شبیر بلوچ کی جبری گمشدگی کے نو سال پر تربت میں سیمینار

تربت میں سابق بی ایس او آزاد کے سیکرٹری جنرل شبیر بلوچ کی جبری گمشدگی کے نو سال مکمل ہونے پر ان کے خاندان اور بلوچ وومن فورم کے اشتراک سے ایک سیمینار منعقد کیا گیا۔ سیمینار میں بلوچ وومن فورم کی چیئرپرسن ڈاکٹر شلی بلوچ، ایچ آر سی پی کے ریجنل کوآرڈینیٹر پروفیسر غنی پرواز، بلوچ یکجہتی کمیٹی کے سینیئر رہنما سید بی بی بلوچ، سیاسی کارکن گلزار دوست، لاپتہ افراد کے اہلخانہ اور مختلف سماجی و سیاسی شخصیات نے شرکت کی۔

ڈاکٹر شلی بلوچ نے خطاب میں کہا کہ ریاست بلوچستان میں نسل کشی کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور ہماری نسل کو جان بوجھ کر نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ آج کی پالیسی نہیں بلکہ قدیم “کل اینڈ ڈمپ” طرزِ عمل کی تسلسل ہے۔ ڈاکٹر شلی نے مزید کہا کہ پورے بلوچستان میں ڈیتھ اسکواڈ فعال ہیں اور ریاست انہیں مراعات دے رہی ہے، جبکہ کم عمر بلوچ نوجوانوں کو قتل یا جیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔ انہوں نے شبیر بلوچ کو صرف ایک فرد نہیں بلکہ ایک فکر اور نظریہ قرار دیا، اور کہا کہ شبیر کے پیچھے سیکڑوں نظریاتی کارکنان ہیں جو ان کے نظریات کو آگے بڑھا رہے ہیں۔

پروفیسر غنی پرواز نے کہا کہ بلوچستان میں ریاستی پالیسیاں جبر کی آئینہ دار ہیں۔ نوجوانوں کی جبری گمشدگی کے نتیجے میں خاندانوں کو شدید ذہنی اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہ عمل پاکستانی آئین اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کی واضح خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ بلوچستان اور پاکستان کے تمام لاپتہ افراد کو فوری بازیاب کیا جائے اور اگر کوئی شخص جرم میں ملوث ہے تو اسے قانون کے مطابق سزا دی جائے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے سینیئر رہنما سید بی بی بلوچ نے شبیر بلوچ کو ایک وطن دوست اور بلوچستان کی سیاسی جدوجہد کا سپوت قرار دیا، اور بتایا کہ شبیر نے بانک کریمہ بلوچ کے ساتھ مل کر بلوچستان کے لیے سیاسی جدوجہد کی، جس کی پاداش میں وہ لاپتہ ہوئے۔ سیاسی کارکن گلزار دوست نے ریاستی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جبری گمشدگی اور قتل ریاستی پالیسی کا حصہ ہیں اور اسے فوراً بند کیا جانا چاہیے، ورنہ بلوچستان میں تشدد کا سلسلہ جاری رہے گا۔

سیمینار میں شبیر بلوچ کی بہن سیما بلوچ نے بھی خطاب کیا اور کہا کہ سیاسی کارکنوں کو لاپتہ کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا پاکستان میں سیاست کرنا گناہ ہے کہ اس کی سزا جبری گمشدگی کی شکل میں دی جائے؟ سیما بلوچ نے کہا کہ وہ آج بھی شبیر کی ہنسی اور خوشگپیوں کے منتظر ہیں، مگر انصاف نہیں ملا۔

سیمینار کے پینل ڈسکشن میں فوزیہ بلوچ، لاپتہ اسرار بلوچ کی والدہ اور ایڈووکیٹ مجید دشتی نے بھی خطاب کیا۔ فوزیہ بلوچ شاشانی نے کہا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ تاحال جاری ہے اور مظلوم آواز کو دبایا جا رہا ہے۔ ایڈووکیٹ مجید دشتی نے کہا کہ کسی شہری کو حبس بے جا میں رکھنا آئین اور قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے اور شبیر بلوچ سمیت ہزاروں لاپتہ افراد کی بازیابی ریاستی ناکامی ہے۔ لاپتہ اسرار بلوچ کی والدہ نے کہا کہ وہ ہار نہیں مانیں گی اور اپنے بیٹے کے لیے جدوجہد جاری رکھیں گی۔

پینل کی موڈریٹر نصرین بلوچ نے کہا کہ جبری گمشدگیاں نہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہیں بلکہ پورے معاشرے کو ذہنی اور نفسیاتی عذاب میں مبتلا کرتی ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ تمام لاپتہ افراد کو فوری بازیاب کرایا جائے اور ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی جائے۔

سیمینار میں شریک افراد نے امید ظاہر کی کہ ان کی آواز بالاخر ایوانوں تک پہنچے گی اور انصاف ملے گا۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

قابض پاکستانی ریاست شبیر بلوچ کو نو سالوں ٹارچر سیلوں میں رکھنے کے باوجود ان کی ہمت و نظریہ کو قید رکھنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ بی ایس او آزاد

ہفتہ اکتوبر 4 , 2025
بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد بلوچ نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ سابقہ انفارمیشن سیکریٹری شبیر بلوچ کو ایک شعوریافتہ و طلباء رہنماء ہونے کی پاداش میں گزشتہ نو سالوں سے قابض پاکستانی فورسز نے ٹارچر سیلوں میں قید رکھا ہے جو ناصرف قابض کی شکست کو ظاہر […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ