
تحریر: زر مہر بلوچ
زرمبش مضمون
بلوچستان کو دو پہلوؤں میں دیکھنے والے دو بلوچ طبقات ہیں ایک طبقہ عارضی اقتدار کے لیے کوشش کر رہا ہے، دوسرا نظریاتی طبقہ جو بلوچستان کو خودمختار آزاد ریاست بلوچستان کی حیثیت سے دیکھنا پسند کرتا ہے۔
بلوچ اپنی وسائل، اپنی شناخت اور اپنی آزاد ریاست بلوچستان کی خودمختاری کے لیے 78 سالوں سے قبضہ گیر فوجی ریاست پاکستان سے جنگ لڑ رہے ہیں۔
بلوچستان آزادی تحریک نے بلوچ قوم میں دو طبقات واضح کر دیے ہیں۔
ایک وہ جو اقتدار کے لیے اپنی ضمیر، اپنی بلوچ قومی شناخت، اپنے بلوچ قومی ادب اور اپنے بلوچستان کے وسائل کی استحصال میں قبضہ گیر پنجابی فوج کی حمایت کرتے ہیں، اور بلوچ قومی تحریک کے خلاف بلوچ ڈیتھ اسکواڈ قائم کرنے میں قبضہ گیر پنجابی فوج کی مدد کرتے ہیں۔
دوسرا وہ طبقہ جو اپنی بلوچ قومی شناخت، بلوچ قومی ادب، بلوچ قومی ثقافت اور اپنی زمین بلوچستان کی آزادی، اپنے ساحل و وسائل کی حفاظت کے لیے قبضہ گیر پنجابی فوج سے جنگِ بغاوت کا اعلان کر چکے ہیں۔
عارضی اقتدار والا طبقہ
یہ وہ طبقہ ہے جو قبضہ گیر پنجابی فوجی ریاست پاکستان کی سہولت کاری میں مشغول ہے۔ یہ طبقہ قبضہ گیر فوجی ریاست پاکستان کو بلوچ نسل کشی، بلوچ وسائل کی استحصال، بیرونی قوتوں کو بلوچستان میں بلوچ ساحل و وسائل کی لوٹ مار کی سیاسی سرپرستی، پارلیمانی طرز سیاست کو بلوچستان میں فوقیت دینا، اور اقتدار کے لیے آپس میں گالی گلوچی کرنا، بلوچوں میں منشیات فروشی سرعام کرنا، بلوچ روایات کی توہین کرنا، بلوچوں کو آپس میں دست و گریبان کرنا، بلوچ قوم کو اپنی زمین پر باور کرانا کہ تم لوگ غلام ہو، اور غلاموں کو بمشکل دو وقت کی روٹی کمانے کے لیے اپنی زمین پر پنجابی فوج سے اجازت لینی پڑتی ہے، جیسی سرگرمیوں میں ملوث ہے۔
بلوچستان کے ہر شہر، محلے اور گلیوں میں پنجابی فوجی کیمپ و چھاؤنیاں قائم ہیں، اور یہ طبقہ ان فوجی کیمپوں کی حمایت کرتا ہے۔ بلوچستان میں اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں فوجی مداخلت کی حمایت کرنا، بلوچستان کو مزید پنجابی فوج کے قبضے میں دینے کے لیے اسی طبقے کی حمایت حاصل ہے۔ پنجابی فوج نے انہیں بغیر اختیارات کے اقتدار تو دیا ہے مگر ان کی حیثیت پنجابی نسل کے کتوں سے بھی کم ہے۔
اس طبقے نے کئی گھر برباد کر دیے ہیں، کئی بلوچ نوجوان پنجابی فوجی ٹارچر سیلوں میں قید ہیں، کئی بلوچوں کو ماورائے عدالت قتلِ عام کر چکے ہیں۔ بلوچستان میں آئے روز بلوچوں کو لاپتہ کیا جاتا ہے، بلوچ کو آزادانہ روزگار کی اجازت نہیں دی جاتی۔ اس طبقے کی توسط سے قبضہ گیر پنجابی فوج نے بلوچستان میں پنجابی طرزِ تہذیب، شناخت، کلچر، ثقافت اور اردو زبان کو بلوچوں کے سر پر بزور مسلط کر دیا ہے۔ نہ بلوچ اپنی زمین پر آزادانہ کتابوں کا مطالعہ کر سکتا ہے، نہ آزادانہ ادب شناسی؛ ان سب چیزوں پر بلوچستان میں پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
اس طبقے کی حمایت قبضہ گیر پنجابی فوج کو اتنی حاصل ہے کہ ان جیسے لوگوں کے ذریعے پنجابی فوج روزانہ کی بنیاد پر بلوچ نسل کشی میں مصروف ہے اور مظلوم بلوچوں کی آواز کو بزور خاموش کرانا اور بدلے میں اقتدار حاصل کرنا ان کا مقصد ہے۔
نظریاتی طبقہ
نظریاتی طبقہ وہ ہے جو بلوچستان کو خودمختار ریاست کی حیثیت سے دیکھنا چاہتا ہے۔ بلوچستان 1948 سے پہلے ایک خودمختار ریاست کی حیثیت رکھتا تھا۔ بلوچ قوم کی دنیا میں اپنی شناخت تھی، دنیا بلوچ قوم کی قدیم تہذیبی شناخت، ادبی تصانیف، ادبی زبان اور بلوچ قوم کی اپنی روایات کے ضابطہ قوانین اور طرزِ زندگی کے وجود کو تسلیم کرتی تھی۔
یہ سب قبضہ گیر پاکستانی پنجابی فوج کی تشدد، بربریت، ظلم و جبر کی تسلسل کا نتیجہ ہے کہ بلوچ قوم اپنی سرزمین پر غلامانہ اور بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ قبضہ گیر پنجابی فوج کے اثر و رسوخ کے باعث بلوچ، بلوچ کا احترام نہیں کرتا، بلوچ قوم کی چاردیواری تک محفوظ نہیں ہے۔ بلوچ قوم اپنی سرزمین بلوچستان میں دو وقت کی روٹی کمانے کے لیے دربدری کی زندگی گزار رہی ہے، حالانکہ بلوچستان قدرتی وسائل سے اتنا بھرا ہوا ہے کہ بلوچ قوم کی آنے والی کئی نسلیں ہزاروں سال تک کبھی افلاس و بھوک کی صدا بلند نہیں کریں گی۔
آزادی پسند بلوچ سیاسی و مزاحمتی جہدکاروں کا ایمان و نظریہ ہے کہ جب تک دنیا میں دوبارہ بلوچ قوم کو ایک آزاد ریاست بلوچستان کی خودمختاری کا مقام نہیں ملتا تب تک ہم قبضہ گیر پنجابی فوج سے سیاسی، مزاحمتی اور بغاوتی جدوجہد جاری رکھیں گے، اور یہ جدوجہد اُس وقت تک اختتام پذیر نہیں ہوگی جب تک بلوچ قوم اپنی وسائل، اپنی شناخت اور اپنی آزاد ریاست بلوچستان کی خودمختار مالک نہیں بن جاتی۔ اُس وقت تک قبضہ گیر پنجابی فوج سے ہماری جنگ دن بدن شدت اختیار کرتی رہے گی۔
بلوچستان کی آزادی ہی بلوچ قوم کی بقا و ترقی کا ضامن ہوگی۔ آزادی کے بغیر بلوچ قوم غلام ہی رہے گی۔ غلامی میں وقتی اقتدار ہوتا ہے جو قبضہ گیر دیتا ہے، مگر اختیار نہیں۔ چاہے کتنی بھی کوشش کر لی جائے، جمہوری و پارلیمانی طرز سیاست سے کچھ بھی نہیں ملے گا سوائے ذلت و رسوائی کے۔
اسی لیے بلوچستان اور بلوچ عوام کو بلوچستان آزادی تحریک میں شامل ہو کر اپنی تحریک کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کی جدوجہد میں شریک ہونا ہوگا، اسی میں بلوچ قوم کی بھلائی اور بقا ہے۔
