آواران ھنکین میں بی این ایم کا شہداء کی یاد میں تقریب — ڈاکٹر نسیم بلوچ، قاضی ریحان، چیف اسلم اور دیگر رہنماؤں کا خطاب

بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا کہ قومی تحاریک میں پارٹیوں اور اداروں کا کردار بنیادی اور برتر ہوتا ہے۔ پاکستان کے قبضے کے بعد بلوچوں نے کئی بار مزاحمت کی، مگر ادارے نہ ہونے کی وجہ سے تحریک برقرار نہ رہ سکی۔

یوم بلوچ شہداء کے موقع پر بی این ایم کے شہید راشد زون، آواران کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ادارے تحریک کے تسلسل میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ سب سے بڑی مزاحمت اور جنگ 1970 کی دہائی میں ہوئی جو صرف چار سال جاری رہی، مگر تنظیمی ڈھانچہ نہ ہونے کے باعث تحریک برقرار نہ رہ سکی۔ موجودہ تحریک 25 سال پر محیط ہے اور مسلسل مضبوط ہو رہی ہے، کیونکہ اس میں تنظیموں کا بنیادی کردار ہے۔ اگر تنظیمیں نہ ہوتیں تو آج تحریک اس مضبوط شکل میں موجود نہ ہوتی اور بلوچ کی آواز بین الاقوامی سطح تک نہ پہنچتی۔ دنیا ہماری جدوجہد کو قدر کی نگاہ سے اس لیے دیکھتی ہے کہ ہمارے پاس موثر تنظیمیں اور سیاسی جماعتیں ہیں۔

انھوں نے بلوچ ڈائسپورا کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ تاریخ میں پہلی بار جنگ کے باعث بلوچستان کے عوام بڑی تعداد میں دنیا کے مختلف ممالک میں منتشر ہوئے۔ پہلے بلوچ زیادہ تر افغانستان جاتے تھے، جبکہ اب دنیا کے آخری کناروں تک پہنچ چکے ہیں—اور یہ عام لوگ نہیں بلکہ بلوچ قومی تحریک سے وابستہ شخصیات ہیں۔

چیئرمین بی این ایم نے کہا کہ یورپ اور امریکا میں مقیم بلوچ جہاں بھی مواقع ملتے ہیں، اداروں تک رسائی حاصل کرکے بلوچ سوال وہاں اٹھاتے ہیں۔ موجودہ بلوچ ڈائسپورا 70ء کے مہاجرین کے مقابلے میں کہیں زیادہ منظم اور مؤثر ہے۔ بی این ایم نے گزشتہ 15 برسوں میں بلوچ ڈائسپورا کو منظم کرکے اسے ایک مضبوط سیاسی ڈائسپورا کی شکل دی ہے، جو بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے بارے میں دنیا کو آگاہ کر رہی ہے اور تحریک کے حوالے سے منظم کمپین کا ہراول دستہ ہے۔

انھوں نے کہا کہ آج کی قومی تحریک بلوچ سیاسی جماعتوں کی مرہون منت ہے جن کی شب و روز کوششوں کی وجہ سے تحریک ہر جہت میں مضبوط ہوئی ہے۔ بی این ایم، بی ایس او (آزاد) اور بی آر پی کے سیاسی کیڈرز نے بلوچ قومی سوچ کی آبیاری میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ یوم شہداء کا مقصد صرف شہداء کو یاد کرنا ہی نہیں بلکہ ان کے مشن کو آگے بڑھانے کے عہد کی تجدید بھی ہے۔ شہداء نے اپنے حصے کی ذمہ داری نبھائی، اب باقی سفر زندہ کارکنوں کے کندھوں پر ہے۔ شہداء کے نظریاتی وارث ہم ہیں، اور پارٹی میں شمولیت کے وقت ہم نے شہداء کے خون کی قسم کھا کر اس کارواں کو آگے بڑھانے کا حلف لیا تھا۔ ہمیں اداروں کو مزید مضبوط کرکے تحریک کو آگے لے جانا ہوگا۔

چیئرمین نے کہا کہ قومی تحریک کے فروغ میں سیاست کا کردار سب سے اہم ہے۔ تعلیم دینا، انسانی حقوق کی آگاہی دینا یا مسلح جدوجہد — یہ سب سیاست ہی کی مختلف صورتیں ہیں۔ اگر بندوق سیاست سے الگ ہو جائے تو کامیابی ممکن نہیں رہتی۔ تامل تحریک بھی مضبوط تھی، لیکن سیاسی سرگرمیاں ختم کرکے صرف مسلح جدوجہد پر انحصار کرنے کے باعث شکست سے دوچار ہوئی۔ ہمیں ماضی کی غلطیوں کو نہیں دہرانا چاہیے، اگر مجھ سے بھی غلطی ہو تو ساتھی مجھ پر تنقید بھی کرسکتے ہیں اور میرا احتساب بھی کرسکتے ہیں۔

اس کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس طویل سفر میں ہمیں بھی تجربہ حاصل ہو رہا ہے اور دشمن کو بھی ہم سے نمٹنے کا تجربہ مل رہا ہے۔ دشمن وسائل کے اعتبار سے بہت آگے ہے اور ہمیں روکنے کے لیے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرے گا۔ ہمیں عقل و حکمت کے ساتھ دشمن کی قوت کو سمجھتے ہوئے اپنی تحریک آگے بڑھانی ہے۔ پالیسی ایسی ہونی چاہیے کہ دشمن کو نقصان پہنچے لیکن وہ ہماری حکمت عملی کی پیش بندی نہ کر سکے۔

تقریب میں چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ کے علاوہ بی این ایم کے سیکریٹری اطلاعات و ثقافت قاضی داد محمد ریحان، مرکزی کمیٹی کے رکن چیف اسلم بلوچ، زون کے صدر استاد مھران، نائب صدر تلار ناز اور فنانس سیکریٹری میرک بلوچ نے بھی خطاب کیا۔

سیکریٹری اطلاعات و ثقافت قاضی داد محمد ریحان نے کہا کہ ہمیں اپنے اداروں کا احترام کرنا چاہیے، انھیں مضبوط کرنا چاہیے اور بلوچ سیاست میں بی این ایم کی حیثیت اور قدر کو سمجھنا چاہیے۔ بی این ایم وہ پہلی جماعت ہے جس نے واضح طور پر بلوچستان کی آزادی کا مطالبہ کیا۔ بی این ایم کی اہمیت کا ادراک کرنے سے سمجھ آتی ہے کہ شہداء نے کن مقاصد کے لیے اپنی جانیں قربان کیں۔

انھوں نے کہا کہ بی ایس او اور بلوچ طلباء نے تحریک میں تاریخی کردار ادا کیا ہے۔ طلباء کی سیاست وقتی ہوتی ہے اور پھر ہر شخص مختلف تنظیموں میں شامل ہو جاتا ہے، جبکہ بی این ایم میں شامل ہونے والے اکثر تا حیات وابستہ رہتے ہیں—یہ نسل در نسل قائم رہنے والی وابستگی ہے۔

قاضی ریحان نے کہا کہ 13 نومبر یاد دلاتا ہے کہ آزادی کے ساتھ ہم نے کیا کھویا۔ دنیا اپنے تاریخی آثار محفوظ رکھتی ہے، مگر ہمیں ہماری شاندار تاریخ اور آثار سے محروم کیا گیا ہے۔ ہر قابض نے محکوم قوم کی تاریخ کو مٹانے کی کوشش کی۔ اسکندر یونانی سے لے کر عرب حکمرانوں تک، سب نے ہمارے خطے کی تاریخ اور لسانی ورثے پر وار کیا۔

انھوں نے بتایا کہ جب انگریزوں نے کلات کا محاصرہ کیا تو خان بلوچ نے سرداروں سے مدد طلب کی اور اپنی بیٹی کو بطور پیغام رساں بھیجا، مگر سرداروں نے انگریزوں کا ساتھ دیا۔ اس کے برعکس ہندو بلوچوں نے مادر وطن کے دفاع میں ایسی تاریخ رقم کی جو ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ انھوں نے کہا کہ اگر ہمارا دھرم راہ میں رکاوٹ ہے تو ہم اپنا دھرم چھوڑنے کو تیار ہیں مگر دفاع وطن سے پیچھے نہیں ہٹیں گے — اور وہ قومی دفاع کی اس جنگ میں امر ہوگئے۔

دیگر مقررین نے کہا کہ جو اقوام اپنے شہداء کو یاد رکھتی ہیں وہ ہمیشہ سرخرو رہتی ہیں، جبکہ اپنی قربانیوں کو بھلانے والی اقوام تباہ ہو جاتی ہیں۔ شہداء جانتے تھے کہ دشمن طاقتور ہے، لیکن انھوں نے کمزوری کے بجائے مزاحمت کو چنا۔ آج اگر بلوچ قوم دنیا میں اپنی شناخت رکھتی ہے تو یہ شہداء کے خون کا نتیجہ ہے۔

انھوں نے کہا کہ میر محراب خان نے جانتے ہوئے کہ وہ طاقتور دشمن کے سامنے ہیں، شہادت کا راستہ چُنا اور اپنے عمل سے آنے والی نسلوں کے لیے تاریخ رقم کی۔ آج 13 نومبر اسی جدوجہد کی یاد ہے، اور ہم اس موقع پر اپنے تمام شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔

مقررین نے کہا کہ میر محراب خان کی رکھی ہوئی بنیاد آج بھی قائم ہے اور بلوچ اپنی قومی آزادی، نسل اور قومی حمیت کے دفاع کے لیے جانوں کا نذرانہ پیش کر رہا ہے۔ بلوچستان میں کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جس میں کسی جہدکار کی شہادت نہ ہو۔

انھوں نے کہا کہ جب انگریز افغانستان جا رہے تھے تو انہیں خوف تھا کہ بلوچ ان کا راستہ روکیں گے۔ بولان سے گزرتے ہوئے مری بلوچوں نے ان پر حملہ کرکے انھیں پسپائی پر مجبور کیا۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا پُرامن احتجاجی کیمپ کو 6000 دن مکمل، کیمپ میں خصوصی کانفرنس

ہفتہ نومبر 15 , 2025
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نے آج کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ جبری گمشدگیوں کے خلاف تنظیم کے قائم احتجاجی کیمپ کو آج کوئٹہ پریس کلب کے سامنے چھ ہزار دن مکمل ہو گئے ہیں۔ تنظیم کے رہنماؤں کے مطابق یہ کیمپ بلوچستان کے مختلف […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ