
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ اور سیکرٹری جنرل حوران بلوچ نے لاپتہ افراد کے لواحقین کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلوچ خواتین کی جبری گمشدگی پر شدید تشویش کا اظہار کیا اور صحافیوں کی توجہ اس مسئلے کی جانب مبذول کرائی۔
پریس کانفرنس میں بتایا گیا کہ نسرینہ بلوچ کے لواحقین کی جانب سے شکایت موصول ہوئی ہے کہ 22 نومبر کی رات حب چوکی کے علاقے دارو خان ہوٹل کے قریب سیکورٹی فورسز نے ایک گھر پر چھاپہ مار کر نسرینہ ولد دلاور کو حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام پر منتقل کردیا، اور اہلِ خانہ کو تاحال ان کے حوالے سے کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئی۔
رہنماؤں نے مزید کہا کہ اس سے قبل 29 مئی 2025 کو بلوچستان یونیورسٹی کی طالبہ ماہ جبین بلوچ، ولد غلام مصطفی، سکنہ بیسمہ کو سول اسپتال کوئٹہ سے مبینہ طور پر ریاستی اداروں کے اہلکاروں نے حراست میں لیکر جبری لاپتہ کیا تھا۔ چھ ماہ گزر جانے کے باوجود انہیں کسی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا اور نہ ہی خاندان کو ان کے بارے میں معلومات فراہم کی جارہی ہیں۔
ریس کانفریس میں کہا گیا کہ نسرینہ بلوچ اور ماہ جبین کی جبری گمشدگی ملکی قوانین اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے، جس کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور نسرینہ بلوچ اور ماہ جبین بلوچ کی فوری بازیابی کا مطالبہ کرتے ہیں، بلوچ بچیوں کی عدم بازیابی کی صورت میں تنظیمی سطح پر شدید احتجاج ریکارڈ کرایا جائے گا۔
آخر میں آپ صحافی خضرات کے توسط سے بلوچستان کے صوبائی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ نسرینہ بلوچ اور ماہ جبین کی جبری گمشدگی کا فوری طور پر نوٹس لیں، اگر بلوچ بچیوں پر کوئی الزام ہے تو انہیں منظر عام پر لاکر عدالت میں پیش کیا جائے اور ملکی قوانین کے تحت انہیں اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع فراہم کیا جائے اور وہ بےقصور ہے تو ان کی رہائی کو یقینی بنانے میں اپنی کردار ادا کرکے ان کے خاندان کو کرب و اذیت سے نجات دلائی جائے۔
