
اقوامِ متحدہ کے ورکنگ گروپس اور خصوصی نمائندوں نے حکومتِ پاکستان کو ایک مشترکہ خط لکھ کر بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔
13 اگست 2025 کو جاری ہونے والے اس خط میں صحافی اور انسانی حقوق کے محافظ عبداللطیف بلوچ اور ان کے بیٹے سیف بلوچ کے مبینہ ماورائے عدالت قتل، ان کے خاندان کے خلاف کارروائیوں، اور سماجی کارکن گلزار دوست کی گرفتاری پر پاکستان سے وضاحت طلب کی گئی ہے۔
خط کے مطابق 24 مئی 2025 کو ضلع آواران کے علاقے مشکے میں عبداللطیف بلوچ کو ان کے گھر میں مسلح افراد نے گولی مار کر ہلاک کیا، جبکہ ان کے بیٹے سیف بلوچ کو 28 فروری کو سیکیورٹی فورسز نے گرفتار کیا تھا، جن کی لاش 26 مارچ کو برآمد ہوئی۔ خط میں مزید کہا گیا کہ عبداللطیف بلوچ ماضی میں بھی حراست اور تشدد کا شکار رہے جبکہ ان کے بھائی رشید علی بلوچ کو 2011 میں قتل کیا گیا تھا۔
اقوامِ متحدہ کے ماہرین نے سماجی رہنما گلزار دوست کی گرفتاری پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔ انہیں 6 جولائی کو تربت میں گھر سے گرفتار کیا گیا اور دہشت گردی سے متعلق الزامات لگائے گئے، تاہم گرفتاری کے وقت کوئی وارنٹ پیش نہیں کیا گیا۔ بعد ازاں وہ یکم اگست کو ضمانت پر رہا ہوئے۔
اقوامِ متحدہ کے نمائندوں نے اپنے خط میں کہا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کے کارکنوں، صحافیوں اور بلوچ اقلیت کو ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیوں اور انسدادِ دہشت گردی کے قوانین کے غلط استعمال کا سامنا ہے، جو عالمی سطح پر گہری تشویش کا باعث ہے۔
خصوصی نمائندوں نے حکومتِ پاکستان سے سات نکات پر وضاحت طلب کی ہے، جن میں عبداللطیف، سیف اور رشید بلوچ کے قتل کی آزادانہ تحقیقات، گلزار دوست کی گرفتاری کی قانونی بنیاد، اور انسدادِ دہشت گردی قوانین میں اصلاحات شامل ہیں۔
خط میں زور دیا گیا ہے کہ پاکستان اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کے تحت زندگی کے حق، اظہارِ رائے کی آزادی اور انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے۔
