
بلوچ سیاسی کارکن علی اصغر کی جبری گمشدگی کو 24 برس مکمل ہوگئے ہیں۔ علی اصغر کو 18 اکتوبر 2001 کو ڈگری کالج کوئٹہ کے سامنے سے ریاستی اداروں کے اہلکاروں نے مبینہ طور پر حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردیا تھا، وہ تاحال بازیاب نہیں ہوسکے۔
اتوار کو کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے لاپتہ کارکن کے صاحبزادے غلام فاروق نے بتایا کہ ان کے والد کو اس سے قبل جون 2000 میں شاہوانی روڈ کوئٹہ سے بھی حراست میں لیا گیا تھا تاہم 14 دن بعد رہا کردیا گیا تھا۔ لیکن دوسری مرتبہ جبری لاپتہ کیے جانے کے بعد آج 24 برس گزرنے کے باوجود ان کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔
غلام فاروق نے کہا کہ گزشتہ دو دہائیوں سے وہ عدلیہ، کمیشنز اور مختلف حکومتوں کے دروازے کھٹکھٹاتے رہے ہیں مگر انصاف فراہم نہیں کیا گیا۔ ان کے مطابق، والد کی طویل گمشدگی کی وجہ سے ان کا خاندان شدید ذہنی و نفسیاتی دباؤ، مالی مشکلات اور سماجی مسائل کا شکار ہوچکا ہے۔ بچے اپنی تعلیم مکمل نہیں کرسکے اور ان کی زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہر دورِ حکومت نے جبری گمشدگیوں کے مسئلے کے حل کے وعدے کیے، اسمبلیوں سے آرڈیننس بھی پاس کیے گئے لیکن بلوچستان میں آج تک نہ لاپتہ افراد کو بازیاب کیا گیا اور نہ ہی اس مسئلے کے مستقل سدباب کے لیے کوئی سنجیدہ اور عملی اقدام اٹھایا گیا۔ غلام فاروق کے بقول، قوانین اس طرح بنائے گئے جن سے ریاستی اداروں کے ماورائے قانون اقدامات کو تحفظ ملا اور جبری گمشدگیوں کے مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا دیا گیا۔
پریس کانفرنس میں غلام فاروق نے کہا کہ پاکستان اگر ایک جمہوری ریاست ہے تو اسے انسانی حقوق کے احترام کی پابندی کرنی چاہیے۔ ’’جبری گمشدگیاں شہریوں کے بنیادی اعتماد کو مجروح کرتی ہیں اور ریاستی اداروں کے کردار پر سنگین سوالات اٹھاتی ہیں۔‘‘
انہوں نے عدلیہ اور پارلیمانی اداروں سے مطالبہ کیا کہ وہ جبری گمشدگیوں کا مستقل خاتمہ یقینی بنائیں، لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کردار ادا کریں اور انسانی اقدار کے مطابق جامع قانون سازی کریں۔
اہلخانہ نے حکومت اور ریاستی اداروں کے سربراہان سے اپیل کی کہ اگر علی اصغر زندہ ہیں تو انہیں فوری طور پر بازیاب کیا جائے اور اگر وہ اس دنیا میں نہیں ہیں تو ان کے بارے میں اہلخانہ کو آگاہ کیا جائے تاکہ وہ تذبذب اور اذیت سے نجات پاسکیں۔
پریس کانفرنس کے اختتام پر غلام فاروق نے جبری گمشدگیوں کے خاتمے، لاپتہ بلوچوں کے ماورائے قانون قتل کے سلسلے کو روکنے اور تمام لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ بھی دہرایا۔
