
ڈیرہ بگٹی، پنجگور، گوادر، سوراب اور کراچی سے جبری گمشدگیوں کی نئی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔ مقامی ذرائع کے مطابق گزشتہ کئی دنوں کے دوران پاکستانی فورسز نے مختلف علاقوں میں کارروائیاں کرتے ہوئے متعدد گھروں پر چھاپے مارے اور 20 سے زائد افراد کو حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقامات پر منتقل کردیا۔
ڈیرہ بگٹی میں چھاپہ مار کارروائیوں کے دوران 15 سے زائد افراد کو حراست میں لیا گیا جن میں سے 9 کی شناخت کی جاچکی ہے۔ لاپتہ ہونے والوں میں ایک ہی خاندان کے تین افراد قصیر ریحان بگٹی، جہا خان مہراللہ بگٹی اور خان مہراللہ بگٹی شامل ہیں۔ اسی طرح شبیر صحبت بگٹی، منگل غلام بکس بگٹی، حسن علی شیر بگٹی، رشید جان محمد بگٹی، نوروز نہال بگٹی اور اسلام رمضان بگٹی بھی لاپتہ افراد میں شامل ہیں۔ اہل خانہ کے مطابق تاحال کسی حکومتی ادارے نے افراد کی گرفتاری یا مقام سے متعلق معلومات فراہم نہیں کیں۔
ادھر پنجگور میں بھی فورسز کی کارروائیوں کے نتیجے میں تین افراد —نزیر بلوچ، بیبگر بلوچ اور عطا اللہ بلوچ کو اُس وقت حراست میں لے جا کر لاپتہ کیا گیا جب وہ اپنے خاندان کے ہمراہ سفر پر تھے۔ عینی شاہدین کے مطابق اس دوران نزیر بلوچ کے بیٹے شہزاد بلوچ اور عطا اللہ کے بھائی جنگیان بلوچ کو بھی راستے سے اٹھا لیا گیا۔
گوادر سے ملنے والی معلومات کے مطابق تلار چیک پوسٹ پر ثنا اللہ بلوچ ولد دین محمد، سکنہ تمپ، کو شام چھ بجے گاڑی سے اتار کر حراست میں لیا گیا اور نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا۔
سوراب کے گریڈ اسٹیشن لنک روڈ پر گزشتہ رات ایک بجے سول کپڑوں میں مسلح افراد نے محمد اسلم کے گھر میں گھس کر اس کے بیٹے محمد شعیب کو حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردیا۔ ورثا نے مطالبہ کیا ہے کہ شعیب کو فوری طور پر عدالت کے سامنے پیش کیا جائے۔
اسی طرح کراچی کے علاقے ماڑی پور سے بھی دو افراد، پیر جان ولد جمال اور عابد ولد کریم بخش، کو 13 نومبر کی رات مبینہ طور پر ایم آئی اور آئی ایس آئی کے اہلکاروں نے اٹھایا۔ اہل خانہ کا کہنا ہے کہ اگر ان افراد پر کوئی الزام ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے، کیونکہ اس طرح جبری طور پر لاپتہ کرنا غیر آئینی اور غیر قانونی عمل ہے۔
ان واقعات کے بعد متاثرہ خاندانوں نے فورسز کی جانب سے حراست میں لیے گئے تمام افراد کی بازیابی اور قانونی تقاضوں کی تکمیل کا مطالبہ کیا ہے۔
