ریاستی جبر اور کشمیر کا نوحہ !

تحریر۔ رامین بلوچ

پاکستانی زیرِ قبضہ کشمیر میں حالیہ دنوں ایک پُرامن احتجاجی مظاہرے پر پاکستانی فورسز کی اندھا دھند فائرنگ اور ایک درجن کے قریب کشمیری مظاہرین کی شہادت، دہائیوں پر محیط اس نوآبادیاتی و استعماری پالیسی کا تسلسل ہے جسے پاکستان نے مقبوضہ وادی پر اپنے غیر فطری تسلط کو قائم رکھنے کے لیے اختیار کیا ہوا ہے۔ یہ واقعہ اس امر کی کھلی گواہی ہے کہ پاکستان، جو خود کو کشمیری عوام کا وکیل قرار دیتا ہے، درحقیقت ان کے خون اور وسائل پر قابض ہے اور ہر اُس آواز کو کچلنے کے لیے طاقت کا وحشیانہ استعمال کرتا ہے جو آزادی، قومی شناخت اور جداگانہ حیثیت کا مطالبہ کرے۔پاکستان کا کشمیر پر جبری اور غیر قانونی قبضہ ایک طویل تاریخی سازش کا نتیجہ ہے۔ ہندوستان کی غیر فطری تقسیم کے فوراً بعد، پاکستانی ریاست نے کشمیری قوم کے فطری و جمہوری حقِ آزادی کو پامال کرتے ہوئے عسکری جارحیت، قبائلی ملیشیا اور فوجی تسلط کے ذریعے کشمیر کے ایک حصے پر قبضہ جمایا۔ بظاہر اسے ’’آزاد کشمیر‘‘ کا نام دیا گیا، لیکن حقیقت میں وہ پاکستان کے زیرِ قبضہ خطہ ہے، جسے اس نے ہمیشہ اپنے جغرافیائی، عسکری اور سامراجی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ تاریخی شواہد اس امر کے گواہ ہیں کہ پاکستان نے کشمیریوں کی بنیادی قومی آزادی سلب کر کے اس خطے کو محض اپنی فوجی اسٹریٹیجی کا حصہ بنائے رکھا۔

پاکستانی زیرِ قبضہ کشمیر میں آزادیِ اظہار، سیاسی شرکت اور جمہوری جدوجہد کو مسلسل دبایا گیا۔ احتجاجی مظاہروں پر گولیاں، جبری گمشدگیاں، قتلِ عام اور وسائل کی لوٹ مار اب معمول بن چکے ہیں۔ حالیہ قتلِ عام اسی تسلسل کا تازہ باب ہے، جو اس خطے کو خوف، عسکری کنٹرول اور ریاستی بربریت کے سائے میں رکھنے کی پالیسی کا حصہ ہے۔پاکستان کی ریاستی جبر کی پالیسی صرف تشدد تک محدود نہیں رہی بلکہ اس نے کشمیر کی قومی و قدرتی دولت اور وسائل پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔ پانی، جنگلات اور معدنیات کو پاکستانی ریاست اپنے معاشی اور فوجی مفادات کے لیے استعمال کرتی رہی ہے۔ ایک طرف پاکستان امپریل ہائپوکریسی کے تحت عالمی سطح پر کشمیریوں کا وکیل بننے کی منافقانہ کوشش کرتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کا کردار ایک قابض اور استعماری ریاست کا ہے۔

یہ کوئی مبالغہ نہیں کہ پاکستان کا قیام محض ہندوستان کی غیر فطری جغرافیائی تقسیم کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ اس کے خدوخال میں انگریز سامراجی منصوبہ بندی کا گہرا اثر شامل تھا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ انگریز سامراج کے قریب ترین اور سب سے زیادہ وفادار پنجابی تھے، جو انگریزی استعماری فوج کے غالب حصے میں شامل تھے۔ حالانکہ پنجاب کی آبادی ہندوستان کی کل آبادی کا صرف تیرہ فیصد تھی، مگر برطانوی فوج میں ان کی نمائندگی ساٹھ فیصد تک تھی۔ یہی پنجابی، ہندوستان کی آزادی کی تحریک کو کچلنے کے لیے اولین صفوں میں موجود رہے۔ جنرل ڈائر کے ساتھ شانہ بشانہ انہوں نے ہندوستانیوں کا قتلِ عام کیا اور دیگر مسلح و سیاسی تحریکوں کو دبانے میں انگریز سامراج کو بھرپور خدمات فراہم کیں۔اس وفاداری کے صلے میں انگریز سامراج نے ہندوستان کو تقسیم کر کے پنجابی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں ایک غیر فطری ملک تھما دیا جسے پاکستان کا نام دیا گیا۔ اس تقسیم کو جائز بنانے کے لیے ہندو مسلم تضاد کو ہوا دی گئی اور ایک نام نہاد اسلامی ریاست کو سامنے لا کر مسلم قومیت کا شوشہ گھڑا گیا۔ حالانکہ اسلام محض ایک مذہب ہے، کوئی قوم نہیں۔ لیکن مذہب کو قومیت کا روپ دے کر نہ صرف اسلام کو آلودہ کیا گیا بلکہ نیشنلزم کے نظریے کے ساتھ بھی کھلواڑ کیا گیا۔ پاکستان کا وجود دراصل اسی تعصب کی کوکھ سے ابھرا جہاں یہ پروپیگنڈہ کیا گیا کہ ہندو ’’ناپاک‘‘ ہیں اور پنجابی ’’پاک‘‘ ہیں۔ یہی پاک و ناپاک کی زہریلی سوچ اس ریاست کی بنیاد بنائی گئی۔

ایک طرف ’’اسلامی شناخت‘‘ کو قومیت کی بنیاد بنایا گیا، تو دوسری طرف دیگر آزاد اور متنوع قومیتوں بلوچ، سندھی، پشتون اور کشمیریکی جغرافیائی، تہذیبی، لسانی اور تاریخی انفرادیت اور آزادی کو تسلیم کرنے کے بجائے ان پر فوج کشی اور قبضہ گیرانہ و توسیع پسندانہ پالیسیوں کے ذریعے ان کی زمین اور شناخت کو زبردستی پاکستانی تشخص میں ضم کر دیا گیا۔پاکستان کا غیر فطری جغرافیہ ابتدا ہی سے متنازع رہا ہے۔ بلوچستان، سندھ، پشتونخوا اور کشمیر کے خطے اپنی الگ تاریخ، شناخت اور آزادی کے اصولوں پر قائم تھے، مگر ریاست نے ان پر جبری الحاق اور ضم کی پالیسی مسلط کی۔ بلوچستان کا 1948ء میں جبری الحاق، سندھ میں تاریخی خودمختاری کا خاتمہ، پشتون قومی وحدت کو تقسیم کرنا اور کشمیری عوام کی آزادی پر شب خون مارنا اسی پالیسی کی نمایاں مثالیں ہیں۔
پاکستانی نوآبادیاتی ریاست نے اپنے قبضے کو مستحکم کرنے کے لیے صرف طاقت کا سہارا نہیں لیا، بلکہ ایک مصنوعی بیانیہ بھی تراشا، جس کے ذریعے قومی آزادی کی تحریکوں کو ’’غداری‘‘ یا ’’دہشتگردی‘‘ کے خانے میں ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ بلوچ قومی آزادی کی اصولی تحریک کو ’’ہندوستانی ایجنڈا‘‘ کہا گیا، سندھی قوم پرستوں کو ’’علیحدگی پسند‘‘ قرار دیا گیا، پشتون قومی تحریک کو ’’افغان پراکسی‘‘ اور کشمیری آزادی کی جدوجہد کو ’’بیرونی سازش‘‘ کے طور پر پیش کیا گیا، تاکہ ریاستی جبر اور طاقت کے استعمال کو جواز فراہم کیا جا سکے۔

تاریخ کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ نوآبادیاتی قبضے اور اس کے بچھائے گئے خونی جغرافیائی ہتھکنڈے آج بھی ایک زندہ حقیقت کے طور پر ہمارے سامنے موجود ہیں۔ برطانوی سامراج نے ہندوستان کو محض لوٹ مار اور وسائل کی بندربانٹ کے لیے فتح نہیں کیا تھا بلکہ اپنے استعماری تسلط کو قائم رکھنے کے لیے ایسی "لکیریں” کھینچیں جو اس خطے کے لیے مستقل زخم اور خونی دراڑیں ثابت ہوئیں۔ بلوچ وطن کی جغرافیائی تقسیم، ڈیورنڈ لائن، گولڈ اسمتھ لائن اور پنجاب میں بلوچ علاقے کا جبری انضمام، برطانوی سامراج کی وہ پالیسیاں تھیں جنہوں نے خطے کو ہمیشہ کے لیے عدم استحکام، محرومی اور خونریزی کے گڑھے میں دھکیل دیا۔برطانیہ نے آزاد اقوام کی تاریخی وحدت اور خودمختار وجود کو تسلیم کرنے کے بجائے مصنوعی سرحدیں مسلط کیں۔ ڈیورنڈ لائن نے بلوچ اور پشتون قوم کو تقسیم کر کے سامراجی حکمتِ عملی کے تحت ایک "بفر زون” قائم کیا۔ اسی طرح بلوچ وطن کی جغرافیائی تقسیم محض عسکری اور اسٹریٹجک مفادات کے لیے کی گئی تاکہ خطے میں مستقل داخلی تنازعہ موجود رہے۔ گولڈ اسمتھ لائن اور دیگر خونی سرحدی تشکیل دراصل بلوچ قومی وحدت اور مملکت کے خلاف ایک بین الاقوامی سازش تھی۔ پاکستانی ریاست اس نوآبادیاتی ورثے کی محض ایک "کم ظرف کاپی” ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نہ تو اپنی بنیادوں میں کوئی جمہوری تصور رکھتا ہے اور نہ ہی اخلاقی جواز۔ یہ ریاست برطانوی سامراج کے دیے گئے جبر کے اوزاروں کو ہی اپنا سب سے بڑا ہتھیار بناتی رہی ہے۔ بلوچ وطن پر قبضہ، جبری الحاق، سیاسی کارکنوں کی گمشدگیاں، اجتماعی قبروں کی دریافت، فوجی آپریشنز اور میڈیا سنسرشپ یہ سب اس امر کی گواہی دیتے ہیں کہ پاکستان دراصل سامراجی ورثے کا "بدترین تسلسل” ہے۔

بلوچ قوم کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اس سرزمین نے کبھی بھی اپنے اوپر مسلط قبضے کو فطری یا جائز تسلیم نہیں کیا۔ برطانوی تسلط سے لے کر پاکستانی ریاست کے قبضے تک، بلوچ قوم نے مسلسل آزادی کی جدوجہد جاری رکھی ہے۔ آج اس خطے میں بہتا ہوا خون کسی مذہبی، نسلی یا لسانی "قدرتی جھگڑے” کا نتیجہ نہیں بلکہ برطانوی اور پنجابی سامراج کی لگائی گئی ان خونی لکیروں کا تسلسل ہے جنہیں پاکستان جیسی جرائم پیشہ ریاست نے مزید خونی شکل دی ہےغیر فطری پاکستانی ریاست نے اپنی نام نہاد تشکیل کے آغاز ہی سے برطانوی سامراج کے نوآبادیاتی ڈھانچوں اور ہتھکنڈوں کو نہ صرف اپنایا بلکہ انہیں اپنی بقا کا بنیادی ہتھیار بنا لیا۔ ہندوستان میں انگریز سامراج کی پالیسی ’’Divide and Rule‘‘ اور ’’State Terrorism‘‘ پر مبنی تھی، جس کا مقصد آزادی کی تحریکوں کو کچلنا اور نوآبادیاتی مفادات کو قائم رکھنا تھا۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستانی ریاست نے انہی مجرمانہ طریقہ کار کو قومی وحدت کے نام پر دہرا دیا، جس کے نتیجے میں نوآبادیاتی جبر کا ایک نیا اور ہولناک باب شروع ہوا۔

بلوچستان، جو تاریخی طور پر آزاد اور خودمختار حیثیت رکھتا تھا، 1948ء سے فوجی آپریشنز اور ریاستی دہشت گردی کی زد میں ہے۔ 1970ء کی دہائی سے آج تک ہزاروں بلوچ نوجوان جبری گمشدگی کا شکار ہوئے اور اجتماعی قبریں دریافت ہوئیں۔ برطانوی سامراج کی ’’Punitive Expeditions‘‘ کو پاکستانی فوج نے ’’آپریشن کلین اپ‘‘ کے نام پر دہرا دیا۔سندھ میں یہی نوآبادیاتی ہتھکنڈے سیاسی کارکنوں کے اغواء اور قتل کی صورت میں سامنے آئے۔ پشتون خطے میں ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کو ریاست نے بطور ہتھیار استعمال کیا۔ ہزاروں بے گناہ پشتون ڈرون حملوں اور فوجی آپریشنز میں لقمۂ اجل بنے، جبکہ لاکھوں افراد داخلی طور پر بے گھر (IDPs) ہو گئے۔ برطانوی سامراج نے پشتون علاقوں کو ’’Frontier Crimes Regulation (FCR)‘‘ کے تحت غلامی کے شکنجے میں کسا تھا، اور آج پاکستانی ریاست نے اسی منطق کو ’’انسدادِ دہشت گردی‘‘ کے نام پر دہرا دیا۔

کشمیر، جو برطانوی تقسیمِ ہند کا سب سے بڑا المیہ ہے، وہاں بھی پاکستانی ریاست نے اپنی فوجی اور انٹیلی جنس حکمت عملی کو عوامی امنگوں کے برعکس مسلط کیا۔ کشمیری عوام کے پُرامن مظاہروں پر گولیوں کی بوچھاڑ، سیاسی قیادت کی گرفتاریاں اور صحافت پر سنسرشپ ریاستی جبر کا حصہ ہیں۔ یہاں بھی سامراجی تسلسل صاف دکھائی دیتا ہے کہ کس طرح ’’قوم دوستی‘‘ کو ’’دہشت گردی‘‘ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔غیر فطری پاکستانی ریاست کا مجموعی ڈھانچہ ایک مخصوص غالب اور قابض قوم، یعنی پنجابی عسکری و بیوروکریٹک اسٹیبلشمنٹ کے مفادات اور اقتدار کے گرد گھومتا ہے۔ اگر اس مصنوعی ریاستی ڈھانچے کو تاریخی زاویے سے دیکھا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ پاکستان اپنی نام نہاد تشکیل کے بعد نہ صرف برطانوی نوآبادیاتی وراثت کو اپناتا رہا بلکہ اسے مزید جبر و استحصال کے ساتھ اپنی داخلی اور خارجی حکمتِ عملی کا بنیادی ستون بناتا گیا۔یہ قابض طبقہ معیشت، وسائل اور حتیٰ کہ عوامی شعور کی تشکیل کے ذرائع—میڈیا، نصاب اور مذہبی بیانیے—پر بھی قابض ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریاستی بیانیہ، چاہے وہ "اسلامی یکجہتی” کی اصطلاح ہو یا "پاکستان کے اٹوٹ انگ” کی گردان، دراصل اسی طاقت کے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

پاکستانی ریاستی بیانیے میں "کشمیر بنے گا پاکستان” یا "بلوچستان پاکستان کا اٹوٹ انگ ہے” جیسے نعرے بظاہر مذہبی جذبے اور یکجہتی کو ابھارتے ہیں، مگر حقیقت میں یہ محض نوآبادیاتی پروپیگنڈے کے اوزار ہیں۔ ان نعروں کا مقصد مقبوضہ اقوام بلوچ، سندھی، پشتون اور کشمیری کے اصل سوال یعنی قومی آزادی کو پس منظر میں دھکیل دینا ہے۔ ان کے ذریعے اقوام کی فکری توانائی کو ایک مصنوعی اور غیر فطری "قومیت” کی طرف موڑ دیا جاتا ہے تاکہ حقیقی آزادیوں کی جدوجہد کو کمزور کیا جا سکے۔

یہ کہنا بجا ہوگا کہ پاکستانی جبر کے شکار تمام محکوم اقوام ایک مشترکہ قومی مسئلے کا سامنا کر رہی ہیں۔ چاہے مقبوضہ بلوچستان ہو، پشتونخوا وطن، سندھو دیش یا کشمیرہر جگہ قومی تشخص کو مسخ کرنے، آزادی کو سلب کرنے، وسائل پر قبضہ جمانے اور جمہوری و سیاسی آواز کو دبانے کی یکساں جارحانہ پالیسی اپنائی گئی ہے۔اسی وجہ سے خطے میں موجود تمام آزادی کی تحریکیں، اپنی نوعیت میں مختلف ہونے کے باوجود، بنیادی سطح پر ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ ان کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے مشترکہ قومی ہداف کے حصول کے لیے اپنی مشترکہ دشمن کے خلاف اشتراکِ عمل کے ساتھ متحد ہوں، تاکہ پاکستانی قبضے کے خلاف جاری جدوجہدِ آزادی کو کامیابی سے ہمکنار کیا جا سکے۔پاکستانی ریاست کو جتنا زیادہ انگیج کیا جائے، جتنا زیادہ اسے تھکایا جائے، جتنا اس کا مورال گرا دیا جائے، جتنا وہ بحران کا شکار ہو اور جتنا اس کی طاقت بکھر جائےاتنی ہی جلد آزادی کی صبحیں طلوع ہوں گی۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ