
تحریر: رامین بلوچ
بلوچ سماج کو اگر اپنے تاریخی ارتقاء کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس کے بنیادی خمیر میں غیر طبقاتی اجتماعی ساخت ہمیشہ غالب رہی ہے۔ قبائلی کانفیڈرنسی نظام، روایتی قومی جمہوریت، رائے شماری، اور قوم کے مجموعی مفاد کو ذات و طبقے پر مقدم رکھنے کی روایت نے بلوچ سماج کو ایک ایسی شکل فراہم کی جس میں سماجی انصاف، باہمی احترام، اور اجتماعی ذمہ داری بنیادی اصول رہے۔ بلوچ تاریخ کے ہر مرحلے میں سماج اپنی داخلی حرکیات کے باوجود طبقاتی جبر کے بجائے قوم کی وحدت اور آزادی کے اصول پر قائم رہا۔وہ خطہ جسے آج دنیا بلوچستان کے نام سے جانتی ہے، اپنی وحدت میں تاریخی، تہذیبی اور لسانی طور پر ایک مکمل قومی اکائی تھا، لیکن برطانوی سامراج کی توسیع پسندانہ پالیسیوں نے اسے تین مختلف ریاستوں پاکستان، ایران اور افغانستان میں تقسیم کردیا۔ اس تقسیم نے بلوچ قوم کوسیاسی و جغرافیائی ٹکڑوں میں بانٹا،قومی یکجہتی کے تاریخی دھارے میں رکاوٹیں کھڑی کیں،اور استعماری ریاستوں کو بلوچ وسائل پر قبضے کا موقع فراہم کیا۔
یہی وہ لمحہ تھا جب بلوچ سماج اپنی فطری وحدت کھونے لگا اور ریاستی جبر نے اپنی گرفت مضبوط کی۔
بلوچ سماج کا آغاز جس قبیلوی نظم سے ہوتا ہے، وہ محض قبائلی شناخت کا ایک سادہ ڈھانچہ نہیں تھا بلکہ اپنے اندر ایک ایسی اجتماعی روح رکھتا تھا جس نے بلوچ سماج کو ابتدا ہی سے طبقاتی تفاوت، جاگیردارانہ جبر اور نجی ملکیت کے شدّت پسند نظام سے دور رکھا۔ بلوچ تاریخ کے مطالعے سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ سماج اپنی فطرت میں اشتراکی اصولوں، اجتماعی ملکیت اور قومی مرکزیت کی بنیادوں پر قائم تھا۔ وقت کے ساتھ سماج کا ارتقاء ہوا مگر اصول وہی رہے: برابری، مشترکہ وسائل، مساوی حقوق، مشاورت اور اجتماعی نظم۔بلوچ سماج کی ابتدائی صورت قبائلی تھی، لیکن یہ قبائلی نظام دوسرے خطوں کی طرح استحصالی یا قاتلانہ نہیں تھا۔ اس کے نمایاں خصائص میں شاملاتی زمینیں پوری برادری کی مشترکہ ملکیت تھیں۔اراضی کی تقسیم یا استعمال کا فیصلہ اجتماعی سطح پر ہوتا تھا۔ہر فرد قبیلے کی معاشی اکائی میں برابر شریک ہوتا تھا۔کسی فرد یا خاندان کو مطلق اختیار نہیں دیا جاتا تھا۔یہ وہ نظام تھا جس نے بلوچ سماج کو فطری طور پر طبقاتی تقسیم سے محفوظ رکھا۔
بلوچ سماج کی خاص بات یہ رہی کہ اس میں صدیوں تک نجی ملکیت کا تصور جڑ ہی نہ پکڑ سکا۔ زمین، چراگاہیں، پانی، وسائل سب مشترکہ ملکیت تھے۔ یہی وجہ ہے کہ دولت فرد کے ہاتھ میں جمع نہیں ہو سکتی تھی۔سردار ہو یا عام فرد، دونوں کا معاشی حق مساوی تھا۔کوئی طبقاتی تعصب یا استحصال کا ڈھانچہ نمو نہیں پا سکا۔یہ صورتِ حال جدید سیاسی اصطلاح میں اشتراکی سماج کی خالص ابتدائی شکل کہلا سکتی ہے۔
ماقبلِ نوآبادیاتی بلوچستان میں سردار کا تصور آج کے پروپیگنڈے کے برعکس تھا۔ سردارنہ تو جاگیر دار تھا،نہ استبدادی طاقت کا مالک،نہ ظلم و جبر کی علامت،نہ سرکاری تنخواہ دار“چیف و”نواب“”تھا۔سردار قبیلے کا سفید ریش ہوتا تھا، جو تجربے، دانائی اور انصاف پسندی کی بنیاد پر
منتخب ہوتا تھا۔ سرداریت موروثی اقتدار کا نظام نہیں تھا، بلکہ قبیلہ ضرورت پڑنے پر سردار تبدیل کرسکتا تھا،سردار کے فیصلے جرگے کی منظوری کے بغیر نافذ نہیں ہوتے تھے،سردار کی حیثیت قائدانہ تھی، حکمرانی کی نہیں۔یہ ایک فطری جمہوری ڈھانچہ تھا، جس کا بنیادی مقصد قومی یکجہتی کو برقرار رکھنا تھا۔
بلوچ سماج کے ارتقا کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت نہایت واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ بلوچ معاشرہ اپنی بنیادی ساخت میں ایک غیر جاگیرداری، غیر طبقاتی اور اجتماعی اصولوں پر قائم نظام تھا۔ اس سماجی ڈھانچے کی تاریخی جڑیں نہ صرف اس خطے کے جغرافیے اور قبائلی حرکیات سے ملتی ہیں بلکہ بلوچ قوم کے روایتی تصوراتِ انصاف، آزادی، غیرت اور برابری سے بھی پیوست ہیں۔ یہی وہ عناصر ہیں جنہوں نے بلوچ سماج کو ایک منفرد، غیر استحصالی اور شراکتی طرزِ زندگی عطا کی،ایک ایسا معاشرہ جس میں اجتماعی ملکیت، قبائلی مشاورت، کردار اور بہادری جیسے اوصاف دولت و جائیداد سے کہیں بڑھ کر اہمیت رکھتے تھے۔
بلوچستان کے تاریخی معاشرتی وحدت میں زمینیں ’’شاملات‘‘ کہلاتی تھیں۔ ان شاملات کا بنیادی تصور یہ تھا کہ زمین نہ کسی شخص کی نجی جاگیر ہے، نہ کوئی فرد اس پر مطلق العنان مالک بن سکتا ہے۔ یہ اجتماعی ملکیت قبائلی زندگی کے اس اصول پر قائم تھی کہ وسائل سب کے ہیں اور سب کو برابر رسائی ہے۔ پانی، چراگاہیں، پہاڑ، فصلوں کی زمینیں سب ایک مشترکہ امانت سمجھی جاتی تھیں۔ اس نظام نے نہ صرف طبقاتی تقسیم کے امکانات کم کیے بلکہ معاشرتی ہم آہنگی اور باہمی انحصار کی فضا بھی قائم رکھی۔جاگیرداری کی عدم موجودگی کے معنی یہ تھے کہ بلوچ سماج میں وہ معاشی و سیاسی استحصال پیدا نہ ہوسکا جس نے برصغیر اور مشرقِ وسطیٰ کے کئی خطوں میں طبقات کو جنم دیا۔ یہاں کوئی زمیندار یا وڈیرہ نہیں تھا جو محنت کشوں کی پیداوار پر قبضہ کرے۔ بلوچ چرواہے، کسان، کاریگر اور سپاہی سب اپنے حصے کے مالک تھے اور سب کی بقا ایک دوسرے سے جڑی تھی۔
ْ
بلوچ معاشرت میں سردار اور عام فرد کے بیچ فرق دولت یا جائیداد کا نہیں تھا۔ سرداری ایک انتظامی و روایتی منصب تھا، وراثت سے زیادہ اہلیت اور کردار سے وابستہ۔ مشاورت (دیوان)میں ہر فرد کی آواز کو اصولی طور پر اہمیت حاصل تھی۔ سردار کا مقام اس کی جاگیر سے نہیں بلکہ قوم کے لیے قربانی بہادری جنگی حکمت،روایات کا محافظ اورعدل و انصاف سے طے ہوتا تھا۔ اگر سردار ظلم کرتا یاروایات کی خلاف ورزی کرتا، تو دیوان اسے معزول بھی کرسکتا تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقتدار کو سماجی معاہدے کی ایک شکل سمجھا جاتا تھا، نہ کہ موروثی جبر کی بنیاد۔اسی طرح ایک کاریگر، مزدور، بزگر یا چرواہے کی حیثیت کم نہیں سمجھی جاتی تھی۔ معاشرے میں ہر فرد اپنی مہارت اور کردار کے لحاظ سے معزز تھا۔ بلوچ روایتوں میں لوہار کی مہارت ہو یا چرواہے کا صبر، سب کو ایک باوقار مقام حاصل رہا۔
بلوچستان کا سخت جغرافیہ پہاڑ، ریگستان، پیداواری وسائل نے اس معاشرے کو اجتماعی تعاون اور برابری پر مجبور کیا۔یہ ایک نظریاتی منصوبہ کے ساتھ ایک عملی ضرورت بھی تھی۔اسی جغرافیائی حقیقت نے نجی ملکیت اور جاگیرداری کے خلاف ایک فطری رکاوٹ کھڑی رکھی۔ چونکہ
زمین زیادہ تر چراگاہ اور نیم صحرا تھی، اس لیے اسے ایک فرد کی ملکیت بنانا نہ ممکن تھا نہ فائدہ مند۔ لہٰذا اجتماعی ملکیت کا تصور ارتقائی طور پر مضبوط ہوتا چلا گیا۔
بلوچ سماج کی غیر طبقاتی بنیاد نے اس کے سیاسی شعور کو بھی متاثر کیا۔ آزادی، خودداری اور غیرت، میعار جلی جیسے تصورات بلوچ سماجی ڈھانچے کا عملی حصہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچ تاریخ میں استبداد اور غلامی کے خلاف مزاحمت ایک مسلسل روایت رہی۔ جب بھی بیرونی قوتوں نے قبضے، ٹیکس یا جبری اطاعت کی کوشش کی، بلوچ قوم نے نہایت سخت مزاحمت کی۔ اس مزاحمت میں سردار اور عام فرد کا امتیاز مٹ جاتا تھا، سب ایک صف میں کھڑے ہوتے تھے۔سیاسی سطح پر یہ سماج ایک طرح کی آزاد جمہوریہ تھا، جہاں فیصلہ سازی مشاورت سے ہوتی اوردیوان کو عوامی اخلاقی طاقت حاصل ہوتی تھی۔ سردار طاقت کا مرکز نہیں بلکہ خادم یا نگہبان سمجھا جاتا تھا۔
جیسے جیسے استعماری اثرات بیرونی قبضہ، نوآبادیاتی ریاستی ڈھانچے، سرمایہ دارانہ معیشت اور بیوروکریٹک ادارے اس خطے میں داخل ہوئے، ویسے ویسے طبقاتی تقسیم کی ابتدائی شکلیں نمودار ہونے لگیں۔ ریاستی سرپرستی میں پیدا ہونے والی نام نہاد سرداری، سرمایہ دارانہ جاگیریں، ٹھیکے داری نظام اور وسائل کی مرکزیت نے اس قدیم برابری کو نقصان پہنچایا۔ لیکن تاریخی حقیقت یہی ہے کہ بلوچ سماج اپنی اصل میں ایک غیر طبقاتی، برابری پر مبنی اور اجتماعی اصولوں کا حامل معاشرہ رہا ہے۔یہی وہ تاریخی میراث ہے جس نے بلوچ قوم کی اجتماعی نفسیات کو تشکیل دیا۔ آزادی، مزاحمت، خود داری اور سماجی انصاف کے جو بیج اس معاشرے میں تھے وہ آج بھی بلوچ قومی شعور میں زندہ ہیں۔ اس سماجی غیر طبقاتی روایت کو سمجھنا مستقبل کی سیاسی جدوجہد اور سماجی ترقی کے لیے بھی بنیاد فراہم کرتا ہے۔یعنی یہ سماج مارکسزم کی زبان میں طبقاتی معاشرے کی بجائے کمیونل سوسائٹی کے قریب تھا، جو مساوات اور اشتراکیت کی اصل روح رکھتی تھی۔برطانوی و پنجابی نوآبادیاتی قوتوں کی آمد سے قبل بلوچستان میں سماج میں طبقاتی تضادات نہیں تھے،کوئی جاگیردارانہ زمینداری نہیں تھی،نہ ریاستی جبر کا مشینی ڈھانچہ تھا۔بلوچ قومی وحدت کی جڑیں اسی برابری کے اصول میں پیوست تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ بلوچ سماج محض قبائلی وحدت سے نکل کر قومی مرکزیت کی طرف بڑھا۔ یہ عمل قدرتی تھا
بلوچ سماج کی تاریخ پر نگاہ ڈالی جائے تو ایک حقیقت پوری وضاحت کے ساتھ سامنے آتی ہے کہ بلوچ قوم اپنی اصل روح اور اجتماعی ساخت میں ایک غیر طبقاتی، برابری پر مبنی اور مشترکہ اقدار رکھنے والا معاشرہ تھی۔ کثیر اللسانی تنوع، مشترکہ ثقافت، ہم آہنگ قومی اقدار، رسم و رواج، ایک ہی جغرافیائی وحدت کے اندر صدیوں پر محیط باہمی اشتراک نے بلوچوں کو ایک مضبوط، مربوط اور متحد قومی اکائی میں ڈھال دیا تھا۔ بلوچ زندگی کا سماجی ماڈل قبائلی ضرور تھا مگر یہ قبائلی ساخت استحصال، طبقاتی امتیاز اور جاگیردارانہ منافرت سے پاک تھی۔ یہاں زمینیں مشترکہ ملکیت یعنی شاملات کہلاتی تھیں، اور کسی فرد کو نجی ملکیت کے نام پر باقی قوم سے بالاتر حیثیت حاصل نہ تھی۔ سماجی رتبے کا معیار
دولت نہیں بلکہ کردار، بہادری، روایات اور اجتماعی ذمہ داری ہوا کرتا تھا۔تاہم تاریخ کے اس قدرتی بہاؤ کو سب سے بڑا دھچکا اس وقت لگا جب بیرونی سامراجی قوتوں نے بلوچستان کے سیاسی، سماجی اور معاشی ڈھانچے میں مداخلت شروع کی۔ برطانوی سامراج نے اس خطے
میں قدم رکھتے ہی وہی حکمتِ عملی اختیار کی جو اس نے دنیا کے دیگر نوآبادیاتی علاقوں میں استعمال کی تھی ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘۔ بلوچ سماج کی وحدت اور غیر طبقاتی ساخت ان کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ تھی، لہٰذا انہوں نے مصنوعی طاقت کے مراکز قائم کیے، نئے سردار تراشے اور انہیں ایسی اختیارات اور مراعات دیں جن کا بلوچ معاشرتی روایت میں کوئی وجود نہیں تھا۔ زمینوں پر نجی ملکیت کے سرٹیفکیٹ جاری کیے گئے تاکہ مشترکہ ملکیتی نظام ٹوٹے، اجتماعی وحدت کمزور ہو اور قوم کے اندر طبقاتی دراڑیں پیدا ہوں۔
اس پالیسی کا مقصد بلوچوں کو ان کی صدیوں پرانی قومی کنفیڈرنسی، روایتی مشاورتی نظام اور مشترکہ قبائلی ذمہ داریوں سے کاٹ کر چند افراد کو طاقت کے محور میں بدل دینا تھا۔ برطانوی سامراج جانتا تھا کہ اگر قوم اجتماعی طور پر مربوط رہی تو اس کے لیے مزاحمت کرنا آسان ہو جائےگا، اس لیے انہوں نے مصنوعی سرداری نظام، مراعاتی طبقات اور ایسے بااثر گروہ پیدا کیے جو سامراجی طاقت کے مفاد کے محافظ بن جائیں۔ یوں بلوچ سماج میں پہلی مرتبہ طبقاتی تفریق داخل کی گئی، جس نے اجتماعی طاقت کو بکھیر دیا۔آزادی کے بعد جب پنجابی نوآبادیاتی قوتوں
نے بلوچستان پر فوجی وسیاسی قبضہ و تسلط قائم کیا تو اس نے بھی بعینہ وہی سامراجی ماڈل جاری رکھا۔ برطانوی پالیسیوں کو آگے بڑھاتے ہوئے سرداروں کو ریاستی ایجنٹ بنایا گیا، انہیں طاقت، اسلحہ، سرمایہ اور مراعات تک خصوصی رسائی دی گئی۔ یوں ایک ایسا طبقہ وجود میں آیا جس کی وفاداری اپنی قوم کے بجائے ریاستی طاقت سے جڑ گئی۔ یہی وجہ ہے کہ سرداری نظام، جو صدیوں پہلے قبائلی کنفیڈرنسی کے اصولوں پر مبنی ایک ادارہ تھا، اسے بگاڑ کر ایسا فرسودہ اور غیر فطری ڈھانچہ بنا دیا گیا جو بلوچ قوم کی اجتماعی روح سے مکمل متصادم تھا۔یہ حقیقت اہم ہے کہ روایتی بلوچ قبائلی نظام فرد کے نہیں بلکہ قبیلے کے اجتماعی اختیار کو ترجیح دیتا تھا۔ لیکن ریاستی سرپرستی نے سردار کو قبیلے سے بالاتر حیثیت دینے کی کوشش کی، یوں ایک ایسا طبقاتی نظام پیدا ہوا جو قدرتی نہیں بلکہ مسلط شدہ تھا۔ اس کے نتیجے میں بلوچ سماج کے اندر سیاسی تقسیم، سماجی عدم مساوات اور قومی ہم آہنگی میں دراڑیں پیدا ہوئیں۔ پنجابی ریاست نے داخلی کمزوریوں کو اپنے حق میں استعمال کیا اور قوم کے اندر مصنوعی گروہ اور مفاداتی طبقات پیدا کرکے اجتماعی مزاحمت کو کمزور کیا۔
آج بلوچ قومی جدوجہد میں طبقاتی سوال ایک اہم بحث ہے، کیونکہ موجودہ سماجی بحران کسی فطری ارتقا کا نتیجہ نہیں بلکہ سامراجی منصوبہ بندی اور ریاستی حکمتِ عملی کا پیدا کردہ ہے۔ اس حقیقت کا ادراک ضروری ہے کہ بلوچ سماج کی روایتی ساخت نہ تو جاگیردارانہ تھی اور نہ طبقاتی۔ اس کا اصل جوہر برابری، اجتماعی فلاح اور مشترکہ اقدار پر قائم تھا۔ لہٰذا اگر بلوچ قوم اپنی تاریخی وحدت، سیاسی خود اختیاری اور اجتماعی قوت کو بحال کرنا چاہتی ہے تو اسے اس مصنوعی طبقاتی ڈھانچے کو سمجھ کر اس کے خلاف قومی فکری، سیاسی اور سماجی مزاحمت کو منظم کرنا ہوگا۔اسی تناظر میں یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ بلوچ قوم کی نجات اس تاریخی حقیقت کی بازیافت میں ہے کہ سامراجی مداخلت سے پہلے بلوچ سماج ایک متوازن، غیر طبقاتی، خود مختار اور منظم قوم کے طور پر اپنی شناخت رکھتا تھا۔ آج اس شناخت کو بحال کرنا صرف سیاسی جدوجہد نہیں بلکہ ثقافتی، نظریاتی اور فکری آزادی کی ایک وسیع تر تحریک ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جو آنے والی نسلوں کو استحصال، طبقاتی جبر اور مصنوعی سرداری
نظام سے آزاد کرتے ہوئے انہیں پھر سے ایک متحد، مضبوط اور خود مختار قومی اکائی میں تبدیل کرسکتا ہے۔
آج چند نظریاتی حلقے بلوچ سماج کو ایسے خارجی فلسفوں کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جو اس خطّے کی تاریخی، ثقافتی اور سیاسی حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتے۔ وہ بلوچ مسئلے کو معاشی طبقات کے درمیان جدلیاتی کشمکش بنا کر پیش کرتے ہیں، حالانکہ بلوچ سماج کی تشکیل ہی غیر طبقاتی بنیادوں پر ہوئی ہے۔ بلوچ تاریخ میں نہ جاگیرداری کی کلاسیکل شکلیں پائی جاتی تھیں، نہ ہی طاقت یا سماجی مرتبہ دولت یا سرمایہ دارانہ ملکیت سے متعین ہوتا تھا۔ اس لیے بلوچ مسئلے کا جوہر معاشی نہیں بلکہ خالصتاً قومی نوعیت کا ہے۔بلوچ سماج کا بنیادی تضاد سرمایہ دار طبقے سے نہیں، بلکہ اُن قابض قوتوں سے ہے جو بلوچستان پر سیاسی، عسکری اور معاشی قبضہ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ یہاں استحصال نجی سرمایہ نہیں کرتا، بلکہ ریاستی ڈھانچہ بطور قوتِ تسلط اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ اس لیے بلوچ قومی جدوجہد کا محرّک اور مرکز استعماری قبضے کے خلاف آزادی ہے، نہ کہ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف کوئی طبقاتی معرکہ۔ ایسے میں بلوچ جدوجہد کو طبقاتی رنگ دینا نہ صرف تاریخی حقائق کی نفی ہے بلکہ سیاسی طور پر بھی شدید گمراہ کن ہے، کیونکہ اس سے جدوجہد کی اصل سمت دھندلا جاتی ہے اور مسئلے کی حقیقی نوعیت قومی سوال پس منظر میں چلی جاتی ہے۔
بلوچ سماج کی ساخت، تاریخ اور اجتماعی شعور کا مطالعہ واضح کرتا ہے کہ بلوچ قوم کی سیاسی جدوجہد اور اس کے سامنے موجود بنیادی تضادات کو محض طبقاتی جدلیات کے زاویے سے دیکھنا نہ صرف علمی غلطی ہے بلکہ عملی طور پر ایک ایسی سیاسی گمراہی بھی ہے جو اصل مسئلے کی نوعیت کو مسخ کر دیتی ہے۔ بعض نظریاتی گروہ بیرونی فلسفوں کو بلوچستان پر منطبق کرکے بلوچ مسئلے کی توجیہ ایسے فارمولوں میں تلاش کرتے ہیں جو نہ بلوچ تاریخ کے مطابق ہیں اور نہ بلوچ سماجی حرکیات کے۔ چنانچہ ضروری ہے کہ اس سوال کو تاریخی، سماجی اور سیاسی تناظر میں پرکھا جائے کہ آیا بلوچ مسئلہ طبقاتی ہے یا قومی؟ اور کیا بلوچ جدوجہد کو طبقاتی رنگ دینا حقیقت پسندی ہے یا ایک منظم فکری انحراف؟
بلوچ سماج کی تہذیبی تشکیل صدیوں پر محیط ہے۔ یہ سماج اپنی خمیر میں برابری، اجتماعی ملکیت اور قبائلی اصولوں پر قائم ایک غیر طبقاتی معاشرہ رہا ہے۔ اس کے اندر جاگیردارانہ یا سرمایہ دارانہ طبقے کی وہ شکلیں موجود نہیں رہیں جو دیگر نوآبادیاتی معاشروں میں ملتی ہیں۔ سرداری نظام کی جو شکل آج ہمیں نظر آتی ہے، وہ بلوچ تاریخ کی اصل نہیں بلکہ سامراجی مداخلت کی یادگار ہے۔برطانوی استعمار نے بلوچ سماج کے قدرتی ارتقا کو توڑتے ہوئے مصنوعی طاقت کے مراکز تخلیق کیے، زمین کی نجی ملکیت کے سرٹیفکیٹ تقسیم کیے، اور چند افراد کو سیاسی و معاشی اختیارات دے کر وہ تقسیم پیدا کی جسے آج بعض نظریاتی گروہ“طبقاتی نظام”کا نام دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ طبقاتی ڈھانچہ بلوچ سماج کی داخلی پیداوار نہیں تھا بلکہ نوآبادیاتی حکمتِ عملی کا نفاذ تھا، جس کا مقصد قومی وحدت کو کمزور کرنا اور مرکزیت پر مبنی ریاستی کنٹرول کو مضبوط کرنا تھا۔
بلوچ مسئلہ بنیادی طور پر قومی سوال کا ہے، جس کی جڑیں معاشی نہیں بلکہ سیاسی اور تاریخی ہیں۔ بلوچوں کو درپیش بنیادی تضاد سرمایہ دار طبقے
سے نہیں بلکہ قابض ریاست سے ہے جنہوں نے بلوچ قومی سرزمین، وسائل، ثقافت اور سیاسی اختیار پر قبضہ جما رکھا ہے۔ بلوچ تحریک بلکہ قومی آزادی اور سیاسی حقِ اختیار کی بحالی کے لییہے۔
کلاسیکل مارکسی منطق کے مطابق کسی بھی سماج میں طبقاتی جدوجہد اسی وقت فیصلہ کن عنصر بنتا ہے جب سماج سرمایہ دارانہ یا جاگیردارانہ معاشی پیداواری رشتوں کے تحت ارتقا پذیر ہو۔ بلوچ سماج نہ کبھی اس معاشی ارتقا سے گزرا، نہ اسے اس شکل میں تیار کیا گیا۔ لہٰذا بلوچ جدوجہد کو طبقاتی پیرائے میں پیش کرنے کی کوشش ایک ایسی تھیوری کو زبردستی مسلط کرنا ہے جو سماج کے تاریخی کردار سے مطابقت نہیں رکھتی۔بلوچستان میں حقیقی استحصال کا مرکز نجی سرمایہ دار نہیں بلکہ بلوچ وسائل پر وہ ریاستی قبضہ ہے جو فوجی طاقت، قانونی ڈھانچوں، نوآبادیاتی قوانین اور جغرافیائی انجینئرنگ کے ذریعے قائم ہے۔ گیس، معدنیات، بندرگاہیں، ساحل، زمینیں اور پوری سیاسی فضا ریاست کے قبضے میں ہے، جو بلوچ معاشرے کو ایک محکوم قوم کے طور پر برتتی ہیں۔ یہ استحصال طبقاتی نہیں بلکہ استعماری اور قومی نوعیت کا ہے۔
بلوچ جدوجہد کو طبقاتی رنگ دینا غلط اور خطرناک ہے،طبقاتی بیانیہ بلوچ سماج کی اصل تاریخ اور ساخت کو مسخ کرتا ہے اور اسے ایک ایسی مصنوعی طبقاتی اسکیم کے تحت فٹ کرنے کی کوشش کرتا ہے جو باہر سے درآمد کی گئی ہے۔جب جدوجہد کا رخ طبقاتی تضاد کی طرف موڑ دیا جاتا ہے تو اصل دشمن قابض ریاستنقشے سے غائب ہوجاتی ہے۔بلوچ قومی مسئلہ اپنی جڑوں میں قومی وجود، آزادی، زبان، سرزمین اور شناخت کا سوال ہے۔ اسے بیرونی نظریاتی فارمولوں میں قید کرنا ایک علمی زیادتی ہے۔بلوچ مسئلہ کو طبقاتی جدلیات کے تحت دیکھنا ایک ایسی فکری غلطی ہے جو تاریخ، حقیقت اور سیاسی شعور کے خلاف ہے۔ بلوچ تحریک کا مرکز معاشی طبقات نہیں بلکہ قومی وجود کا دفاع ہے۔ دشمن سرمایہ دار طبقہ نہیں بلکہ وہ ریاست ہیں جو بلوچ سرزمین اور بلوچ وسائل پر قابض ہیں۔ استحصال کا سرچشمہ نجی سرمایہ نہیں بلکہ استعماری قبضہ ہے۔ لہٰذا بلوچ جدوجہد کو طبقاتی رنگ دینا نہ صرف ایک تاریخی غلط تعبیر ہے بلکہ ایک سیاسی گمراہی بھی، جو تحریک کو اس کے اصل راستے سے ہٹانے کے مترادف ہے۔
آج بلوچ سماج کے اندر جس طرح مارکسزم کے نام پر مخصوص ٹراٹسکائیٹ گروہ طبقاتی تقسیم کا بیانیہ پیش کر رہے ہیں، وہ بلوچ تاریخی معاشرت، سماجی ساخت اور قومی جدوجہد سے نہ صرف متصادم ہے بلکہ براہِ راست سامراجی بیانیے کو تقویت دیتا ہے۔ ان گروہوں کا دعویٰ ہے کہ بلوچ مسئلہ اصل میں طبقاتی ہے، لہٰذا قومی آزادی کی جدوجہد ثانوی ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ بلوچ سماج میں تاریخی طور پر سرمایہ دارانہ استحصال، جاگیردارانہ جکڑ بندی، یا طبقاتی تضادات ویسے وجود نہیں رکھتے جیسے صنعت کار یا سرمایہ پرست معاشروں میں ہوتے ہیں۔بلوچ قوم کو جن بنیادی تضادات کا سامنا ہے وہ قومی تضادات ہیں، معاشی طبقاتی نہیں۔طبقاتی بحث کو قوم پر فوقیت دینا، قومی جدوجہد کو کمزور کرکے قابض ریاست کو فائدہ پہنچاتا ہے۔یہ وہی طریقہ ہے جو ہمیشہ قوموں کی آزادی کی تحریکوں کے خلاف استعمال
ہوا،جدوجہد کی سمت بدل دو، تضاد کو الجھا دو، اور قوم کو تقسیم کردو۔
بلوچ قوم آج ایک ایسے تاریخی دو راہے پر کھڑی ہے جہاں تضاد کی نوعیت معاشی یا طبقاتی نہیں بلکہ خالصتاً سیاسی، قومی اور نوآبادیاتی نوعیت کی ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جو بلوچ تاریخ، بلوچ سماج کی ساخت، اور موجودہ سیاسی صورتِ حال کو سامنے رکھ کر واضح ہوتی ہے۔ اس کے باوجود بعض حلقے خواہ وہ پنجابی کامریڈز ہوں یا ٹراٹسکائیٹ سرخے،بلوچ سماج پر مصنوعی طبقاتی تقسیم کی بحث تھوپ کر حقیقی قومی مزاحمت کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن زمینی حقیقت اس کے برعکس ہے: بلوچ قوم کے سامنے آج صرف دو واضح طبقات موجود ہیں، اور یہی قومی تضاد بلوچ جدوجہد کی اصل بنیاد ہے۔پہلا طبقہ: پنجابی سامراج اور اس کے مقامی دلال،یہ طبقہ وہ ہے جو ریاستی طاقت، تشدد، فوجی جارحیت، معاشی لوٹ مار اور قومی شناخت کے خاتمے کے منصوبوں کا اصل مرکز ہے۔ یہ صرف فوجی طاقت کا استعمال نہیں، بلکہ ایک منظم نوآبادیاتی منصوبہ ہے جس کے ذریعے بلوچ سرزمین کو معاشی منڈی میں بدل کر وسائل کو ضبط کیا جا رہا ہے۔اس طبقے میں شامل ہیں:وہ ریاستی طاقتیں جو بلوچستان کو ایک نوآبادی کے طور پر برت رہی ہیں،وہ عسکری و سول ادارے جو بلوچ وسائل اور سیاسی مستقبل پر قابض ہیں،اور وہ مقامی سردار، ایجنٹ، پارلیمانی وزراء اور اشرافیہ جو قابض قوت کے دلال کے طور پر بلوچ عوام کے خلاف صف آراء ہیں۔یہ طبقہ محض ’’سرمایہ دار‘‘ نہیں بلکہ نوآبادیاتی اقتدار کا نمائندہ ہے۔ اس کا مقصد بلوچ قوم کی زمین، وسائل، ساحل، ثقافت، زبان، جغرافیہ، اور سیاسی اختیار پر مکمل قبضہ برقرار رکھنا ہے۔ اس طبقے کا کردار وہی ہے جو ہر استعمار اپنے مقبوضہ خطوں میں ادا کرتا آیا ہے یعنی مقامی دلالیت کے ذریعے استحصال کو مضبوط کرنا۔دوسرا طبقہ مقبوضہ بلوچ قوم ہے،اس تضاد کا دوسرا فریق وہ بلوچ قوم ہے جو سیاسی، عسکری، معاشی اور ثقافتی جبر و غلامی کا شکار ہے۔ یہ وہ قوم ہے جس کی آزادی کو زبردستی سلب کیا گیا، جس کے وسائل کو ریاستی طاقت کے ذریعے لوٹا گیا، جس کی زبان کو حاشیے پر دھکیلا گیا، اور جس کی قومی شناخت کو ختم کرنے کی اعلانیہ پالیسیاں چلائی جا رہی ہیں۔بلوچ قوم بطور محکوم قوم ایک طبقہ نہیں بلکہ ایک قومی اکائی ہے، جواپنی قومی آزادی،وسائل پر حقِ ملکیت،جغرافیائی وحدت،ثقافتی بقا،اور سیاسی خودمختاری اور ایک آزاد بلوچ ریاست کے حصول کی جدوجہد کر رہی ہے۔یہ تضاد محض "معاشی” نہیں بلکہ وجودی ہے،ایک پوری قوم کی بقا اور فنا کا سوال۔
یہ دونوں قوتیں قابض استعماراور مقبوضہ بلوچ قومایک دوسرے کے مدِّ مقابل کھڑی ہیں، اور یہی بلوچ جدوجہد کی اصل بنیاد ہے۔ اس تضاد کو طبقاتی نام دینا حقیقت کے تضاد کو مٹانے کی کوشش ہے۔پنجابی استعمار کا بنیادی ہدف یہ ہے کہ بلوچ مزاحمت اپنے اصل راستے سے بھٹک جائے، بلوچ قومی شعور کو طبقاتی نعروں میں الجھا کر قومی وحدت کو توڑا جائے، اور تحریک اپنے اصل ہدف یعنی قومی آزادی سے دور ہو جائے۔یہ حقیقت تاریخی تجربے سے ثابت ہے کہ جب بھی کوئی محکوم قوم اپنی آزادی کی جدوجہد پر آگے بڑھتی ہے، تو نوآبادیاتی طاقتیں اس کے اندر مصنوعی نظریاتی تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔بلوچ معاشرے میں طبقاتی تقسیم کا بیج بونا انہی کوششوں کا حصہ ہے۔اس کے ذریعے وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ بلوچ مسئلہ "طبقاتی” ہے، تاکہ قومی سوال کو ثانوی حیثیت دی جائے،مزاحمت کا رخ پنجاپی قبضہ گیر کے بجائے "عالمی سرمایہ دارانہ نظام” کی طرف موڑا جائے، بلوچ قوم کے اندر یکجہتی کی جگہ انتشار پیدا کیا جائے، اور تحریک آزادی کو اس کی اصل سمت سے ہٹایاجائے۔یہ طرزِ فکر تاریخی حقائق سے متصادم ہے، کیونکہ بلوچستان میں داخلی طبقاتی ڈھانچہ پنجابی استعمار کی پیداوار ہے، نہ کہ بلوچ سماج کی فطری ارتقا کا نتیجہ۔یہاں طبقاتی نظام کی جو بحث آج کی جا رہی ہے وہ دراصل ایک بیرونی فریم ورک ہے، جو قومی مسئلے کو کمزور کرنے کے لیے تھوپا جا رہا ہے
قابض سامراجی ریاست اوراومقبوضہ بلوچ قوم یہی وہ تضاد ہے جو بلوچ قومی تحریک کا مرکز ہے، اور یہی بلوچ جدوجہد کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ بلوچ تحریک اسی وقت مضبوط رہ سکتی ہے جب وہ اپنی سمت کو اس بنیادی قومی تضاد کے ساتھ ہم آہنگ رکھے۔اسی تناظر میں یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ بلوچ جدوجہد طبقاتی نہیں بلکہ قومی آزادی کی جدوجہد ہے۔طبقاتی بیانیہ محض ایک ایسی حکمتِ عملی ہے جس کا مقصد تحریک کی اصل روح کو کمزور کرنا اور اسے مصنوعی تضادات میں الجھا کر قومی وحدت کو توڑنا ہے۔بلوچ قوم کے لیے یہ وقت شدید فکری آزمائش کا ہے ا ضروری ہے کہ بلوچ مکاتبِ فکر ہر طرح کے غیر حقیقی طبقاتی بیانیوں سے ہوشیار رہیں۔قومی جدوجہد کو نظریاتی سطح پر واضح اور مضبوط رکھا جائے۔پنجاپی ریاست کے خلاف جدوجہد کو بلوچ قوم بمقابلہ قبضہ گر ریاست کے تناظر میں جاری رکھا جائے، کیونکہ یہی بلوچ تحریک کی اصل شناخت ہے۔
