قابض فورسز کا پنجگور میں بلوچ خواتین کے خلاف وحشیانہ عمل بلوچ عزت و وقار پر حملہ ہے۔ رحیم بلوچ ایڈووکیٹ

بلوچ نیشنل موومنٹ کے سابق سیکرٹری جنرل رحیم بلوچ ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ بلوچ خواتین محترمہ نازیہ شفی اور ان کی والدہ پری بلوچ کا پنجگور میں ان کے گھر سے پاکستانی نیم فوجی دستے فرنٹیئر کور کے ہاتھوں اغوا ایک نہایت قابلِ مذمت اور سنگین جرم ہے، جو جوابدہی اور انصاف کا تقاضا کرتا ہے۔

رحیم بلوچ ایڈووکیٹ نے کہا کہ نازیہ بلوچ کی غیر قانونی حراست کے دوران ذہنی و جسمانی تشدد، بشمول جنسی زیادتی، کے نتیجے میں موت ایک جنگی جرم ہے۔ قابض فورسز کا بلوچ خواتین کے خلاف یہ وحشیانہ عمل کسی فرد یا خاندان پر حملہ نہیں بلکہ بلوچ عزت و وقار پر حملہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی فوج اور فرنٹیئر کور گزشتہ تین دہائیوں سے مقبوضہ بلوچستان میں بڑے پیمانے پر ایسے جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم، اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کر رہے ہیں، لیکن آج تک نہ تو پاکستانی عدالتوں نے اور نہ ہی بین الاقوامی عدالتوں اور اداروں نے “جو ایسے جرائم میں ملوث ممالک، حکومتوں، گروہوں یا افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے ذمہ دار ہیں” ان کو کبھی جوابدہ ٹھہرایا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسی سزا سے استثنا کی ثقافت کے باعث یہ وحشی پاکستانی فورسز اب کسی احتساب کے خوف کے بغیر ایسے جرائم کرتی ہیں۔ پہلے ایسے جرائم مقبوضہ بلوچستان کے دور دراز پہاڑی علاقوں میں کیے جاتے تھے، جہاں میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں یا ان کے کارکنوں کی رسائی نہیں تھی۔ پاکستانی عدالتوں کی ملی بھگت اور اقوام متحدہ و دیگر متعلقہ بین الاقوامی اداروں، بشمول بین الاقوامی فوجداری عدالت، کی بے حسی کے نتیجے میں اب قابض پاکستانی فوج اور فرنٹیئر کور کے سفاک اہلکار اتنے دلیر ہو چکے ہیں کہ وہ شہروں اور قصبوں میں بھی ایسے انسانیت سوز جرائم کرنے لگے ہیں، جس کی تازہ مثال محترمہ نازیہ بلوچ اور ان کی والدہ محترمہ پری بلوچ کا اغوا اور ان پر ڈھایا گیا ذہنی و جسمانی تشدد، بشمول جنسی زیادتی، ہے۔

رحیم بلوچ ایڈووکیٹ نے کہا کہ اس سے قبل، ماجبین بلوچ نامی ایک طالبہ کو 29 مئی 2025 کو پولیس اور خفیہ اہلکاروں نے سول اسپتال ہوسٹل کوئٹہ سے اغوا کیا تھا، جو اب تک ریاستی عقوبت خانوں میں لاپتہ ہیں۔ ایک اور بلوچ خاتون صفیہ بی بی دختر گل محمد، ساکن نورگاما، زہری، کو 5 اکتوبر 2025 کو پاکستانی فوج نے ان کے گھر سے اغوا کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ، یورپی یونین، بین الاقوامی فوجداری عدالت، اور بین الاقوامی فوجداری عدالت کے پراسیکیوٹر کو اپنا فرض ادا کرتے ہوئے پاکستانی فوج، فرنٹیئر کور، سی ٹی ڈی پولیس اور خفیہ اداروں کو ان کے انسانیت کے خلاف جرائم، جنگی جرائم، اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر جوابدہ ٹھہرانا چاہیے۔ صرف ان جرائم کی مذمت کافی نہیں، بلکہ مجرموں کا احتساب اور متاثرین کو انصاف فراہم کرنا ہی حقیقی حل ہے۔

آخر میں رحیم بلوچ ایڈووکیٹ نے کہا کہ بلوچستان کی آزادی ہی وہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے بلوچ عوام اس اجتماعی ذلت اور غلامی کی زندگی سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

قلات حملوں میں قابض پاکستانی فوج کے چھ کمانڈوز سمیت 17 اہلکار ہلاک کردئیے۔ بی ایل اے

اتوار نومبر 2 , 2025
بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان جیئند بلوچ نے میڈیا کو بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ سرمچاروں نے قلات کے علاقے شیخڑی، مورگند، مکئی، خیصار کے مقامات پر تین روز کے دوران قابض فوج کو حملوں میں نشانہ بنا کر قابض فوج کے کمانڈوز سمیت سترہ اہلکاروں کو ہلاک […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ