
نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی نے کہا ہے کہ سیاسی کارکن غنی بلوچ کی جبری گمشدگی کو آج چھ ماہ مکمل ہو گئے ہیں جبکہ انہیں تاحال منظر عام پر نہیں لایا گیا۔ پارٹی کے مرکزی ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ غنی بلوچ کو رواں سال 25 مئی کو نجی مسافر کوچ کمپنی سے خضدار کے مقام پر اس وقت مبینہ طور پر ایف سی اہلکاروں نے حراست میں لیا جب وہ کراچی کے لیے سفر پر روانہ تھے۔ ترجمان کے مطابق واقعے کے بعد سے اب تک کسی ریاستی ادارے نے ان کی گرفتاری، مقامِ حراست یا قانونی حیثیت کے حوالے سے کوئی مؤقف پیش نہیں کیا۔
ترجمان نے کہا کہ ایک سیاسی کارکن کو آئین اور قانونی تقاضوں کو نظر انداز کرتے ہوئے لاپتہ کرنا بنیادی انسانی حقوق اور جمہوری آزادیوں کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ ان کے مطابق اگر غنی بلوچ پر کسی قسم کا الزام موجود ہے تو انہیں عدالت میں پیش کر کے شفاف ٹرائل کا حق دیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ جبری گمشدگی نہ صرف فردِ واحد کے خلاف ظلم ہے بلکہ ان کے اہلِ خانہ، دوستوں اور سیاسی رفقاء کے لیے شدید ذہنی و جذباتی اذیت کا باعث ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ بلوچستان میں سیاسی سرگرمیوں پر پابندیاں، کارکنان کی جبری گمشدگیاں اور اغوا کا سلسلہ منظم انداز میں جاری ہے، جو جمہوری عمل کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ پارٹی کے مطابق مرکزی رہنما ثنا بلوچ کھیتران کو 10 اگست کو ملتان ایئرپورٹ سے اس وقت اغوا کیا گیا جب وہ عمرہ کے لیے روانہ ہو رہے تھے، جبکہ کراچی زون سے زاہد بلوچ اور بارکھان زون سے زونل ڈپٹی آرگنائزر میر بلوچ سمیت دیگر کارکنان بھی تاحال لاپتہ ہیں۔
نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی نے مطالبہ کیا کہ غنی بلوچ سمیت تمام لاپتہ سیاسی کارکنوں کو فوری طور پر بازیاب کیا جائے اور ماورائے آئین اقدامات کا سلسلہ بند کیا جائے۔ پارٹی کا کہنا ہے کہ سیاسی سرگرمیوں پر غیر اعلانیہ پابندیوں کا خاتمہ جمہوریت کے تسلسل کے لیے ناگزیر ہے اور بلوچ قومی، جمہوری و انسانی حقوق کے لیے جدوجہد جاری رکھی جائے گی۔
پارٹی نے اعلان کیا کہ غنی بلوچ کی جبری گمشدگی کو چھ ماہ مکمل ہونے کے حوالے سے بدھ 26 نومبر کو سوشل میڈیا کمپین اور ویبینار کا انعقاد کیا جائے گا، جس کی تفصیلات جلد جاری کی جائیں گی۔
