
تحریر: رامین بلوچ
لکھنا محض ایک فنی مشق نہیں، بلکہ ایک مسلسل سفر اور جدوجہد ہے۔ انسان جتنا زیادہ لکھتا ہے، اتنا ہی اپنے اندر جھانکنے کا ہنر سیکھتا ہے۔ ہر تحریر مصنف کے وجود کا ایک نیا جنم ہوتی ہے۔لکھنا دراصل سماج خلاء میں گونجتی چیخوں کو لفظوں میں ڈھالنے کا ہنر ہے۔ یہ محض کاغذ پر سیاہی بکھیرنے یا کی بورڈ کے بٹن دبانے کا عمل نہیں، بلکہ روح کے تہہ خانے میں اتر کر خود کو دریافت کرنے کی ایک مسلسل کوشش ہے۔ ہر جملہ، ہر فقرہ، اپنے اندر ایک نیا جنم سموئے ہوتا ہے۔جب قلم حرکت کرتا ہے تو وہ صرف انگلیوں سے نہیں، بلکہ دل کی دھڑکتے ہوئی کیفیات سے بہتا ہے۔ یہی بہاؤ انسان کو اندر سے توڑتا بھی ہے اور جوڑتا بھی۔ لکھنے والا جتنا زیادہ لکھتا ہے، اتنا ہی اپنے اندر کے شور کو پہچاننا، اسے الفاظ کی ترتیب میں ڈھالنا اور اسے معنویت عطا کرنا سیکھتا ہے۔تحریر انسان کی خودی کا آئینہ ہے۔ ہر تحریر ایک سوال ہے جو مصنف اپنے آپ سے کرتا ہے، اور ہر نیا متن اُس سوال کا ایک نیا جواب۔ مگر اس سب کے بیچ ایک چیز مستقل رہتی ہے وہ ہے تخلیق کا وہ درد، جو لکھنے والے کو بار بار جنم دیتا ہے۔یہ ایک مستند سچ ہے کہ تحریر انسان کے اندر بولتی ہوئی خاموشی ہے۔ یہ وہ شبیہ ہے جس میں لکھنے والا اپنے شعور، تجربات، دکھ، نظریات ، احساسات اور نامکمل سوالوں کو الفاظ کی صورت میں ڈھالتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا آج کےاس مشینی اور برق رفتار عہد میں طویل تحریر اب بھی اپنی اثر برقرار رکھ سکتا ہے؟ یا تحریر کی روح اس تیز رفتار ڈیجیٹل زندگی کے شور میں کھو گئی ہے؟
میرے پڑھنے والے اکثر دوست میری طویل تحریروں پر اعتراض کرتے ہیں، اور ان کے خیال میں یہ اعتراض آج کے مشینی اور برق رفتار دور کے تناظر میں کسی حد تک درست بھی ہے۔ مگر سچ یہ ہے کہ میں کوئی بڑا لکھاری نہیں ہوں، نہ ہی فنِ تحریر سے خاص آشنائی رکھتا ہوں۔مختصر لکھنے کی بارہا کوششوں کے باوجود، میں ہمیشہ اختصار سے کچھ نہ کچھ رہ جاتا ہوں۔ بعض اوقات مجھے خود بھی محسوس ہوتا ہے کہ لمبی تحریریں قاری کو تھکا دیتی ہوں گی، اور وہ بوریت یا تھکن کے باعث اسے ادھورا چھوڑ کر بھاگ نکلنے کی کوشش کرے گا۔آج کل ایک رجحان بن چکا ہے کہ مختصر لکھا جائے، کیونکہ اس تیز رفتار مشینی دنیا میں لوگ مختصر کالم پڑھنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔بدقسمتی سے، طویل لکھنے کی عادت مجھ میں پرانی ہے۔ پھر بھی میں کوشش کر رہا ہوں کہ باتوں کو اختصار کے ساتھ بیان کرنے پر دسترس حاصل کروں، میرا مقصد آغا گل یا عابد میر کی طرح تشہیر حاصل کرنا نہیں، نہ ہی میں کسی اعزازیے یا شہرت کے لیے لکھتا ہوں۔ میں نرگسیت یا رومان کے لیے نہیں، بلکہ بلوچ سماج کے دکھ کو لفظ لفظ گن کر بانٹنے کے لیے لکھتا ہوں۔”
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہر دور کا اپنا ایک ذوقِ مطالعہ، اپنی ایک رفتار اور اپنی ایک ترجیح ہوتی ہے۔ آج کا زمانہ برق رفتاری کا ہے یہاں زندگی موبائل کی سکرین پر سمٹ چکی ہے، وقت نوٹیفیکیشن کے وقفوں میں بٹ گیا ہے، اور قاری کی توجہ کی مدت چند سیکنڈوں میں ناپی جاتی ہے۔ ایسے میں یہ سوال فطری ہے کہ کیا طویل تحریر اپنی معنویت کھو چکی ہے؟ کیا اختصار ہی تحریر کا نیا معیار بن گیا ہے؟آج کا انسان لمحوں میں جیتا ہے۔ وقت اب گھنٹوں، دنوں یا مہینوں سے نہیں ناپا جاتا، بلکہ نوٹیفیکیشنز، پوسٹس اور شارٹ ویڈیوز کے وقفوں میں بٹ چکا ہے۔ دنیا ایک چھوٹی سی اسکرین میں سمٹ آئی ہے، جہاں قاری کا دھیان محض چند سیکنڈوں کا مہمان ہے۔ یہ وہ عہد ہے جہاں "دھیان” سب سے قیمتی اور سب سے نایاب شے بن چکا ہے۔ چنانچہ تحریر کو بھی اسی دھیان کے مختصر لمحوں میں قید ہونے کا دباؤ ہے۔
درحقیقت، اختصار ایک فن ہے، مگر مکمل فن نہیں۔ مختصر لکھنا محض "جلدی پڑھ لیے جانے” کی ضرورت پوری کرتا ہے، لیکن "گہرائی سے سمجھ لیے جانے” کی نہیں۔ تحریر کا اصل حسن اس کے احساس، خیال اور معنوی تہوں میں ہوتا ہے، جو وقت مانگتی ہیں، توقف مانگتی ہیں، مکالمہ مانگتی ہیں۔ طویل تحریر دراصل قاری کو ایک فکری محاذ پر لے جاتی ہے ۔وہ سفر جو ایک جملے یا پیراگراف میں ممکن نہیں۔یہ کہنا درست ہے کہ ہر عہد کا اپنا ذوقِ مطالعہ ہوتا ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر دور میں وہی تحریریں زندہ رہیں جنہوں نے وقت کی قید توڑی۔ ٹالسٹائی میکسم گورکی فینن، ، دوستوئیفسکی، اور کافکا کے الفاظ نہ کسی ٹرینڈ کے پابند تھے، نہ کسی تیزی کے محتاج۔ ان کی تحریریں وقت کے شور میں بھی گونجتی رہیں کیونکہ ان میں انسانی روح کی گہرائی بولتی تھی۔
آج کا قاری جلد باز ضرور ہے، مگر سطحی نہیں۔ وہ وقت کے دباؤ اور معلومات کے سیلاب کے بیچ بھی کسی گہرے، سچے اور زندہ لفظ کی تلاش میں ہے۔ وہ جانتا ہے کہ دنیا اب خبروں، پوسٹس اور اعداد کے شور سے بھری ہوئی ہے، مگر ان سب کے باوجود اسے وہ تحریر چاہیے جو محض اطلاع نہیں بلکہ ادراک دے۔ وہ لفظوں کے ہجوم میں وہ ایک ایسی آواز ڈھونڈتا ہے جو اس کے اندر کے خالی پن کو چھو سکے جو اسے اس کے اپنے سوالوں سے روبرو کر دے۔ سچ یہی ہے کہ تحریر کی اصل طاقت نہ تو اس کی طوالت میں ہے، نہ اختصار میں، بلکہ اس کے اخلاص اور سچائی میں ہے۔ جو تحریر دل سے نکلتی ہے، وہ دل تک پہنچتی ہے، خواہ وہ ایک سطر کی ہو یا ایک کتاب کی۔آج کے عہد میں لفظ تیزی سے پیدا ہوتے اور تیزی سے مر جاتے ہیں۔ ایک پوسٹ کے نیچے ہزاروں تبصرے ہوتے ہیں، مگر ان میں سے کتنے انسان کے شعور کو جھنجھوڑتے ہیں؟
ہم نے زبان کو اظہار کے لیے نہیں، تاثر کے لیے استعمال کرنا سیکھ لیا ہے۔ یہی وہ لمحہ ہے جہاں تحریر کا اخلاقی و فکری کردار ختم ہونے لگتا ہے۔ مگر جو قلم اب بھی سچ لکھنے کا حوصلہ رکھتا ہے، وہ اس شور میں بھی روشنی کی کرن ہے۔تحریر کا "سچ” وہ نہیں جو سب کو خوش کرے، بلکہ وہ ہے جو سوال اٹھائے، جو غلطی کے پردے کو چاک کرے، جو سوچنے پر مجبور کرے۔آج کے تیز رفتار عہد میں قاری اگرچہ مختصر وقت رکھتا ہے، لیکن اس کا دل اب بھی گہرائی کی پیاس سے خالی نہیں۔ وہ جاننا چاہتا ہے کہ لفظوں کے پیچھے کیا احساس ہے، مصنف کے لہجے میں کون سی سچائی چھپی ہے، اور تحریر کے بین السطور میں کون سا درد یا فکر سانس لیتا ہے۔یہی وہ لمحہ ہے جب تحریر محض فن نہیں رہتی، بلکہ رابطے، صداقت اور روحانی تجربے کا وسیلہ بن جاتی ہے۔ یہ کہنا بجا ہے کہ تحریر کی معنویت اس کی ظاہری شکل سے نہیں، بلکہ اس کے اندر چھپی سچائی سے جنم لیتی ہے۔ایک سچا لفظ ہزاروں جھوٹے بیانات پر بھاری ہوتا ہے۔وقت کا دباؤ ہمیں مختصر لکھنے پر مجبور ضرور کر سکتا ہے، مگر اسے "فن” کے طور پر قبول کرنے اور "معیار” کے طور پر ماننے میں فرق ہے۔ اگر تحریر کا مقصد صرف پڑھا جانا ہے تو اختصار کافی ہے، مگر اگر مقصد اثر ڈالنا ہے تو گہرائی ناگزیر ہے۔
پہلے زمانوں میں قاری وقت کے ساتھ تحریر میں اترتا تھا۔ وہ الفاظ میں سانس لیتا، جملوں میں رہتا، اور مفہوم کے تہہ در تہہ پھیلاؤ سے لطف اندوز ہوتا۔ ادب صرف پڑھنے کا عمل نہیں تھا بلکہ ایک روحانی و فکری تجربہ تھا۔ مگر آج دنیا کی رفتار نے مطالعے کی عادت کو بھی مشینی بنا دیا ہے۔ قاری اب لمبی تحریر نہیں بلکہ تیز پیغام چاہتا ہے؛ وہ مواد نہیں، “نتیجہ” پڑھنا چاہتا ہے۔مگر آج کے دور میں، جب وقت گھڑی کے عقربوں سے بھی زیادہ تیز بھاگتا ہے، مطالعہ بھی مشینی ہو چکا ہے۔ اب قاری تحریر میں نہیں اترتا، بلکہ تحریر کو “سکرول” کرتا ہے۔ایک زمانہ تھا جب ادب اور قاری کے درمیان ایک زندہ تعلق ہوتا تھا۔ تحریر صبر مانگتی تھی، اور قاری کے پاس وہ صبر موجود تھا۔ وہ جانتا تھا کہ مفہوم ایک ہی نشست میں نہیں کھلتا، بلکہ کئی بار پڑھنے، رکنے، سوچنے، اور محسوس کرنے سے اپنی معنویت ظاہر کرتا ہے۔اس زمانے کا مطالعہ “عملِ دریافت” تھا قاری مصنف کے ساتھ مل کر تحریر میں شریک ہوتا، اسے اپنے تجربات کے آئینے میں پرکھتا۔ اس لیے ہر قاری اپنی کہانی اس تحریر سے اخذ کرتا۔ آج کے ڈیجیٹل عہد نے مطالعے کو آسان ضرور کیا ہے، مگر اس کے ذائقے کو پھیکا کر دیا ہے۔ اب الفاظ کے درمیان توقف نہیں، صرف اسکرین کے “سواپ” ہیں۔
قاری کے پاس سوچنے کا وقت نہیں کیونکہ وہ ایک ایسی دنیا میں جیتا ہے جہاں معلومات کا سیلاب ہے مگر شعور کی پیاس باقی ہے۔اب وہ “خلاصہ” چاہتا ہے، “گہرائی” نہیں۔وہ “خبر” پڑھتا ہے مگر “کہانی” نہیں۔وہ “تجزیہ” سن لیتا ہے مگر “تفکر” نہیں کرتا۔
اس مشینی رفتار نے انسان سے اس کی گہرائی چھین لی ہے۔ہم جتنی تیزی سے دنیا کو جاننے لگے ہیں، اتنی ہی تیزی سے خود سے انجان ہوتے جا رہے ہیں۔آج کے قاری کے پاس “علم” تو ہے مگر “فہم” نہیں، “ڈیٹا” تو ہے مگر “دانائی” نہیں۔یہ وہ تضاد ہے جو ہمیں ایک فکری بحران کی طرف لے جا رہا ہے ایسا بحران جہاں ہم سب کچھ پڑھتے ہیں، مگر کچھ بھی سمجھ نہیں پاتے۔مطالعہ جب سطحی ہو جاتا ہے تو معاشرہ بھی سطحی ہو جاتا ہے۔ پھر وہ سوال نہیں اٹھاتا، صرف ردِعمل دیتا ہے۔ وہ سوچتا نہیں، صرف “کلک” کرتا ہے۔ اور یہی وہ لمحہ ہے جب قاری “انسان” سے “یوزر” بن جاتا ہے۔مطالعہ ایک “روحانی تجربہ” ہے اگر ہم اسے دوبارہ “تجربہ” سمجھیں ، نہ کہ “ڈیٹا پروسیسنگ”۔
یہ تبدیلی محض ذوق کی نہیں بلکہ عہد کی علامت ہے۔ ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں رفتار نے گہرائی کو نگل لیا ہے، اور معلومات نے علم کا رُوپ دھار کر شعور کی جگہ گھیر لی ہے۔ جدید دنیا نے نہ صرف انسان کے رہنے سہنے، بولنے اور دیکھنے کے انداز بدل دیے ہیں بلکہ سوچنے کا اسلوب بھی تبدیل کر دیا ہے۔ اب علم ایک مسلسل تدبر اور غور کا حاصل نہیں رہا، بلکہ ایک "فاسٹ فوڈ” کی طرح تیز، وقتی اور فوری تسکین دینے والی شے بن چکا ہے۔جدید انسان اپنے موبائل کی اسکرین پر روزانہ سینکڑوں مناظر، خبریں، جملے اور اقتباسات دیکھتا ہے، مگر ان میں سے کتنے اس کے ذہن میں ٹھہرتے ہیں؟ شاید چند سیکنڈ سے زیادہ نہیں۔ سوچنے سے زیادہ “اسکرول کرنے” کا عمل عام ہے، اور یہی ہماری فکری کمزوری کا سب سے بڑا علامت ہے۔
معلومات کی فراوانی نے غور و فکر کی گہرائی کو بدل دیا ہے۔ ہم جاننے لگے ہیں، مگر سمجھنے سے دور ہو گئے ہیں۔ قاری اب لفظوں میں نہیں ٹھہرتا، وہ بس گزر جاتا ہے جیسے دریا کے اوپر تیرتا پتا۔آج مختصر تحریر کو فیشن سمجھا جاتا ہے۔ “شارٹ پوسٹس”، “ون لائنرز”، “تھریڈز” اور “اسٹوریز” کے اس زمانے میں لمبی تحریر گویا ایک “عیاشی” محسوس ہوتی ہے۔ انسان کا وقت محدود، توجہ منتشر، اور ذہن بوجھل ہے۔ اس تیز رفتار عہد میں قاری کو وہی تحریر لبھاتی ہے جو چند سیکنڈ میں اسے "کسی نتیجے” تک پہنچا دے۔ مگر بعض حقائق ایسے ہیں جنہیں سمجھنے کے لیے وقت، مکالمہ، اور فکری ریاضت درکار ہوتی ہے۔ جیسے درخت کی جڑ زمین کے اندر پھیلتی ہے، ویسے ہی خیال بھی وقت اور گہرائی سے نشوونما پاتا ہے۔ مختصر تحریر اگرچہ اثرانگیز ہو سکتی ہے، مگر اکثر سطحی بن جاتی ہے ۔
ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ مختصر تحریر اس زمانے کی ضرورت بن چکی ہے، مگر اسے “سچائی” کا مترادف سمجھنا ایک فکری فریب ہے۔علم اور شعور کو برق رفتار دنیا کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ اگر ہم نے ہر شے کو لمحوں کے پیمانے پر تولنا شروع کر دیا، تو شاید ایک دن انسانی احساس بھی ایک "کلک” میں محدود ہو جائے گا۔
آج کے برق رفتار اور ڈیجیٹل شور سے بھرے زمانے میں، جہاں لمحے بھی “سکینڈ” کی قید میں ہیں، طویل تحریر لکھنا اور پڑھنا ایک طرح سے مزاحمت بن چکا ہے تحریر کی طوالت دراصل قاری سے صبر کا تقاضا کرتی ہے۔ یہ وہی صبر ہے جو مطالعے کو ایک عملِ تدبر میں بدل دیتا ہے۔ طویل تحریر قاری کو ایک نشست میں نہیں جیتی، بلکہ آہستہ آہستہ اسے اپنے اندر کھینچتی ہے، جیسے دریا قریہ بہ قریہ اپنی سمت بناتا ہے۔طویل تحریر دراصل ایک مکالمہ ہے
اس میں مصنف صرف کہانی نہیں سناتا، بلکہ سوال اٹھاتا ہے، معنی کے نئے در وا کرتا ہے۔ وہ قاری کو صرف بتاتا نہیں، بلکہ اس سے بات کرتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں تحریر "بیان” سے "تجربہ” بن جاتی ہے۔
یہ کہنا درست ہوگا کہ طویل تحریر دراصل سوچ کا تسلسل ہے، جو اپنی رفتار خود طے کرتی ہے۔ اسے کسی اسکرول، کسی کلک، یا کسی لمحاتی توجہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ وقت مانگتی ہے اور وقت ہی وہ سرمایہ ہے جس کے بغیر نہ کوئی تخلیق ممکن ہے، نہ کوئی بصیرت۔مگر سوال یہ ہے کہ آج جب مختصر جملے، تیز پیغامات اور تیز تر معلومات کے سیلاب نے قاری کو بےقرار کر دیا ہے، تو طویل تحریر کی اہمیت کیا رہ جاتی ہے؟جواب سادہ مگر عمیق ہے: طویل تحریر ہی وہ پناہ گاہ ہے جہاں انسان رفتار سے نجات پاتا ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں قاری چند لمحوں کے لیے “خبر” سے نہیں بلکہ “فکر” سے ملاقات کرتا ہے۔ یہاں وہ محض مطلع نہیں ہوتا بلکہ متاثر، محو اور بیدار ہوتا ہے۔طویل تحریر انسان کو خاموشی کے فن سے آشنا کرتی ہے۔ اس کے بیچ بیچ میں ایسے وقفے آتے ہیں جہاں لفظ مضمحل نہیں ہوتے بلکہ سانس لیتے ہیں۔ وہ قاری کو یہ موقع دیتے ہیں کہ وہ تحریر کے اندر اپنی زندگی کے عکس دیکھ سکے۔ یہی وہ مکانی لمحے ہیں جہاں تخلیق محض مصنف کی نہیں رہتی، بلکہ قاری کی بھی بن جاتی ہے۔یہ روح کی ریاضت ہے۔ یہ مصنف کو اپنے اندر جھانکنے پر مجبور کرتی ہے اور قاری کو اپنے سوالوں سے روبرو کر دیتی ہے۔ اس کا مقصد محض بات مکمل کرنا نہیں، بلکہ معنی کو جنم دینا ہے۔
دنیا تیزی سے مشینی ہوتی جا رہی ہے۔ انسان اپنی روحانی و فکری گہرائی کھو کر خود ایک آلے میں بدل چکا ہے اس مشینی رفتار نے زندگی سے لے کر تخلیق تک، ہر شے کو مصنوعی چمک اور وقتی افادیت کے تابع کر دیا ہے۔ ادب، جو کبھی انسان کے کی صدائے بازگشت تھا، آج اکثر اوقات شہرت، خودنمائی اور فالوورز کے بازار میں ایک "پروڈکٹ” بن چکا ہے۔ الفاظ اب احساسات کے بجائے برانڈنگ کے ہتھیار بن گئے ہیں۔مشین نے انسان کو رفتار کا اسیر بنا دیا ہے۔ وقت کا دباؤ، سوشل میڈیا کا شور، اور ڈیجیٹل شہرت کا فریب ان سب نے ادب کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اب تحریر کو اس کے معنوی وزن سے نہیں، بلکہ اس کی وائرل ہونے کی صلاحیت سے پرکھا جاتا ہے۔ قاری بھی مشینی بن گیا ہے؛ وہ سوچنے کے لیے نہیں، تیز رفتاری سے "اسکرول” کرنے کے لیے پڑھتا ہے۔یہی وہ مقام ہے جہاں ادب کی روح گھٹنے لگتی ہے۔ ادب کا مقصد کبھی صرف "دیکھا جانا” نہیں تھا، بلکہ "دکھائی نہ دینے والی حقیقت” کو آشکار کرنا تھا۔ مگر جب تحریر بھی خودنمائی کے آئینے میں قید ہو جائے تو الفاظ اپنا تقدس کھو دیتے ہیں۔
بلوچ ادیب کا لکھنا محض تخلیقی مشق نہیں، بلکہ ایک سیاسی و اخلاقی عمل ہے۔ بلوچ قلمکار جب لکھتا ہے تو وہ کسی انفرادی احساس یا جمالیاتی لذت کے لیے نہیں لکھتا، بلکہ اجتماعی قومی دکھ کے بیچ سے اپنی قوم کی خاموش چیخوں کو الفاظ میں ڈھالتا ہے۔بلوچ سماج میں لکھنا بقا کی جدوجہد ہے، کیونکہ یہاں ہر لفظ تاریخ کی مزاحمت سے جڑا ہے۔یہاں ادب کا مطلب محض فن نہیں بلکہ وجود کی شہادت ہے۔یہاں تحریر محض بیان نہیں بلکہ احتجاج ہے۔ بلوچ کے لے لکھنا تفریح نہیں مزاحمت ہے ادب اگر محض جمالیات کا نام ہوتا تو شاید بلوچ قلمکار کبھی نہ لکھتا۔ مگر یہاں لکھنا ایک فرض ہے سچ بولنے کا، گمشدہ آوازوں کو واپس لانے کا، ان کہے دکھوں کو زبان دینے کا۔یہی وہ اخلاقی فریضہ ہے جو بلوچ ادیب کو عام لکھاری سے ممتاز کرتا ہے۔اس کے لیے تحریر کوئی ذریعۂ روزگار نہیں بلکہ ضمیر کی ادائیگی ہے۔وہ جانتا ہے کہ اس کے الفاظ کی قیمت اسے کبھی ایوارڈ یا اعزازیہ کی صورت میں نہیں ملے گی، بلکہ ممکن ہے یہ قیمت قید، زبان بندی یا حتیٰ کہ جان سے ادا کرنی پڑے۔
