لندن میں مقیم بلوچ ڈائسپورا کا احتجاج اور پاکستانی میڈیا

تحریر: کامریڈ قاضی
زرمبش مضمون

پاکستانی ریاست نے بلوچستان کو جبراً اپنے قبضے میں لے رکھا ہے اور وہاں کے لوگوں کو لاپتہ، شہید اور نقل مکانی پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ اس ظلم و ستم کو دنیا سے چھپانے کے لیے پورے بلوچستان میں انٹرنیٹ بند کیا گیا ہے تاکہ کوئی بھی انسانی حقوق کی تنظیم پاکستانی فوج کے مظالم کے بارے میں آواز نہ اٹھا سکے۔ مگر ان تنظیموں کی خاموشی نے پاکستان کو مزید موقع دیا ہے کہ وہ بلوچوں کی نسل کشی کرے۔ جب بی ایس او آزاد اور بی این ایم پر پابندی لگائی گئی تو انسانی حقوق کی تنظیمیں اور بین الاقوامی میڈیا خاموش رہے۔ پاکستان نے درجنوں بی این ایم اور بی ایس او کے کارکنان اور عہدیداران کو قتل اور لاپتہ کیا، جو آج تک لاپتہ ہیں۔

یہ سب کچھ ہو چکا ہے، لیکن آج جب بی وائی سی (بلوچ یکجہتی کمیٹی) پر بھی کریک ڈاؤن کیا گیا اور اس کے مرکزی رہنما جیل میں ہیں، تب بھی اقوامِ متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں خاموش ہیں۔ پاکستان “فتنۂ ہندوستان” اور “دہشت گردی” کے نام پر بلوچوں کو شہید کر رہا ہے اور ان کی نسل کشی کر رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ انسانی حقوق کی تنظیموں کی خاموشی، بلوچوں کی نسل کشی میں پاکستان کے ساتھ ہم آہنگی کی عکاسی کرتی ہے۔

اگرچہ بین الاقوامی سطح پر بی این ایم اپنی ذمہ داریاں نبھا رہا ہے، احتجاج کر رہا ہے اور سیمینارز منعقد کر رہا ہے، انہوں نے دنیا کو اپنا پیغام ایک حد تک پہنچایا ہے۔ امید ہے کہ وہ آئندہ بھی اسی طرح اپنا پیغام دنیا تک پہنچاتے رہیں گے۔ اسی طرح لندن میں مقیم بلوچ ڈائسپورا نے جب زہری میں ہونے والے ظلم و ستم کو دنیا کے سامنے لانے کے لیے احتجاج کیا، تو انہوں نے زہری میں فوجی آپریشن اور بلوچستان میں جاری ریاستی تشدد کے خلاف نعرے بازی کی۔ ان کے ہاتھوں میں زہری میں شہید ہونے والے معصوم بچوں اور شہریوں کی تصاویر تھیں۔

پاکستان کا زرخرید میڈیا بلوچستان میں ہونے والے ظلم و ستم کو تو نظرانداز کرتا ہے، مگر لندن میں پاکستانی فوج کے زرخرید صحافی نے مظاہرین سے ان تصاویر کے بارے میں سوالات کیے، جیسے کہ “ان بچوں کے نام کیا ہیں؟” یا “زہری کہاں ہے؟” اس کا مقصد صرف بلوچوں پر ہونے والے پاکستانی ظلم و جبر کو چھپانا تھا۔ اس نام نہاد صحافی خاتون نے کہا، “آپ بی ایل اے کو دہشت گرد کہیں اور اس کی مذمت کریں۔” مجھے حیرانی ہوتی ہے کہ جب پاکستانی فلسطین، کشمیر اور ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے احتجاج کرتے ہیں تو وہ ان کے بچوں کے نام تک یاد رکھتے ہیں، لیکن بلوچوں کے حوالے سے وہ اتنی بے حسی دکھاتے ہیں۔ شاید اس لیے کہ وہ بلوچ نہیں ہیں۔

میں ان صحافیوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ آپ نے بلوچستان کے کن کن شہروں کا دورہ کیا ہے؟ آپ ایک بار زہری کا دورہ کریں۔ آپ، پاکستانی میڈیا یا انسانی حقوق کی تنظیموں کو وہاں جانا چاہیے تاکہ آپ زہری کی حالت دیکھ سکیں۔ آپ کو خود پتہ چل جائے گا کہ پاکستان اور اسرائیل میں کیا فرق ہے۔ آج زہری میں ایک خوفناک ماحول ہے، لوگ باہر نہیں نکل سکتے۔ وہاں کے لوگوں کو گھر سے باہر آنے کے لیے فوج سے اجازت لینی پڑتی ہے۔ انہیں بنیادی ضروریاتِ زندگی، جیسے ادویات، تک فراہم نہیں کی جا رہیں۔ کیا یہ ظلم و ستم نہیں؟ مکران سے لے کر ڈی جی خان تک ہر بلوچ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ پاکستان ہمارا ملک نہیں، بلکہ ایک قابض ریاست ہے۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

ڈیرہ بگٹی: سوئی میں پاکستانی فورسز کے ہاتھوں چار افراد جبری طور پر لاپتہ

ہفتہ اکتوبر 25 , 2025
بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی کی تحصیل سوئی میں گزشتہ شب دریحان کالونی میں سی ٹی ڈی اہلکاروں نے چھاپے مار کر دو نوجوانوں کو حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردیا۔ لاپتہ نوجوانوں کی شناخت امام داد ولد کرمان بگٹی اور جان محمد ولد دادان بگٹی کے ناموں سے […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ