
تحریر: دودا بلوچ
زرمبش مضمون
13 نومبر اور بلوچستان
بلوچستان وہ سرزمین ہے جس کی تاریخ مزاحمت اور قربانی کی داستانوں سے بھری پڑی ہے۔ اس کے ذرے ذرے میں وہ یادیں زندہ ہیں جو غلامی کے خلاف اٹھنے والے ہر صدی کی گواہی دیتی ہیں کہ بلوچستان وہ سرزمین ہے جس کی ریت اور سمندر کی مہک میں مزاحمت کی خوشبو بسی ہوئی ہے، جس کے پہاڑ اور سہرا وفا کے گواہ بن کر نسلوں کو قربانی کا درس دیتے ہیں، جہاں تاریخ کے ہر موڑ پر ظلم کے خلاف آواز اُٹھی ہے، جہاں انسان نے غلامی کی زنجیروں کے بجائے موت کو گلے لگایا ہے۔ اسی سرزمین پر 13 نومبر بلوچ تاریخ میں ایک ایسا باب ہے جو ہمیشہ خون اور مزاحمت کی داستان سے روشن رہے گا۔
13 نومبر ایک تاریخی فیصلہ ہے جو ہر آنے والے سال میں ہمیں مزید سفر کرنے اور جدوجہد کرنے کی ہمت اور شجاعت عطا کرتا ہے۔
2010 وہ سال تھا جب بی ایس او آزادی نے عطاء شاد ڈگری کالج تربت میں منعقد اپنے ایک پروگرام میں 13 نومبر کو بلوچ شہدا کے دن کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا تاکہ ان تمام بلوچ شہداء کو یاد کیا جا سکے جنہوں نے سامراجیت کے خلاف جدوجہد کی اور موجودہ پاکستانی قبضے کے خلاف آزادی کی جدوجہد میں شہید ہوئے۔ یہ ایک موثر اور اجتمائی فیصلہ تھا جس نے بلوچ سماج میں شہدا کی جدوجہد اور قربانیوں کو سنہرے اور لازوال انداز میں عوام کے سامنے پیش کیا، اور یہ تا حال جاری ہے۔
اس دن کے انتخاب کا مقصد برطانوی سامراج کے خلاف جدوجہد کرنے والے خان محراب خان کی شہادت کے دن کے ساتھ منسلک ہے۔ یہاں 13 نومبر کا انتخاب اس لیے اہم تھا کیونکہ شہید خان محراب خان سامراج کے خلاف لڑنے والے وہ شہید تھے جو بیرونی یلغار کے سامنے ڈٹ گئے اور اپنی سرزمین کی حفاظت کی۔
شہید محراب خان کے بعد بھی اس کے سرزمین کے باسیوں نے اس روایت کو زندہ رکھا اور شہادت کی داستانیں رقم کرتے رہے۔ 13 نومبر صرف ایک تاریخی واقعہ کی یاد نہیں بلکہ بلوچ قوم کی حافظہ، تشخص، خودمختاری اور مزاحمت کے تسلسل کی علامت ہے۔
تیرہ نومبر دراصل اس لمحے کی یاد دہانی ہے جب ایک بلوچ حکمران نے غلامی کی بجائے آزادی اور موت کو چُنا، اور اپنی سرزمین کے دفاع میں قربانی دے کر آنے والی نسلوں کے لیے راہیں متعین کیں۔
13 نومبر تاریخی پس منظر اور خان محراب خان کی شہادت
13 نومبر 1839 کو جب برطانوی سامراج نے قلات پر حملہ کیا، تب بلوچستان ایک خودمختار اور آزاد ریاست تھا۔ انیسویں صدی میں اس وقت کے سپر پاور برطانوی افواج نے اپنی توسیع پسندی کے تحت قلات پر قبضے کا منصوبہ بنایا تو خان محراب اس سامراجی عزائم کے سامنے ڈٹ گئے اور ریاست قلات کی دفاع کرتے ہوئے جان سے گئے۔ خانِ قلات نے وہی راستہ چُنا جو صرف بہادر اور وطن پر مر مٹنے والے عظیم فرزند چنتے ہیں۔ مھراب خان یہ بخوبی جانتے تھے کہ ایک سپر پاور کے سامنے ڈٹ جانے کا مقصد اپنی زندگی کی قربانی دینا ہے، مگر انہوں نے استحصال زدگی کی زندگی کے بجائے شہادت کو ترجیح دی اور قوم کے عظیم رہبر و ہیرو بن گئے۔ اُن کے نزدیک غلامی میں جینا موت سے بدتر تھا، اس لیے محراب خان نے تاریخ کے اس موڑ پر وہ فیصلہ کیا جس نے انہیں ہمیشہ کے لیے بلوچ قومی مزاحمت کی علامت بنا دیا۔ انہوں نے غلامی کے بجائے دوسرا راستہ چنا: برطانوی سامراج کے خلاف مزاحمت کرنا۔
جب برطانوی فوج نے قلات کے قلعے کو گھیر لیا تو خان محراب خان نے اپنے چند مخلص ساتھیوں کے ساتھ قلات کی حفاظت کے لیے دشمن کا مقابلہ کیا۔ دشمن کی توپوں کی گھن گرج اور گولیوں کی برسات نے ان کی حوصلہ و ہمت کو شکست نہیں دی، بلکہ خان نے اپنے وطن کی مٹی کے لیے آخری سانس تک لڑے اور اپنی آخری خون کے قطرے تک قلات کی حفاظت کی۔ 13 نومبر کی شام کو انہوں نے شہادت پائی اور تاریخ میں امر ہو گئے۔ اُن کی شہادت نے غلامی کی اندھیروں میں آزادی کی شمع کو روشن کرنے کا مزاحمتی راستہ دکھایا۔
آج ڈیڑھ صدی سے زیادہ کا وقت گزر چکا ہے، مگر محراب خان کی وہ قربانی بلوچ قومی تحریک کے لیے مشعلِ راہ بنی ہوئی ہے۔ ہر سال جب 13 نومبر کا سورج طلوع ہوتا ہے، بلوچستان کے پہاڑ اور وادیاں شہید محراب خان کے نام سے گونج اُٹھتی ہیں، گویا زمین کہتی ہو:
“میں نے اس فرزندِ بلوچ کا خون دیکھا ہے جس نے سامراج کے سامنے سر جھکانے کے بجائے شہادت کو قبول کیا مگر قوم کی محکومی کو نہیں۔”
اسی جذبے کے ساتھ آج بلوچ سرمچار پاکستانی قبضے کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کر رہے ہیں اور ان کے دلوں میں بھی وطن پر مٹنے کا وہی شوقِ شہادت ہے جو خان محراب خان کے دل میں تھا، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ تاریخ میں وہی لوگ امر ہوتے ہیں جو اپنی وطن اور آزادی کے لیے آخری سانس تک لڑتے اور قربان ہو جاتے ہیں۔
تاریخ کا تسلسل: برطانوی سامراج سے پاکستانی ریاست تک
13 نومبر 1939 کو خان محراب خان نے برطانوی سامراج کے خلاف اپنی آخری سانس تک مزاحمت کی اور شہادت پائی، اور اس کے بعد یہ سفر جاری رہا۔ جب دوسری عالمی جنگ کے بعد برطانوی سامراج کی معیشت کمزور پڑ گئی اور جاتے جاتے اس نے اس خطے میں ایک نئی نوآبادیاتی ریاست پاکستان کی شکل میں اپنی میراث چھوڑ دی۔ اسی برطانوی نوآبادیاتی ریاست پاکستان نے 27 مارچ 1947ء کو آزاد بلوچستان پر حملہ کیا، حالانکہ بلوچستان اُس وقت بھی ایک خودمختار ریاست تھا اور اس کے کچھ حصوں پر برطانوی سامراج ایک برائے نام معاہدے کے تحت قابض تھا۔ بلوچستان کی ہزاروں سال کی تاریخ اور ثقافت تھی، اور اس وقت پاکستانی ریاست کی عمر محض 9 ماہ تھی جب اس نے بلوچستان پر اپنے پیشروں کی مدد سے قبضہ جمایا۔
یوں ایک بار پھر برطانوی سامراج کے بعد پاکستان نے بلوچستان پر قبضہ کیا۔ فرق صرف اتنا تھا کہ سامراج کے جھنڈے کا رنگ بدل گیا، مگر بلوچ سرزمین پر قبضہ کرنے والی سوچ وہی رہی۔
پاکستانی قبضے کے خلاف 13 نومبر 1939 کی داستان بلوچ قوم کو بیدار ہونے کا پیغام دیتی ہے اور یاد دلاتی ہے کہ اپنے بقا اور وطن کے لیے مزاحمت کرنا فرض ہے۔ ہمارے فطرت میں غلامی نہیں، بلکہ ہماری زمین پر زور زبردستی قبضہ کیا گیا ہے، اور قبضہ گیر کے خلاف جدوجہد کی داستان کبھی ختم نہیں ہوتی۔ یہ صرف رخ بدلتی ہے۔ آج اگر دشمن کا چہرہ بدل گیا ہے، تو مزاحمت کا جذبہ وہی ہے۔ آج اگر برطانوی سامراج کی جگہ پاکستانی ریاست نے لی ہے، تو قربانی دینے والے بلوچ بیٹے وہی جذبہ رکھتے ہیں۔
آج بلوچستان میں بلوچ مائیں اپنے بیٹوں کو یہی دعائیں دیتی ہیں کہ وہ اپنے وطن کے لیے سرفروش بنیں۔ جب بلوچ مائیں اپنے بیٹوں کو وطن کے لیے رخصت کرتی ہیں تو اُن کے دل میں فخر کی وہی کیفیت ہوتی ہے جو محراب خان کی ماں کے دل میں تھی۔ وہ جانتی ہیں کہ خون کے چراغ ہی آزادی کے راستوں کو منور کرتے ہیں اور ہر ایک اپنے راستے پر قربانی دے رہا ہے، جس کا مقصد ایک خوشحال اور خودمختار ریاست کی تشکیل ہے، جو ہر بلوچ کی ارمان ہے۔
میرا نزدیک
13 نومبر ہمیں مایوسی سے نکال کر یاد دلاتا ہے کہ ہم ایک ایسی قوم کے وارث ہیں جس نے ہمیشہ ظلم اور غلامی کے اندھیروں کے خلاف جدوجہد کی ہے۔
13 نومبر ہمیں اُن شہیدوں کو یاد کرنے کو کہتا ہے جنہوں نے اس سرزمین کے لیے اپنی جانیں نچھاور کیں، خواہ معلوم ہو یا گمنام، تاہم بلوچ سرزمین کے عظیم فرزند اور ہیرو ہیں جنہوں نے صرف اپنی سرزمین سے وفاداری اور اس کے دفاع کے لیے اپنی جان نچھاور کی۔
بلوچ قوم کی تاریخ دراصل قربانی کے اس فلسفے کا تسلسل ہے جو خان محراب خان کی شہادت سے جنم لیتا ہے۔ وہ لمحہ جب ایک انسان نے غلامی کے اندھیروں پر آزادی کے اجالے کو ترجیح دی۔
13 نومبر ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ مزاحمت محض جنگ نہیں بلکہ ایک روحانی عہد ہے جو قوموں کے ضمیر میں بیداری پیدا کرتا ہے۔ یہ دن یاد دلاتا ہے کہ قربانی جسم کی موت نہیں بلکہ فکروں کی زندگی ہے، اور محراب خان کی شہادت اسی ابدی سچائی کی علامت ہے کہ آزادی اُن قوموں کا مقدر بنتی ہے جو مرنے کو قبول کرتے ہیں لیکن جھکنے سے انکار کرتی ہیں۔
آخر میں یہی کہوں گا کہ 13 نومبر بلوچ قومی غیرت اور اجتماعی شعور کا دن ہے۔ یہ وہ دن ہے جب بلوچ قوم اپنے شہیدوں سے عہد کرتی ہے کہ وہ خوابِ آزادی کو تعبیر دیں گے۔
بلوچ قومی تحریک میں 13 نومبر صرف ایک تاریخی دن نہیں بلکہ ایک وعدہ ہے: آزادی کا، خوداری کا، قربانی کا۔ یہ بلوچ قوم کا عہد ہے کہ ہمیں اپنی آزاد ریاست کی بحالی تک قربانی دینے سے پیچھے نہیں ہٹنا، جس پر پاکستان نے 27 مارچ 1948 کو قبضہ کیا تھا۔ اس کے قیام تک یہ جدوجہد اور قربانی کا فلسفہ یوں ہی جاری رہے گا۔
