
اسلام آباد — قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں بلوچ طلبہ نے جبری گمشدہ طالب علم سعید بلوچ کی بازیابی اور ہراسانی کے بڑھتے واقعات کے خلاف احتجاجی دھرنا ایک بار پھر شروع کر دیا ہے۔ بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل نے واضح کیا ہے کہ مطالبات کی منظوری تک احتجاج جاری رہے گا اور یونیورسٹی کو غیر معینہ مدت تک بند رکھنے کی حکمت عملی اپنائی جا سکتی ہے۔
بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل اسلام آباد کے نمائندوں نے یونیورسٹی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ انتظامیہ اور ریاستی ادارے طلبہ کے تحفظ اور قانونی معاونت کی فراہمی میں ناکام رہے ہیں۔ نمایندگان کے مطابق 29 ستمبر تا 5 اکتوبر تک احتجاجی کیمپ کے دوران انتظامیہ نے قانونی معاونت کی یقین دہانی کرائی تھی، مگر اب تک کوئی عملی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔
کونسل کے مطابق بلوچ طلبہ کو اسلام آباد اور پنجاب کے مختلف شہروں میں پروفائلنگ، چھاپوں، تفتیش اور حراست جیسے واقعات کا سامنا ہے۔ ان کے بقول راولپنڈی کی ایریڈ ایگریکلچر یونیورسٹی، سرگودھا یونیورسٹی، نمل یونیورسٹی اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سمیت متعدد تعلیمی اداروں میں بلوچ طلبہ کے خلاف کارروائیاں سامنے آئی ہیں، جس سے طلبہ میں خوف اور ذہنی دباؤ بڑھ رہا ہے۔
پریس کانفرنس میں کونسل نے بلوچستان کے وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی کے حالیہ انٹرویو کا حوالہ بھی دیا، جسے بلوچ طلبہ نے پروفائلنگ کے خوف میں اضافے کا سبب قرار دیا۔ کونسل کے مطابق قائداعظم یونیورسٹی کے چند فیکلٹی ارکان کی طرف سے بلوچ طلبہ کو دھمکی آمیز کالز بھی موصول ہوئی ہیں جن میں احتجاج میں حصہ لینے کی صورت میں انہیں نتائج بھگتنے کی دھمکی دی گئی ہے۔
