
تحریر: نصیر احمد بلوچ
زرمبش مضمون
قوم دوستی (Nationalism) کسی بھی قوم کی آزادی اور بقا کی سب سے بڑی ضمانت ہے۔ یہ ایک ایسا نظریہ ہے جو فرد، جماعت اور ذاتی مفاد کو قوم کے اجتماعی مفاد کے تابع کر دیتا ہے۔ نیشنل ازم کی اصل بنیاد یہی ہے کہ قوم سب سے پہلے۔ اگر کسی تحریک میں عوام کو شک یا تقسیم کے دائرے میں ڈال دیا جائے تو وہ اپنی اصل قوت اور عزم کھو دیتی ہے۔قوم دوستی (Nationalism) صرف ایک سیاسی نظریہ نہیں بلکہ ایک ایسا اجتماعی شعور ہے جو مظلوم قوم کو اپنی آزادی، وقار اور بقا کے لیے متحد کرتا ہے۔ کسی بھی تحریکِ آزادی کی کامیابی اس وقت ممکن ہوتی ہے جب ہر فرد کی قربانی اور جدوجہد کو تحریک کا حصہ سمجھا جائے۔ اگر نیشنل ازم کو صرف جماعتی یا ذاتی مفادات تک محدود کر دیا جائے تو یہ اپنی اصل روح کھو بیٹھتا ہے۔
بلوچ تحریکِ آزادی بھی اسی اصول پر مضبوط بنیاد حاصل کر سکتی ہے کہ قوم کا ہر فرد — خواہ وہ کسی جماعت یا تنظیم سے وابستہ ہو یا نہ ہو — تحریک کا ستون ہے۔کسی بھی قوم کی آزادی اور بقا کا انحصار صرف اس کی عسکری یا سیاسی قوت پر نہیں ہوتا بلکہ اس کے نظریاتی تسلسل، فکری یکجہتی اور اجتماعی شعور پر بھی منحصر ہوتا ہے۔ بلوچ قوم کی طویل مزاحمتی تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ آزادی کی تحریکیں اس وقت کامیاب ہوتی ہیں جب وہ صرف جماعتی یا ذاتی مفاد تک محدود نہ رہیں بلکہ پوری قوم کو ساتھ لے کر چلیں۔ نیشنل ازم (قوم دوستی) دراصل اسی ہم آہنگی اور اجتماعیت کا نام ہے۔اسی تناظر میں، بلوچ نیشنل ازم کا تقاضا یہ ہے کہ کوئی بھی فرد خواہ وہ سیاسی جماعت کا رکن ہو یا عام شہری، تعلیم یافتہ ہو یا غیر تعلیم یافتہ، مرد ہو یا عورت اگر اپنی قوم کے حق میں آواز بلند کرتا ہے، تو وہ قومی جدوجہد کا حصہ ہے، اور اس کی قربانی کو تسلیم کرنا نیشنل ازم کا بنیادی تقاضا ہے۔
ایک حقیقی نیشنلسٹ پارٹی کا نظریہ یہ ہونا چاہیے کہ وہ ہر طرح کی بلوچ مزاحمت کو تحریک کا حصہ سمجھے۔ اگر کوئی جماعت صرف اپنے اراکین کو محب وطن مانے اور باقی سب کو شک کی نگاہ سے دیکھے، تو وہ نیشنل ازم سے ہٹ کر گروہی سیاست میں داخل ہو چکی ہے۔قوم دوستی کا معیار یہ ہونا چاہیے کہ کوئی فرد یا جماعت دشمن کے خلاف ڈٹ کر کھڑی ہو، شہادت کو ذاتی یا جماعتی نہیں بلکہ قومی قربانی سمجھے، اور مظلوم بلوچ کی پشت پر کھڑی ہو۔ یہی وہ جذبہ ہے جو کسی بھی تحریک کو عوامی تحریک میں بدلتا ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ جب فلسطین میں مزاحمت کو صرف ایک جماعت کی میراث بنایا گیا تو تحریک کمزور پڑی، لیکن جب اسے اجتماعی مزاحمت تسلیم کیا گیا تو اس نے عالمی سطح پر ہمدردی اور حمایت حاصل کی۔ بلوچ تحریک بھی اسی وقت مضبوط ہوگی جب ہر فرد کی قربانی کو تحریک کا حصہ مانا جائے گا۔
ہر بلوچ مزاحمت، تحریک کا حصہ ہے :
بلوچ قومی جدوجہد کسی ایک تنظیم یا پارٹی کی جاگیر نہیں۔ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ آزادی کی تحریکیں ہمیشہ عوامی قربانیوں کے سہارے آگے بڑھی ہیں۔ اگر کوئی بلوچ اپنی ذات، وقت یا وسائل سے مزاحمت میں شریک ہوتا ہے، چاہے وہ قلم سے ہو یا عمل سے، اس کی قربانی کو نظرانداز کرنا یا اسے ذاتی مفاد کہہ کر رد کرنا قومی تحریک کی جڑوں کو کمزور کرتا ہے۔اسی طرح سیاسی جماعتوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ صرف اپنے کارکنوں کی وجہ سے نہیں بلکہ عام بلوچ عوام کے اعتماد اور حمایت کی وجہ سے طاقتور ہیں۔ اگر عوام کو شک و شبہ میں ڈال دیا جائے کہ صرف جماعتی کارکن ہی محب وطن ہیں، تو اس سے قوم میں بداعتمادی پھیلے گی اور قابض ریاست کو فائدہ پہنچے گا۔
نیشنل ازم کی بنیاد: ’’ قوم سب سے پہلے ‘‘
قوم کا مفاد، عزت، اور سلامتی ہر ذاتی یا جماعتی مفاد سے بالاتر ہو۔ جیسا کہ Benedict Anderson اپنی کتاب Imagined Communities میں لکھتے ہیں:
“قوم دراصل ایک تخیلی برادری ہے جس کے افراد ایک دوسرے کو براہِ راست نہیں جانتے، مگر قربانی اور جدوجہد میں ایک دوسرے سے جُڑے ہوتے ہیں۔”اسی بنیاد پر اگر کوئی بلوچ، قابض ریاست کے جبر کے خلاف مزاحمت کرتا ہے تو اس کی قربانی قومی جدوجہد کا حصہ ہے اور اسے کسی شک یا ذاتی مفاد کے خانے میں ڈالنا تحریک کے لیے ناقابل تلافی نقصان ہے۔ نیشنل ازم کا تقاضا یہ ہے کہ قومی مفاد ہر ذاتی، گروہی یا جماعتی مفاد سے بلند ہو۔ بیسویں صدی کی بیشتر آزادی کی تحریکیں الجزائر، ویتنام ، اریٹریا ،ایسٹ تیمور اور بنگلہ دیش—اسی اصول کو اپناتے ہوئے کامیاب ہوئیں۔
فرانتز فینن اپنی مشہور کتاب The Wretched of the Earth میں لکھتے ہیں:“قوم پرستی کا حقیقی امتحان یہ ہے کہ آیا کوئی تحریک اپنی بنیاد کو محض پارٹی سیاست تک محدود رکھتی ہے یا وہ پوری قوم کے ہر فرد کو جدوجہد میں شامل کرتی ہے۔”اسی تناظر میں، بلوچ نیشنل ازم کا تقاضا یہ ہے کہ کوئی بھی بلوچ اگر قابض ریاست کے خلاف کسی بھی طرح مزاحمت کرتا ہے تو اس کی قربانی قومی جدوجہد کا حصہ ہے۔
نیشنل ازم اور بلوچ تحریک کی عملی مثالیں
بلوچ قومی تحریک کی تاریخ یہ ثابت کرتی ہے کہ اصل نیشنل ازم صرف پارٹی ممبران یا جماعتی ڈھانچوں تک محدود نہیں رہا بلکہ ہر وہ بلوچ جو قابض ریاست کے جبر کے خلاف کھڑا ہوا، اس تحریک کا حصہ بنا۔
چیئرمین غلام محمد بلوچ کی شہادت
چیئرمین غلام محمد بلوچ کی شہادت اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ قربانی کسی پارٹی ممبر کے لیے نہیں بلکہ پوری قوم کے لیے ہوتی ہے۔ ان کی جدوجہد اور شہادت نے یہ پیغام دیا کہ نیشنل ازم کا تقاضا ہے کہ قوم کے ہر فرد کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا، چاہے وہ کسی جماعت سے تعلق رکھتا ہو یا نہیں۔ غلام محمد بلوچ نے آخری لمحوں تک یہ نظریہ اپنائے رکھا کہ بلوچ قومی تحریک ایک اجتماعی شعور ہے، نہ کہ چند لوگوں کی جاگیر۔
کریمہ بلوچ کا کردار
کریمہ بلوچ کی قربانی نے نیشنل ازم کی اس اخلاقی بنیاد کو پھر سے زندہ کیا کہ عورتیں اور نوجوان صرف “سپورٹنگ کردار” نہیں بلکہ تحریک کی قیادت بھی کر سکتے ہیں۔ انہوں نے یہ ثابت کیا کہ بلوچ مزاحمت ایک ہمہ گیر مزاحمت ہے، جہاں تعلیم یافتہ نوجوان لڑکیاں بھی قابض ریاست کے خلاف اپنی آواز بلند کرتی ہیں۔ ان کی جلاوطنی میں جدوجہد اور شہادت پوری بلوچ قوم کے لیے ہے، نہ کہ کسی پارٹی یا گروہ تک محدود۔
عام بلوچ عوام کی مزاحمت
بلوچ تحریک میں ہزاروں ایسے افراد کی مثالیں ہیں جو کسی جماعت کا حصہ نہیں تھے لیکن انہوں نے اپنی زندگیاں اس جدوجہد پر قربان کر دیں۔ جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے شکار ہونے والے بیشتر بلوچ کسی پارٹی کے باضابطہ رکن نہیں تھے، لیکن ان کی قربانی تحریک کا ایندھن بنی۔ نیشنل ازم کا اصول یہی ہے کہ ان سب کی جدوجہد کو برابر تسلیم کیا جائے، کیونکہ قومی آزادی انہی اجتماعی قربانیوں سے جنم لیتی ہے۔
"علمی و تحقیقی حوالہ جات”
بلوچ تحریک پر لکھنے والے محققین بھی یہی نکتہ دہراتے ہیں کہ نیشنل ازم کو صرف پارٹی سیاست تک محدود کرنا تحریک کو کمزور کرتا ہے۔ – فرانتز فینن (The Wretched of the Earth) کے مطابق: “قوم پرستی کی کامیابی کا انحصار اس پر ہے کہ تحریک کتنی وسیع اور عوامی شرکت پر مبنی ہے۔”
– بینڈکٹ اینڈرسن (Imagined Communities) کے مطابق: “قومی تحریکیں اس وقت پائیدار ہوتی ہیں جب وہ قوم کے عام افراد کو بھی اس کا لازمی حصہ مان لیں۔”
– بلوچ تحریک کی دستاویزی تاریخ (BNM،BRP,FBM,BSO اور BYC کے بیانات، رپورٹس، اور شہداء کی فہرستیں) یہ ظاہر کرتی ہیں کہ قربانی صرف جماعتی نہیں بلکہ پوری قوم کا سرمایہ ہے۔بلوچ قومی تحریک کو اب ایک ایسا شمولیتی بیانیہ تشکیل دینا ہوگا جو غلام محمد بلوچ جیسے رہنماؤں کی شہادت، کریمہ بلوچ جیسی خواتین کی قربانیاں، اور عام بلوچ عوام کی جدوجہد کو یکساں طور پر تسلیم کرے۔ یہی بیانیہ دنیا کو یہ باور کرائے گا کہ بلوچ نیشنل ازم چند جماعتوں کا منشور نہیں بلکہ پوری قوم کا اجتماعی شعور اور اجتماعی تجربہ ہے۔
"ہر بلوچ مزاحمتکار، تحریک کا حصہ ہے”
بلوچ تحریکِ آزادی کو محدود پارٹی مفادات تک سمیٹنا خطرناک ہوگا۔ اگر کوئی بلوچ اپنے قلم، احتجاج یا جان کی قربانی سے جدوجہد کرتا ہے اور اسے صرف اس لیے شک کی نظر سے دیکھا جائے کہ وہ کسی پارٹی کا ممبر نہیں، تو یہ تحریک کے لیے زہرِ قاتل ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ عوامی قربانیاں ہی آزادی کے تحریکوں کی اصل طاقت رہی ہیں ۔ جب انہوں نے ہر قسم کی عوامی مزاحمت کو قبول کیا۔الجزائر میں کسانوں اور مزدوروں، بنگلہ دیش میں عام طلبہ اور عورتوں، اور فلسطین میں مہاجرین کی جدوجہد نے تحریکوں کو عالمی سطح پر طاقت بخشی۔ بلوچ تحریک کو بھی اپنی بقا کے لیے اسی راستے کو اپنانا ہوگا۔
’’ نیشنل ازم اور عالمی مثالیں ‘‘
- الجزائر میں آزادی کی جنگ صرف ( نیشنل لبریشن فرنٹ)FLN پارٹی کے مسلح ونگ تک محدود نہیں تھی بلکہ عام کسانوں، مزدوروں اور خواتین کی شمولیت نے اسے عالمی سطح پر جواز دیا۔- بنگلہ دیش کی تحریکِ آزادی میں صرف مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ نہیں بلکہ عام طلبہ اور کسان بھی شامل تھے، جنہوں نے ذاتی نقصان کو قومی مقصد میں ڈھال دیا۔
بلوچ تحریک کو بھی اسی ماڈل پر ہر قربانی کو تسلیم کرنا ہوگا، ورنہ جماعتی تنگ نظری قوم کو تقسیم کر دے گی۔
- ایسٹ تیمور (East Timor)
انڈونیشیا کے قبضے کے دوران ایسٹ تیمور کے عوام کو بدترین مظالم کا سامنا کرنا پڑا۔ انڈونیشی فوج اور ریاست نے عام لوگوں پر زبردستی نس بندی (Forced Sterilization) کی پالیسی مسلط کی تاکہ آبادی کو کم کر کے مزاحمت کو توڑا جا سکے۔ مگر یہی ظلم عوامی شعور کو بیدار کرنے کا باعث بنا۔ عام عورتیں اور مرد اس جبر کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے اور ان کی یہ ذاتی اذیت ایک قومی جنگِ آزادی میں ڈھل گئی۔ بالآخر 1999ء میں ایسٹ تیمور کو عالمی حمایت اور عوامی جدوجہد کے نتیجے میں آزادی ملی۔یہ مثال بتاتی ہے کہ جب عوام کی بنیادی انسانی زندگی پر حملہ ہو تو وہ مزاحمت کو ذاتی معاملہ نہیں بلکہ قومی جنگ میں بدل دیتے ہیں۔ بلوچ عوام پر لاپتہ افراد، جبری گمشدگیاں، اور ماورائے عدالت قتل کے مظالم بھی اسی نوعیت کے ہیں جو ذاتی درد کو اجتماعی مزاحمت میں بدلتے ہیں۔
- اریٹریا (Eritrea)
اریٹریا نے ایتھوپیا کے خلاف 30 سال طویل آزادی کی جنگ لڑی۔ اس دوران صرف عسکری قوت نہیں بلکہ عام شہری، کسان، خواتین اور طلبہ بھی اس جدوجہد کا حصہ بنے۔ ایتھوپیا نے بار بار یہ پروپیگنڈا کیا کہ صرف “باغی گروہ” لڑ رہے ہیں، مگر حقیقت یہ تھی کہ عوامی قربانیوں نے ہی تحریک کو مضبوط بنایا۔ آخرکار 1991 میں اریٹریا آزاد ہوا۔
یہ مثال اس بات کو تقویت دیتی ہے کہ آزادی کی تحریکیں پارٹی ممبران کے دم پر نہیں بلکہ پوری قوم کی اجتماعی شمولیت پر کامیاب ہوتی ہیں۔
-کرد تحریک (Kurdish Struggle)
کرد عوام، جنہیں مختلف ریاستوں (ترکی، عراق، ایران، شام) میں تقسیم کر دیا گیا، ہمیشہ سے قومی شناخت اور آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں۔ کرد تحریک نے بھی یہ اصول اپنایا کہ ہر قربانی، خواہ وہ کسی پارٹی کے تحت ہو یا آزادانہ، تحریک کا حصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کردوں کی جدوجہد عالمی سطح پر پہچانی جاتی ہے اور ان کے مظلوم عوام کے لیے ہمدردی بڑھتی جا رہی ہے۔
’’ بلوچ قومی تحریک کے لیے سبق ‘‘
یہ تمام مثالیں اس حقیقت کو واضح کرتی ہیں کہ قومی آزادی کی تحریک اس وقت مضبوط ہوتی ہے جب وہ ذاتی یا جماعتی قربانیوں کو شک و شبہ میں ڈالنے کے بجائے قومی جدوجہد کا حصہ مانے۔ اگر بلوچ سیاسی تنظیمیں صرف اپنے کارکنوں کو محب وطن قرار دیں اور باقی عوامی قربانیوں کو رد کریں تو یہ قومی یکجہتی کو کمزور کرے گا اور قابض ریاست کو فائدہ پہنچائے گا۔
اصول پر کاربند رہے تاکہ تحریک ایک محدود کنویں کے بجائے ایک وسیع چشمے کی صورت میں بہتی رہے۔
یہ تمام تاریخی اور عالمی مثالیں اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہیں کہ آزادی کی تحریکیں صرف پارٹی کے بیانیے یا محدود کارکنان کی محنت پر قائم نہیں رہتی، بلکہ ان کا اصل سرمایہ قوم کے عام افراد کی اجتماعی شرکت اور قربانی ہوتی ہے۔ اگر بلوچ تحریک اپنی اصل روح کو برقرار رکھنا چاہتی ہے تو اسے اس حقیقت کو ماننا ہوگا کہ گاؤں کا ایک چرواہا، شہر کا ایک مزدور، یونیورسٹی کی ایک طالبعلم، یا جلاوطنی میں بیٹھا ایک شخص ہاتھ میں پلے کارڈ اٹھا کر اپنی موجودگی کا اظہار کررہا ہے ۔ یا ایک لکھاری ریاستی ظلم کو دنیا کے سامنے لانے کی کوشش کررہا ہے سب کی آواز اور قربانی برابر اہمیت رکھتی ہے۔ نیشنل ازم کا اصول یہی ہے کہ قوم کے ہر فرد کو تحریک میں شریک سمجھا جائے، نہ کہ شک اور گروہی تعصب کی بنیاد پر اسے الگ کر دیا جائے۔
یہ مثال بتاتی ہے کہ جب عوام کی بنیادی انسانی زندگی پر حملہ ہو تو وہ مزاحمت کو ذاتی معاملہ نہیں بلکہ قومی جنگ میں بدل دیتے ہیں۔ بلوچ عوام پر لاپتہ افراد، جبری گمشدگیاں، اور ماورائے عدالت قتل کے مظالم بھی اسی نوعیت کے ہیں جو ذاتی درد کو اجتماعی مزاحمت میں بدلتے ہیں۔
- اریٹریا (Eritrea)
اریٹریا نے ایتھوپیا کے خلاف 30 سال طویل آزادی کی جنگ لڑی۔ اس دوران صرف عسکری قوت نہیں بلکہ عام شہری، کسان، خواتین اور طلبہ بھی اس جدوجہد کا حصہ بنے۔ ایتھوپیا نے بار بار یہ پروپیگنڈا کیا کہ صرف “باغی گروہ” لڑ رہے ہیں، مگر حقیقت یہ تھی کہ عوامی قربانیوں نے ہی تحریک کو مضبوط بنایا۔ آخرکار 1991 میں اریٹریا آزاد ہوا۔
یہ مثال اس بات کو تقویت دیتی ہے کہ آزادی کی تحریکیں پارٹی ممبران کے دم پر نہیں بلکہ پوری قوم کی اجتماعی شمولیت پر کامیاب ہوتی ہیں۔
-کرد تحریک (Kurdish Struggle)
کرد عوام، جنہیں مختلف ریاستوں (ترکی، عراق، ایران، شام) میں تقسیم کر دیا گیا، ہمیشہ سے قومی شناخت اور آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں۔ کرد تحریک نے بھی یہ اصول اپنایا کہ ہر قربانی، خواہ وہ کسی پارٹی کے تحت ہو یا آزادانہ، تحریک کا حصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کردوں کی جدوجہد عالمی سطح پر پہچانی جاتی ہے اور ان کے مظلوم عوام کے لیے ہمدردی بڑھتی جا رہی ہے۔
’’ بلوچ قومی تحریک کے لیے سبق ‘‘
یہ تمام مثالیں اس حقیقت کو واضح کرتی ہیں کہ قومی آزادی کی تحریک اس وقت مضبوط ہوتی ہے جب وہ ذاتی یا جماعتی قربانیوں کو شک و شبہ میں ڈالنے کے بجائے قومی جدوجہد کا حصہ مانے۔ اگر بلوچ سیاسی تنظیمیں صرف اپنے کارکنوں کو محب وطن قرار دیں اور باقی عوامی قربانیوں کو رد کریں تو یہ قومی یکجہتی کو کمزور کرے گا اور قابض ریاست کو فائدہ پہنچائے گا۔
اصول پر کاربند رہے تاکہ تحریک ایک محدود کنویں کے بجائے ایک وسیع چشمے کی صورت میں بہتی رہے۔
یہ تمام تاریخی اور عالمی مثالیں اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہیں کہ آزادی کی تحریکیں صرف پارٹی کے بیانیے یا محدود کارکنان کی محنت پر قائم نہیں رہتی، بلکہ ان کا اصل سرمایہ قوم کے عام افراد کی اجتماعی شرکت اور قربانی ہوتی ہے۔ اگر بلوچ تحریک اپنی اصل روح کو برقرار رکھنا چاہتی ہے تو اسے اس حقیقت کو ماننا ہوگا کہ گاؤں کا ایک چرواہا، شہر کا ایک مزدور، یونیورسٹی کی ایک طالبعلم، یا جلاوطنی میں بیٹھا ایک شخص ہاتھ میں پلے کارڈ اٹھا کر اپنی موجودگی کا اظہار کررہا ہے ۔ یا ایک لکھاری ریاستی ظلم کو دنیا کے سامنے لانے کی کوشش کررہا ہے سب کی آواز اور قربانی برابر اہمیت رکھتی ہے۔ نیشنل ازم کا اصول یہی ہے کہ قوم کے ہر فرد کو تحریک میں شریک سمجھا جائے، نہ کہ شک اور گروہی تعصب کی بنیاد پر اسے الگ کر دیا جائے۔
بلوچ سیاسی تنظیموں کو چاہیے کہ وہ اپنی جماعتی سیاست کو قومی سیاست کے تابع رکھیں۔ اگر ہر جماعت اپنی بقا اور طاقت کو قومی تحریک کی کامیابی سے وابستہ کرے گی تو اختلاف رائے کے باوجود اتحاد ممکن ہوگا۔ لیکن اگر جماعتیں اپنی اہمیت جتانے کے لیے دوسروں کے قربانیوں کو رد کریں گی تو یہ تحریک کے اندر بداعتمادی پیدا کرے گا اور دشمن کو موقع فراہم کرے گا کہ وہ تقسیم سے فائدہ اٹھائے۔ لہٰذا بلوچ قیادت کو تاریخی شعور کے ساتھ یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا وہ خود کو محدود گروہ کے طور پر پیش کرنا چاہتی ہے یا پوری قوم کی نمائندہ آواز بننا چاہتی ہے۔
آخرکار، بلوچ قومی تحریک کو اپنی بقا اور کامیابی کے لیے ایک جامع اور شمولیتی بیانیہ تشکیل دینا ہوگا۔ یہ بیانیہ ہر اس بلوچ کو اپنی آغوش میں جگہ دے جو قابض قوت کے خلاف کھڑا ہے۔ چاہے وہ مسلح مزاحمت کار ہو یا قلم کار، احتجاج کرنے والا طالب علم ہو یا گمشدہ افراد کے لیے سڑکوں پر بیٹھنے والی ماں۔ یہی بیانیہ عالمی برادری کے سامنے بھی تحریک کی طاقت کو اجاگر کرے گا اور یہ واضح کرے گا کہ بلوچ نیشنل ازم کسی پارٹی کا منشور نہیں بلکہ پوری قوم کا اجتماعی شعور ہے۔
“قوم کی آزادی کسی ایک جماعت، کسی ایک رہنما یا کسی ایک گروہ کی میراث نہیں یہ ہر اس ماں کے آنسو ہیں جو اپنے بیٹے کی جدائی سہتی ہے، یہ ہر اس نوجوان کی دھڑکن ہے جو اپنے خواب وطن پر قربان کرتا ہے، اور یہ ہر اس مزدور کا پسینہ ہے جو اپنے بچوں کو ایک آزاد صبح دکھانے کے لیے محنت کرتا ہے۔
نیشنل ازم کا تقاضا ہے کہ ہم سب ایک ہی صف میں کھڑے ہوں پارٹی، زبان اور ذات سے بالاتر ہو کر۔ کیونکہ جب تک ہم ایک قوم بن کر نہیں اٹھیں گے، ہماری قربانیاں بکھری رہیں گی۔ اور جب ہم ایک دل، ایک آواز، اور ایک کارواں کی طرح کھڑے ہوں گے، تو دنیا کی کوئی طاقت بلوچ قوم کی آزادی کو روک نہیں سکے گی۔
’’ قوم سب سے پہلے پارٹی بعد میں! “ہر قربانی قومی ہے کوئی فرد تنہا نہیں! “بلوچ نیشنل ازم سب کی آواز، سب کا خون، سب کی قربانی!
ایک دل، ایک آواز، ایک کارواں آزادی یا شہادت!
’’ قوم کی آزادی سب کی ذمہ داری! ‘‘
