
تحریر: لطیف بلوچ
زرمبش مضمون
انسان کبھی بیک وقت آزاد اور غلام نہیں ہو سکتا۔ یہ ممکن ہے کہ اسے جیل میں قید کر دیا جائے، زنجیروں میں جکڑ دیا جائے اور زبردستی حکمرانوں کے احکامات پر چلنے پر مجبور کیا جائے۔ لیکن ایک آزاد انسان ان مجبوریوں کے باوجود ہمیشہ راستہ تلاش کرتا ہے۔ آزادی اور غلامی کے درمیان کوئی درمیانی راستہ نہیں۔
بلوچ قوم نے ہمیشہ آزادی کو اپنی چوائس بنایا ہے۔ میر محراب خان اور نواب نوروز خان اس کی روشن مثالیں ہیں۔ جب 27 مارچ کو بلوچستان پر جبر کے ذریعے قبضہ کیا گیا تو بلوچوں کو مختلف صوبوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ انگریزوں کی پالیسی کے تحت بلوچوں کو سندھ اور پنجاب میں بانٹ دیا گیا۔ انتظامی طور پر تو بلوچ تقسیم ہوئے، لیکن ذہنی اور قومی طور پر نہیں۔ یہی قومی شعور اور غلامی کا احساس بلوچوں کو آزادی کی تحریک میں شامل ہونے پر مجبور کرتا رہا۔ شہید گنجل، شہید ذیشان اور شہید ظفر جان اس کی عملی مثالیں ہیں۔
آج میں ایک ایسے ہیرو، ایک مخلص، مہربان اور سچے استاد کے بارے میں بات کر رہا ہوں، جس کے کردار کو الفاظ میں مکمل طور پر بیان کرنا شاید ممکن نہ ہو۔ وہ ایک ایسا شخص تھا جو مشکلات، مصائب اور سختیوں کے باوجود ہمیشہ حوصلہ بلند رکھتا اور دوسروں کو بھی ہمت دیتا رہا۔ وہ تاریخ میں سرمچار کی حیثیت سے امر ہوگیا۔ میں بات کر رہا ہوں شہید دوست، درویش مزاج اور مہربان سنگت ظفر جان کی۔
ظفر جان ایک ماہی گیر گھرانے میں پیدا ہوئے۔ والد کی وفات کے بعد گھر کی ذمہ داریاں ان کے کندھوں پر آ گئیں، اور انہوں نے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ دی۔ لیکن ان میں کچھ کرنے کا جذبہ ہمیشہ موجود رہا۔ وہ سماجی کاموں میں سرگرم رہتے اور نوجوانوں کو شعور دینے میں آگے آگے ہوتے۔ جب بلوچستان میں ریاستی جبر اپنی انتہا پر تھا—گمشدگیاں، لاشیں اور تشدد ہر طرف عام تھا—تو ظفر جان نے باقاعدہ تنظیمی جدوجہد میں حصہ لیا۔ وہ شہید کمبر چاکر سے متاثر تھے اور اپنے علاقے میں پہلی بار بی ایس او آزاد کا یونٹ قائم کیا جس کا نام بھی شہید کمبر چاکر رکھا۔
میں بچپن سے انہیں جانتا تھا۔ ہماری پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب انہوں نے مجھ سے کہا: “تم پڑھائی جاری رکھو۔” پھر اگلے دن انہوں نے مجھے بلوچی قومی تحریک اور غلامی کے بارے میں شعور دیا۔ اگرچہ وہ زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے، لیکن ان میں لوگوں کو قائل کرنے کی صلاحیت تھی۔ میں بھی ان سے متاثر ہو کر تنظیم میں شامل ہوگیا۔ وہ سچ بولنے والے، نظم و ضبط کے پابند اور غیر اخلاقی رویوں کے سخت خلاف تھے۔
ایک بار ایسا بھی ہوا کہ ایک دوست کو مالی ضرورت پڑی، تو ظفر جان نے اپنے گھر کے ماہانہ راشن کے پیسے اسے دے دیے اور خود راشن اُدھار لیا۔ وہ دن بھر مزدوری کرتے لیکن پھر بھی تنظیمی کاموں میں پیش پیش رہتے۔ وہ نوجوانوں کو غلامی کا احساس دلاتے اور بھگت سنگھ کی مثال دیتے تھے: “بلوچستان آزاد ہو یا نہ ہو، مگر گراونڈ ضرور آزاد ہونا چاہیے۔” ان کی بہادری سے کئی نوجوان متاثر ہوئے۔
لطیف جوہر کی بھوک ہڑتال کیمپ ہو یا مسنگ پرسنز کے کیمپ—ظفر جان ہر وقت سرگرم رہتے۔ جھوٹ کبھی نہیں بولتے۔ جب بی ایس او آزاد کا وقت پورا ہوا تو ذاتی زندگی اختیار کرنے کے بجائے انہوں نے بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) جوائن کی۔ اکثر نوجوان اس مرحلے پر ذاتی مصروفیات میں لگ جاتے ہیں، مگر ظفر جان نے سب کو ایک جگہ اکٹھا کیا اور پارٹی کے کاموں میں ہمیشہ آگے رہے۔ وہ سیاست کو سمجھتے تھے، عالمی حالات پر نظر رکھتے اور ہمیشہ کہتے: “فرد کی غلطیوں کی وجہ سے تنظیم کو نقصان نہیں پہنچانا چاہیے۔”
شہید گنجل کے قریبی ساتھی تھے۔ گنجل کی شہادت کے بعد انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ اب صرف مزاحمت ہی زندگی ہے۔ جب کراچی میں حالات کشیدہ ہوئے اور ان کے سامنے ساتھیوں کو اٹھا کر لاپتہ کیا گیا تو انہوں نے پہاڑوں کا رخ کیا اور بی ایل اے میں شامل ہوگئے۔ جانے سے پہلے مجھے کہا: “اب میں پہاڑوں میں جا رہا ہوں، مسلح جدوجہد کی طرف۔”
شہادت سے ایک ماہ پہلے تک وہ پُراعتماد تھے۔ جب بولان میں بلوچ سرمچاروں نے دشمن پر حملہ کیا اور خبر آئی کہ اس میں تیرہ ساتھی شہید ہوئے ہیں جن میں فدائی بھی شامل تھی تو بعد میں معلوم ہوا کہ ان میں ایک ظفر جان بھی تھے۔ یہ خبر سنتے ہی ایک خاموشی چھا گئی۔ دل ٹوٹ گیا، لیکن آزادی کی راہ میں شہادت سب سے بڑا رتبہ ہے۔
ظفر جان کبھی پہاڑ نہیں گئے تھے، مگر وطن کی محبت نے انہیں بولان کے پہاڑوں تک پہنچا دیا۔ وہاں وہ دشمن کے سامنے ایک چٹان کی طرح ڈٹے رہے۔ شہادت سے پہلے جب ان کی والدہ کی فکر کا ذکر ہوا تو کہنے لگے: “میں اکیلا نہیں، سب کے مائیں ہیں۔” ان کے دل میں صرف سرزمینِ بلوچستان کی محبت تھی۔
ظفر جان آنے والی نسلوں کے لیے ایک مشعلِ راہ ہیں۔ انہوں نے ثابت کیا کہ بلوچ جہاں بھی ہوں، آزادی کے لیے جدوجہد کرنا لازم ہے۔ ان کی شہادت نے یہ بھی واضح کر دیا کہ کراچی کے بلوچ بھی قومی تحریک کا حصہ ہیں۔ دشمن انہیں صرف ایک سرمچار سمجھتا تھا، لیکن میرے نزدیک وہ روشنی کا چراغ تھے، ایک ایسے استاد اور دوست جن کے اندر مایوسی کا نام و نشان نہیں تھا۔
ظفر جان جسمانی طور پر ہم سے جدا ہو گئے ہیں، مگر نظریاتی طور پر آج بھی ہمارے ساتھ زندہ ہیں۔
