ماھ جبین بلوچ، ضمیر اور روایت کا مقدمہ

تحریر: دودا بلوچ
زرمبش مضمون

اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جنگیں بے رحم اور خطرناک ہوتی ہیں۔ وہ انسان سے اس کی انسانیت چھین لیتی ہیں، زمین سے اس کی خوشبو ختم کر دیتی ہیں۔ جہاں رحم کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی، جہاں زندگی اور موت کے درمیان صرف ایک لکیر رہ جاتی ہے: فتح یا شکست۔ جہاں انسانی جان کی قیمت ریت کے ایک ذرے سے بھی کم سمجھی جاتی ہے۔

اور آج بلوچ قوم ایک ایسی ہی جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے، ایک ایسی جنگ جو صرف ہتھیاروں سے نہیں، بلکہ بلوچ قوم کے وجود، شناخت اور روایت کے خلاف لڑی جا رہی ہے۔ دشمن وہ ہے جس کے پاس نہ تاریخ ہے، نہ تہذیب، نہ کوئی جنگی روایت۔ اگر کچھ ہے تو صرف درندگی اور ظلم کا تسلسل۔ وہ دشمن جو عورت اور بچے میں تمیز نہیں کرتا، جس کی تلواروں پر عورتوں کی چیخوں کے نشان ہیں، اور جس کے لشکر معصوم بیٹیوں کی لاپتگی کو اپنی فتح سمجھتے ہیں۔

یہ کوئی نئی کہانی نہیں۔ یہ داستان 1971 سے شروع ہوئی، جب بنگال کی عورتوں کو جنگی ہتھیار بنایا گیا، اور مردوں کے خلاف ظلم و زیادتی کی گئی۔ آج وہی داستان بلوچستان میں بلوچ بیٹیوں کے ساتھ دہرائی جا رہی ہے۔ بس چہرے بدل گئے ہیں، مگر ظلم و جبر کی آنکھیں وہی ہیں۔

انہی داستانوں میں ایک داستان ماہ جبین کی ہے۔
ماہ جبین انہی داستانوں کا ایک نیا نام ہے، ایک زندہ علامت جو بلوچ عورت کی مظلومیت نہیں، بلکہ اس کی مزاحمت کا استعارہ ہے۔ آج پانچ ماہ گزر جانے کے باوجود بھی ماہ جبین کا کوئی سراغ نہیں۔ نہ کوئی عدالت بولی، نہ کوئی سردار اٹھا، نہ کوئی نواب اپنی پگڑی اتاری۔ مگر پھر بھی ماہ جبین ریاستی زندانوں میں مزاحمت کی ایک نئی تاریخ رقم کر رہی ہے۔ وہ خاموشی سے یہ پیغام دے رہی ہے کہ اگر گل بی بی میدانِ جنگ میں لڑ سکتی ہیں تو ماہ جبین بھی زندان کی چار دیواری میں اپنے بھائیوں کے لیے ہمت اور حوصلے کا حوالہ بن سکتی ہے۔

مگر افسوس ان سرداروں اور نوابوں پر جو دو مارچ کو بلوچی لباس اور پگڑی پہنتے ہیں، لیکن ان کی روایت اور ثقافت کا رنگ ماہ جبین کے لاپتہ ہونے کے ساتھ ماند پڑ گیا ہے۔ ان کی نوابی اور سرداری میں وہ غیرت اور وقار باقی نہیں رہا جو صدیوں پہلے چاکر اور گھرام کی پگڑی میں تھا۔

کیونکہ سرداری اور نوابی کی روایت صرف پگڑی پہننے یا دو مارچ منانے کا نام نہیں، بلکہ اپنی قول، روایت، شناخت اور ثقافت کی پاسداری کرنے والے کو سردار کہا جاتا ہے۔ یہ وہ سردار اور نواب تھے جنہوں نے اپنی روایات کی حفاظت کے لیے ہزاروں قربانیوں کے باوجود پیچھے ہٹنا گوارا نہیں کیا۔

بلوچ تاریخ میں بے شمار مثالیں ملتی ہیں، جن میں سب سے بڑی مثال رند اور لاشاری کی خانہ جنگی ہے۔ چاکر نے اپنی قول اور روایت کی پاسداری کرتے ہوئے ایک باہوٹ عورت کے لیے چالیس سالہ جنگ لڑی۔ اس جنگ میں رند اور لاشاری کی دو نسلیں تباہ ہو گئیں، مگر روایت باقی رہی۔ یہ داستان بلوچ تہذیب کا وہ باب ہے جس نے دنیا کو بتایا کہ بلوچ اپنی جان اور مال سب کچھ قربان کر سکتا ہے، مگر روایت نہیں۔

پھر وقت نے ایک اور داستان لکھی، نواب اکبر بگٹی کی صورت میں۔
وہ محض ایک سردار نہیں تھا، بلکہ روایت کی چلتی پھرتی تشریح تھا۔
نواب اکبر بگٹی نے ایک نازیبہ واقعہ میں اپنی غیرت اور روایت کی حفاظت کی، جب ڈیر بگٹی میں ڈاکٹر شازیہ کے ساتھ زیادتی ہوئی۔ بلوچ روایت میں عورت کی مقام بہت بلند ہے؛ اگر کوئی عورت جنگ کے دوران اپنی چادر پھینک دیتی ہے تو جنگ روک دی جاتی ہے، خون اور قتل معاف کیے جاتے ہیں۔

نواب اکبر بگٹی نے اپنی آخری سانس تک روایت کی حفاظت کی۔ اس نے اپنی عمر کی آخری لڑائی عزت اور روایت کے نام پر لڑی، اور شہید ہو کر ثابت کیا کہ روایت سے بڑا کچھ نہیں۔

نواب بگٹی کے بعد اب دور بدل چکا ہے۔
اب شازیہ کی جگہ داستان ماہ جبین ہے، جو پچھلے پانچ ماہ سے لاپتہ ہے، لیکن داستان چاکر اور نواب اکبر بگٹی نہیں ہے، کیونکہ اب روایت اور پگڑی صرف دو مارچ کی جلسوں میں دیکھی جاتی ہے۔ اب بلوچ روایت صرف کتابوں میں، قول و تقریروں میں، اور شعروں میں رہ گئی ہے۔ ماہ جبین کی لاپتگی پر قوم کی خاموشی درحقیقت روایت کی تدفین ہے۔

یہ خاموشی صرف افراد کی خاموشی نہیں، یہ ایک عہد کی موت ہے۔ بلوچ تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ایک عورت غائب ہو جائے اور قوم خاموش رہے۔ یہ وہی قوم ہے جو کبھی ایک عورت کی چادر پر جنگ روک دیتی تھی، مگر آج عورت کے غائب ہونے پر شاعری خاموش، سیاستدان خاموش، اور جلسوں کا شور بھی خاموش ہے۔

یہ خاموشی سب سے بڑا گناہ ہے، کیونکہ تاریخ نے یہ ثابت کیا ہے کہ جب ایک قوم اپنی عزت اور عورت کی حفاظت نہیں کر سکتی، تو اس کی روایت، تہذیب اور غیرت سب کچھ مر جاتا ہے۔ پھر وہ قوم صرف جغرافیہ رہ جاتی ہے، نقشے پر ایک نام، مگر روح سے خالی۔

ماہ جبین کا لاپتہ ہونا محض ایک بیٹی کی گمشدگی نہیں، بلکہ بلوچ قوم کے ضمیر کی خاموش موت ہے۔ یہ روایت کے دل پر لگنے والا وہ زخم ہے جس کا نشان وقت بھی مٹا نہیں سکتا۔ یہ ثقافت کی وہ چیخ ہے جو اب خاموشی میں بدل چکی ہے، اور غیرت کی مٹی تلے دفن وہ صدا ہے جو ہر سچ بولنے والے دل میں اب بھی گونجتی ہے۔ بس یہی کہتا ہے کہ کاش ماہ جبین کے لیے کوئی نواب اکبر یا چاکر رند پیدا ہوتا۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

مند: لاپتہ نوجوانوں کے لواحقین اور انتظامیہ کے مذاکرات کامیاب، احتجاج ختم

جمعہ اکتوبر 31 , 2025
مند کے علاقے بلوچ آباد میں چھ روز سے جاری احتجاج اس وقت ختم ہوگیا جب لاپتہ نوجوانوں کے لواحقین اور ضلعی انتظامیہ کے درمیان مذاکرات کامیاب ہوگئے۔ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے بھیجے گئے وفد نے متاثرہ خاندانوں سے ملاقات کر کے حراست میں لیے گئے نوجوانوں کی ایک […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ