
تحریر: دودا بلوچ
گزشتہ رات افغانستان کے دارالحکومت کابل کے قریب ایک فضائی حملے نے خطے میں ایک نئی کشیدگی کو جنم دیا ہے اور خطے کی سیاست میں ایک غیر متوقع ہلچل پیدا کر دی ہے کہا جا رہا ہے کہ یہ حملہ پاکستان نے کیا ہے لیکن پاکستان اور افغانستان کی جانب سے تاحال کوئی باضابطہ موقف سامنے نہیں آیا یہ حملہ مبینہ طور پر تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ مفتی نور ولی محسود کو نشانہ بنانے کے لیے کیا گیا ہے جبکہ افغان طالبان اس دعوے کو مسترد کر چکے ہیں کہ افغانستان میں تحریک طالبان پاکستان کی کوئی قیادت رہتی ہے
لیکن ڈی جی آئی ایس پی آر کی آج کی پریس کانفرنس بظاہر اس بات کا ثبوت ہے کہ کارروائی پاکستان کی جانب سے کی گئی کیونکہ تحریک طالبان پاکستان اس وقت پاکستان کی داخلی سلامتی کے لیے ایک بڑا چیلنج بنی ہوئی ہے صرف سال 2025 کے دوران پاکستان اپنے 16 اعلی فوجی افسران جن میں کرنل اور میجر رینک کے افسران شامل ہیں مختلف حملوں میں کھو چکا ہے
پاکستان مسلسل یہ دعویٰ کرتا آیا ہے کہ افغان طالبان پاکستان میں حملوں کے لیے تحریک طالبان پاکستان کو پناہ اور سہولت فراہم کر رہے ہیں ماضی میں بھی اسلام آباد اسی موقف کی بنیاد پر افغانستان کے اندر کارروائیاں کرتا رہا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اپنی عسکری ناکامیوں اور داخلی کمزوریوں کا ملبہ اکثر اپنے ہمسایوں پر خصوصاً افغانستان پر ڈالتا رہتا ہے چاہے وہ بلوچ تحریک ہوں یا تحریک طالبان پاکستان کے بارے میں ہوں پاکستان بھارت اور افغانستان پر الزام عائد کرتا رہتا ہے
لیکن اس حملے کی اصل نوعیت ایک سیاسی پیغام ہے اگر اس حملے کو محض انسداد دہشت گردی کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ ایک بڑی غلطی ہوگی درحقیقت یہ حملہ ایک گہرے سیاسی اور سیکورٹی پیغام کا حامل ہے پاکستان بخوبی جانتا ہے کہ مفتی نور ولی کہاں موجود ہے اور کن علاقوں میں اس کا اثر و رسوخ ہے اس کے باوجود کابل کے قریب کارروائی کا انتخاب یہ ظاہر کرتا ہے کہ اسلام آباد کا مقصد صرف ایک شخص کو نشانہ بنانا نہیں تھا بلکہ افغان حکومت کو ایک واضح پیغام دینا تھا کہ پاکستان اپنی عسکری طاقت کے استعمال میں کوئی بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرے گا چاہے وہ کسی خودمختار ریاست کے دارالحکومت کے قریب ہی کیوں نہ ہو
یہ حملہ ایسے وقت میں ہوا جب افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی بھارت کے دورے پر ہیں اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ کارروائی صرف طالبان کے خلاف نہیں بلکہ ایک سفارتی پیغام بھی ہے پاکستان نے دراصل بھارت اور افغانستان دونوں کو متنبہ کیا ہے کہ اگر دونوں ممالک کے تعلقات مزید مضبوط ہوئے یا کسی دفاعی و اقتصادی معاہدے کی شکل اختیار کی تو اسلام آباد اسے اپنے اسٹریٹیجک مفادات کے لیے خطرہ سمجھے گا
اسلام آباد غالباً عالمی برادری اور اقوام متحدہ کے سامنے اس حملے کو انسداد دہشت گردی کے دائرے میں پیش کرے گا مگر درحقیقت یہ واقعہ طاقت کے توازن اور خطے کی نئی صف بندیوں کے پس منظر میں سمجھنے کی ضرورت رکھتا ہے پاکستان نے ایک تیر سے دو شکار کیے ہیں ایک طرف افغانستان پر دباؤ بڑھایا اور دوسری جانب بھارت کو غیر مستقیم پیغام دیا کہ جنوبی ایشیا میں عسکری برتری اب بھی پاکستان کے پاس ہے
طاقت کا مظاہرہ یا خوف کی سیاست
طاقتور ریاستیں ہمیشہ اپنے کمزور ہمسایوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے ملٹری سگنلز استعمال کرتی ہیں حالیہ برسوں میں ہم نے دیکھا کہ اسرائیل نے قطر اور شام کے دارالحکومت دمشق میں فضائی حملے کر کے خطے کے ممالک کو یہ پیغام دیا کہ اگر کسی نے اس کے دشمنوں کو پناہ دی یا اس کی سلامتی کے خلاف کوئی قدم اٹھایا تو انجام سنگین ہوگا
اسی طرح بھارت نے پلوامہ حملے کے بعد پاکستان پر فضائی کارروائی کے ذریعے طاقت کا مظاہرہ کیا تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ نئی دہلی اپنی سلامتی کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے پاکستان کا کابل پر حملہ اسی پالیسی کا تسلسل ہے پاکستان کی عسکری قیادت سمجھتی ہے کہ افغانستان فی الحال عسکری لحاظ سے کمزور ہے اس کے پاس نہ جدید طیارے ہیں نہ وہ فضائی دفاعی نظام جو پاکستان کے پاس موجود ہے اس لیے پاکستان اپنی ٹیکنالوجی اور ہتھیاروں کی برتری کو طاقت کے اظہار کے طور پر استعمال کر رہا ہے
بھارت افغانستان تعلقات اسلام آباد کی تشویش
یہ محض اتفاق نہیں کہ حملہ اس وقت ہوا جب افغانستان کے وزیر خارجہ بھارت کے دورے پر تھے اسلام آباد میں خدشہ پایا جاتا ہے کہ اگر کابل اور نئی دہلی کے تعلقات مستحکم ہوئے تو پاکستان کو مشرق اور مغرب دونوں جانب سے دباؤ کا سامنا ہوگا پاکستان کی خارجہ پالیسی ہمیشہ اسٹریٹیجک ڈیپتھ کے نظریے کے گرد گھومتی رہی ہے یعنی افغانستان کو بھارت کے خلاف دفاعی بفر زون کے طور پر دیکھنا لیکن اگر افغانستان خود بھارت کے قریب چلا جائے تو یہ نظریہ مکمل طور پر ناکام ہو جاتا ہے اسی لیے کابل کے قریب حملہ دراصل ایک نفسیاتی دباؤ پیدا کرنے کی کوشش بھی ہے تاکہ طالبان حکومت سمجھ لے کہ اگر وہ بھارت سے قربت بڑھائے گی تو پاکستان کے پاس عسکری طاقت کے استعمال کا آپشن ہمیشہ موجود ہے
اقوام متحدہ اور طاقتور ریاستوں کا دوہرا معیار
اقوام متحدہ کے قوانین کے مطابق کسی بھی ریاست کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی آزاد ملک پر حملہ کرے تاہم طاقتور ریاستیں اس اصول کو توڑنے کے لیے ہمیشہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو بطور جواز استعمال کرتی ہیں
اسرائیل کے لیے قطر لبنان یمن اور غزہ میں حماس حزب اللہ اور حوثی تحریکیں سوفٹ ٹارگٹ ہیں
امریکہ کے لیے افغانستان اور عراق میں طالبان القاعدہ اور صدام حسین تھے
بھارت کے لیے پاکستان میں داعش جیش محمد لشکر طیبہ حرکت المجاہدین اور دیگر گروہ
اور پاکستان کے لیے افغانستان میں تحریک طالبان پاکستان اور بلوچ مہاجرین ہیں اس قیاس کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان اپنی عسکری برتری کے لیے اپنے ہم سایہ ممالک میں اپنی کارروائیاں جاری رکھے گا
یوں یہ عالمی اصول بن چکا ہے کہ طاقتور ریاست جب کسی کمزور ملک پر حملہ کرتی ہے تو سب سے پہلے اپنے مخالف کو دہشت گرد قرار دیتی ہے تاکہ عالمی برادری کی نظر میں وہ خود دفاعی کردار میں دکھائی دے
داخلی سیاست اور عسکری مفادات
یہ بھی ممکن ہے کہ یہ حملہ پاکستان کی داخلی سیاست سے جڑا ہو حالیہ مہینوں میں ملک شدید سیاسی اور معاشی بحرانوں سے گزر رہا ہے ایسے حالات میں بیرونی دشمن کی تصویر تراشنا ہمیشہ داخلی سیاسی طاقت کو متحد کرنے کا مؤثر ہتھیار ثابت ہوتا ہے ماضی میں بھی پاکستان نے اپنے اندرونی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے بھارت یا افغانستان جیسے دشمنوں کو نمایاں کیا ممکن ہے کہ کابل کے قریب فضائی حملے کا مقصد بھی یہی ہو عوام اور میڈیا کی توجہ اندرونی بدانتظامی سے ہٹا کر قومی سلامتی کے بیانیے کو تقویت دینا
افغانستان کا ممکنہ ردعمل
اب سوال یہ ہے کہ طالبان حکومت اس حملے پر کس طرح ردعمل دیتی ہے اگر کابل کھل کر پاکستان کے خلاف بیان بازی کرتا ہے یا جوابی کارروائی کی دھمکی دیتا ہے تو دونوں ممالک کے تعلقات مزید کشیدہ ہو جائیں گے لیکن اگر طالبان خاموش رہتے ہیں تو یہ خاموشی اسلام آباد کے لیے ایک اسٹریٹیجک کامیابی ہوگی کیونکہ یہ تاثر پیدا ہوگا کہ افغانستان پاکستان کی طاقت کے سامنے جھک گیا ہے
طاقت کمزوری اور نفسیاتی جنگ
یہ واقعہ ایک بار پھر ثابت کرتا ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں طاقتور اور کمزور ریاستوں کے درمیان رشتہ کبھی برابری پر قائم نہیں ہوتا طاقتور ریاستیں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے کمزور ممالک پر دباؤ ڈالتی ہیں کبھی اقتصادی پابندیوں کے ذریعے کبھی سفارتی دباؤ سے اور کبھی براہ راست عسکری طاقت کے ذریعے افغانستان کے لیے یہ لمحہ فیصلہ کن ہے کہ وہ اپنی خودمختاری کے دفاع میں کہاں تک کھڑا ہو سکتا ہے دوسری طرف پاکستان اس وقت اپنی اندرونی کمزوریوں کو بیرونی طاقت کے مظاہرے سے چھپانے کی کوشش کر رہا ہے بالآخر یہ واقعہ ہمیں یہ سمجھاتا ہے کہ بین الاقوامی سیاست میں طاقت اور خوف ہمیشہ ساتھ چلتے ہیں اور جب طاقتور ریاستیں کمزور ہمسایوں کے خلاف طاقت استعمال کرتی ہیں تو یہ صرف عسکری نہیں بلکہ نفسیاتی جنگ بھی ہوتی ہے
