدہ اپنے وجود کے ساتھ خود ایک سوال بن چکا ہے۔ ایک ایسا ادارہ جس کا وزن صرف کمزور اقوام پر گرتا ہے، اور جس کی خاموشی طاقتور ریاستوں کے ظلم کو مزید طاقت دیتی ہے۔ یہ ادارہ عملاً ایک ایسی جگہ بن چکا ہے جہاں ظلم فائلوں میں بند ہو جاتا ہے ،انصاف پریس ریلیزوں میں دفن ہو جاتا ہے،اور فیصلے طاقتوروں کے مفادات کے تابع رہتے ہیں۔ "یہی وہ سچ ہے جسے دنیا بولنے سے ڈرتی ہے۔
” دنیا کے مظلوم خطّے درد مشترکہ ہیں، اور زخم ایک جیسے : دنیا کے نقشے پر کئی سرزمینیں ایسی ہیں جہاں انسان ہونے کا جرم آج بھی سزا دیتا ہے۔ فلسطین، کشمیر، کردستان اور بلوچستان چار خطّے، چار کہانیاں، مگر درد ایک جیسا ہے۔
فلسطین جہاں انسانیت کی آخری سانسیں لکھی جا رہی ہیں نسل کشی کا وہ باب جو آج کے جدید دور میں بھی بند نہیں ہوتا۔ بچوں کی چیخیں، ماؤں کی سسکیاں، ملبے تلے دبی زندگیاں اور دنیا خاموش۔ اگر عالمی ضمیر زندہ ہوتا تو فلسطین کی مٹی اتنی لاشیں نہ گنتی۔
کشمیر جہاں پوری وادی انسانیت کے حق میں گواہی دیتی ہے ایک کھلی جیل، ایک محاصرہ شدہ قوم، ایک بند آواز۔دنیا کی “تشویش” نے کبھی کسی قوم کو آزادی نہیں دی، اور کشمیر اس کی زندہ مثال ہے۔
کردستان وہ قوم جس کی شناخت کو بھی جرم بنا دیا گیا ہے،چار ریاستوں میں تقسیم ہے، مگر سینہ آج بھی ایک ہے۔ہر روز گرفتاری، ہر روز جبر لیکن مزاحمت کی مشعل اب بھی روشن ہے۔
بلوچستان وہ قبرستان جہاں چیخیں بھی رُک رُک کر مرتی ہیں بلوچستان دنیا کا وہ زخم ہے جسے دنیا نے کبھی کھل کر دیکھنے کی زحمت نہیں کی۔ یہ وہ سرزمین ہے جہاں:جبری گمشدگیاں معمول بن چکی ہیں،مسخ شدہ لاشیں روز کا نوحہ ہیں ،ٹارچر سیلوں میں انسانیت سسکتی ہے ،یونیورسٹیاں فوجی قلعوں میں بدل چکی ہیں ، ماؤں کے ہاتھوں میں اپنے جبری گمشدہ بچوں کے تصویریں اور دلوں میں قبرستان آباد ہیں۔پورا بلوچ سماج خوف، اور ظلم کے محاصرے میں ہے ۔ "یہ کوئی داستانِ قدیم نہیں،آج کا بلوچستان ہے۔” یہ وہ بلوچستان ہے جس کی چیخیں عالمی اداروں کے کانوں تک پہنچ کر بھی بے اثر ہو جاتی ہیں۔ ہر روز کے ساتھ، ہر سال بھی دس دسمبر کو خواتین، بچے، طلبہ، بزرگ عالمی دن پر اقوام متحدہ کے دفتر کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں مظلوم قومیں تصویریں اٹھاتی ہیں ، اپنے پیاروں کی فہرست دیتی ہیں ،گمشدہ افراد کی رپورٹس جمع کرواتے ہیں،تشدد کے ثبوت دکھاتے ہیں ۔مگر ان کی آواز بھی ان بند دروازوں سے ٹکرا کر واپس لوٹ آتی ہے۔ اقوام متحدہ کی میزوں پر صرف خاموش فائلیں بڑھتی رہتی ہیں۔ دنیا کے مظلوم خطّوں میں جتنی لاشیں گرتی رہتی ہیں، مگر عالمی ادارے صرف “گہری تشویش” کے بیانات جاری کرتے رہتے ہیں۔ یہ وہ لمحہ ہے جب انسان سوچتا ہے: کیا انسانی حقوق صرف طاقتوروں کے لیے ہیں؟ اور یہ حقیقت ہے کہ وہ جب ہر امید کی دروازے سے مایوس ہو کر لوٹتا ہے پھر یقین سے کہتا ہے کہ اقوام متحدہ کی خاموشی ہی مظلوموں کی بے بسی اور ظالم ریاستوں کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ اقوام متحدہ کی خاموشی خود ایک جرم ہے۔ یہ خاموشی ظالم ریاستوں کو ایک ہی پیغام دیتی ہے: “جو چاہو کرو، کوئی تمہیں روکنے نہیں آئے گا۔” نہ انکوائری ہوتی ہے،نہ سزا ملتی ہے، نہ پابندیاں لگتی ہیں ،نہ عالمی عدالت حرکت میں آتی ہے یوں لگتا ہے انسانی حقوق کا نظام صرف کتابوں میں محفوظ ہے ،زمین پر نہیں۔اور انسانی حقوق دو دنیاؤں میں بٹا ہوا انصاف ہے۔ آج دنیا میں انسانی حقوق کا تصور خود دو مختلف خانوں میں تقسیم ہو چکا ہے:
طاقتور قوموں کے انسانی حقوق ،جہاں معمولی ظلم پر بھی پوری دنیا لرز جاتی ہے۔ مظلوم قوموں کے انسانی حقوق: جہاں نسل کشی، ٹارچر، بمباری، جبری گمشدگیاں…قتل عام ،سب کچھ “علاقائی مسئلہ” کہہ کر دبا دیا جاتا ہے۔یہ تقسیم خود انسانیت کے چہرے پر سب سے بڑا طمانچہ ہے۔
مظلوم اقوام کے لئے کب انسانی حقوق حقیقت بنیں گے؟ اس دن، جب:اقوام متحدہ ویٹو پاور کی غلامی سے آزاد ہوگا،کمزور اقوام کے لیے مضبوط عالمی نظام بنے گا،ریاستی جبر کو عالمی جرم تسلیم کیا جائے گا ، طاقتور ریاستوں کو بھی قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا ،اور وہ دن جب: بلوچ لاشیں ملنا بند ہوں گے،فلسطینی بچے ملبے کے نیچے نہیں ہونگے ، آسمان تلے بے خوف کھیلیں گے۔ کشمیری قابضوں کے محاصرے سے آزاد ہوں گے، کُرد اپنی شناخت کے ساتھ جی سکیں گے۔ تب انسانی حقوق کا عالمی دن ایک “تقریر” نہیں،ایک حقیقی عہد بنے گا۔
آخر میں، میں کہہ سکتا ہوں کہ انسانیت کا مقدمہ ابھی زندہ ہے۔انسانی حقوق کا عالمی دن اُن آزاد اور طاقتور قوموں کے لئے شاید ایک رسمی نعرہ ہو گا ، مگر مظلوم قوموں کے لئے نہیں ۔ یہ مظلوموں کی آنے والی نسلوں کا زندگی اور موت کا سوال ہے۔ مگر افسوس! عالمی سیاست میں انسانی حقوق اب “اصول” نہیں رہے، صرف “مفاد” کا ایک باب بن گئے ہیں۔ مظلوم مرتے رہتے ہیں… اور عالمی ادارے صرف بیانات دیتے رہتے ہیں ، یہ ہے ہماری دنیا اور اسی دنیا میں انسانیت ہر سال 10 دسمبر کو اپنے ہی بنائے ہوئے قانون پر ماتم کرتی ہے۔
