ماس میڈیا، سوشل میڈیا اور ماڈل آف نوم جومسکی

تحریر: دودا بلوچ – چوتھا قسط
زرمبش مضمون

نوم جومسکی
(نوٹ ) پروپیگنڈا کے بارے میں امریکی فلسفی نوم چومسکی اپنی دوسری کتاب "Media Control: The Spectacular Achievements of Propaganda” میں کہتے ہیں کہ اب اس جدید اور سوشل میڈیا کے دور میں پروپیگنڈا کو Modern Propaganda اور Social Media Warfare کہا جاتا ہے۔ پروپیگنڈا نے اپنی روایتی نظریہ سے نکل کر باقاعدہ ایک سیاسی شعبہ، سوشل  Modern Warfare کا حصہ بن گیا ہے۔آج کے دور میں سیاست اور جنگ زیادہ تر سوشل میڈیا، بیانیے (narrative) اور جدید پروپیگنڈا کے طور پر لڑی اور دیکھی جاتی ہیں جس کی پروپیگنڈہ ڈیپارٹمنٹ کے طریقہ کار مضبوط اور مؤثر ہوں تو  جیت اسکی ہوگی
ہٹلر اور جوزف گوئبلز۔
نوم چومسکی ہٹلر اور گوئبلز کے کردار کے بارے میں کہتے ہیں کہ ہٹلر اور اس کے پروپیگنڈا منسٹر جوزف گوئبلز کو دوسری جنگِ عظیم میں بلیک پروپیگنڈا  کو  منظم ادارے کی شکل دینے والو میں شمار کیا جاتا ہے۔ انہوں نے سچائی کے بجائے جھوٹ کو قوت دی، عوامی رائے پر قابو پانے اور دشمن کو کمزور کرنے کے لیے پروپیگنڈا کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ پروپیگنڈا بذاتِ خود ایک ہتھیار ہے، مگر ان دونوں نے اس کی روایتی شکل بدل کر اسے ایک نیا ڈھانچہ دیا، جہاں ہر خبر، ہر فلم، ہر تقریر اور ہر نعرہ عوام کے ذہن کو قابو میں رکھنے کے لیے تیار کیا جاتا تھا۔ پورا دن ریڈیو پر جھوٹ نشر کیا جاتا اور حقائق چھپائے جاتے تھے؛ اس طرح  دوسری جنگ عظیم میں پروپیگنڈا اور بیانیے نے اپنی مثبت postive تصویر کھو دی اور دنیا کے سامنے ایک منفی  nagative  تصویر بن گیا۔۔ اج پوری دنیا میں پروپیگنڈا اور بیانیے کو بطورِ منفیnagative سمجھا جاتا ہے، حالانکہ اصل میں ‘بیانیہ’ اور ‘پروپیگنڈا’ ایسی اصطلاحات ہیں جو کام کے طریقوں کو جواز فراہم کرتی ہیں

(ضروری نوٹ)
اگر ہم ہٹلر اور جوزف گوئبلز کی پروپیگنڈا حکمتِ عملی کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آج کے دور میں سرفراز اور پاکستانی پروپیگنڈا مشینری بلوچ قومی تحریک کے خلاف انہی طریقوں کو استعمال کر رہی ہے۔ مگر یہاں صرف ہٹلر اور جوزف گوئبلز کے طریقۂ کار کو بیان کیا جا رہا ہے، کیونکہ ان کی حکمتِ عملی کو سمجھ کر آج کے سیاسی اور فوجی بیانیے کا بھی تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔

ہٹلر اور جوزف گوئبلز کا پروپیگنڈا ماڈل۔

اب آئیے جانتے ہیں کہ دوسری جنگِ عظیم کے دوران ہٹلر اور جوزف گوئبلز نے کس طرح پروپیگنڈا کے ذریعے اپنے بیانیے کو منظم اور مضبوط کیا اور کن کن طریقوں کو استعمال کیا۔

جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں، پروپیگنڈا کے تین ماڈل ہیں جو بیانیے کو مختلف طریقوں سے پھیلانے، منظم کرنے اور مضبوط بنانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ انہیں Black Propaganda، Grey Propaganda، اور White Propaganda کہا جاتا ہے، جن کی تفصیل میں پہلے بیان کر چکا ہوں کہ یہ کس طرح کام کرتے ہیں۔ لیکن ہٹلر اور جوزف گوئبلز نے بنیادی طور پر Black Propaganda Model اپنایا اور اس کے لیے علیحدہ ڈھانچے اور ادارے قائم کیے۔

‏1 Versailles Treaty

سب سے پہلے انہوں نے Versailles Treaty کو بطور ہتھیار استعمال کیا، کیونکہ اس معاہدے نے جرمنی میں عوامی ناراضگی اور غصہ کو  بھڑکا دیا تھا۔
ہٹلر کی نازی پارٹی نے عوام میں حمایت حاصل کرنے کے لیے پہلی جنگِ عظیم کے اس معاہدے کو بطور بیانیہ استعمال کیا۔جس کو  Versailles Treaty کہاجاتا ہیں جس میں جرمنی کو صرف پہلی جنگ عظیم کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا اور اس پر 132 ارب کا جنگی تاوان عائد کیا گیا۔ اس سے جرمنی میں شدید معاشی بحران پیدا ہوا اور جرمن عوام باقی اقوام سے سخت ناراض اور نفرت کرنے لگے۔ یہی ناراضگی اور نفرت دوسری جنگِ عظیم کے اسباب میں سے ایک بڑی وجہ بنی۔

میڈیا پر مکمل کنٹرول
سب سے پہلے جوزف گوئبلز نے میڈیا پر مکمل کنٹرول حاصل کیا۔ تمام اخبارات، ریڈیو، فلم تھیٹر، ادب، موسیقی اور فنونِ لطیفہ کو ہٹلر نے گوئبلز کی ماتحت کر دیا تھا۔

آزاد صحافت کو ختم کر دیا گیا تھا۔ جو ہٹلر اور گوئبلز کہتے، وہی خبر نشر کی جاتی۔ جھوٹی خبریں اور بیانیے ریڈیو نشریات کے ذریعے چلائے جاتے جو بظاہر درست دکھائی دیتے تھے، مگر اندر سے مایوسی اور شکست کا پیغام دیتے تھے۔

پوسٹرز، فلمیں اور ریڈیو استعمال کر کے عوامی رائے پر قابو پایا جاتا تھا۔ جن گھروں میں ریڈیو نہیں ہوتا، انہیں ریڈیو جرمن حکومت/فوج فراہم کرتی تھی۔ اس کے ذریعے فرنٹ لائن پر مخصوص فلمیں اور خبریں دکھائے جاتے تھے، جن میں جرمن فوج کو "ناقابلِ شکست” دکھایا جاتا تھا۔ شکستوں کو چھپایا جاتا اور چھوٹی کامیابیوں کو بڑا بنا کر پیش کیا جاتا تھا۔

جنگ کے دوران پیغام یہ ہوتا تھا: "فتح یا تباہی۔”
جنگ کے ابتدائی سالوں میں یہ تاثر دیا گیا کہ جرمنی ہر میدان میں جیت رہا ہے۔ جرمن فوج کو بہادر، منظم اور دنیا کی سب سے طاقتور فوج قرار دیا جاتا تھا۔ ریڈیو اور خفیہ نشریات کے ذریعے اتحادی ممالک کے عوام سے کہا جاتا: "تمہارے لیڈر جھوٹ بول رہے ہیں۔ جنگ لمبی ہوگی؛ وہ اسے ہار چکے ہیں۔ انہیں ہتھیار ڈال دینی چاہیے، ورنہ عوام کو بھوک اور تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔”

ریڈیو اور اخبارات میں ہٹلر کے سادہ، جذباتی نعرے اور پیغامات اس کی پروپیگنڈا وزارت بار بار دہراتی تھی (مثلاً: "ایک قوم” — مطلب: پوری دنیا میں آریائی برتری؛ "ایک ریاست” — مطلب: پوری دنیا میں صرف جرمنی کا راج؛ "ایک قائد” — دنیا میں صرف اور صرف ہٹلر)۔

مقصد یہ تھا کہ سادہ اور جذباتی پیغام عوام کے ذہن میں گہرائی تک بیٹھ جائے: "ہم سے بہتر کوئی نہیں، اور جو کچھ ہٹلر کر رہا ہے وہ ہمارے قوم اور ملک کے لیے کر رہا ہے۔”

نوٹ: بلوچ قومی تحریک کے خلاف بھی میڈیا اور سوشل میڈیا میں بالکل اسی طرح خبریں دکھائی اور چلائی جاتی ہیں۔ پاکستان فوج کو ناقابلِ شکست، منظم اور مضبوط فوج دکھایا جاتا ہے۔ فوج کی شکستوں کو چھپایا جاتا ہے اور سرفراز جیسے کٹھ پتلیوں کی چھوٹی اور جھوٹی کامیابیوں کو بڑا بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔

3 جھوٹ کو سچ بنا دینا

ہٹلر اور اس کے وزیرِ جوزف گوئبلز کا بنیادی یقین یہ تھا کہ اگر جھوٹ بہت بڑا ہو اور اسے بار بار دہرایا جائے تو عوام بالآخر اس پر یقین کرنے لگتے ہیں۔ اسی اصول کے تحت جب جرمنی کی فوجیں میدانِ جنگ میں شکست کھا رہی تھیں، تو جرمن اخبارات اور ریڈیو مسلسل یہ تاثر دیتے رہے کہ جرمنی جنگ جیت رہا ہے۔ اس بیانیے نے عام لوگوں کو حقیقت سے کاٹ کر ایک خیالی فتح کا احساس دیا۔

4 دشمن کا تعین اور نفرت کی سیاست

نازی پروپیگنڈا نے یہودیوں، کمیونسٹوں اور عالمی طاقتوں کو جرمنی کے معاشی بحران کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ یہ بتایا گیا کہ جرمنی دراصل دنیا کو کمیونزم، بدعنوان حکومتوں اور یہودی تاجروں کے ظلم سے "آزاد” کر رہا ہے۔ ہٹلر یہودیوں کو انسان سے کم اور جرمن قوم کی بدقسمتی کی جڑ قرار دیتا تھا۔ وہ انہیں پیچھے سے خنجر گھونپنے والا (stab-in-the-back myth) کہہ کر عوام میں نفرت ابھارتا تھا۔

5 مذہب اور پرانی تعصبات کا استعمال

یورپ میں صدیوں سے یہودیوں کے خلاف مذہبی تعصب موجود تھا۔ کلیسا نے انہیں "عیسیٰ مسیح کے قاتل” کہا تھا۔ نازیوں نے اس پرانی نفرت کو ایک نیا سیاسی اور نسلی رنگ دیا۔ اس کے نتیجے میں دنیا بھر کے عیسائی یہودیوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھنے لگے۔ ہٹلر جانتا تھا کہ مذہب کو بیانیہ بنا کر عوام کو متحد کیا جا سکتا ہے۔ اس نے یہودیوں کو ایک "مشترکہ دشمن” کے طور پر پیش کیا تاکہ جرمن عوام نازی پارٹی کے گرد یکجا ہو سکیں۔

یہی حکمتِ عملی آج بھی مختلف ریاستیں استعمال کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان نے کشمیر اور فلسطین کے مسائل کو بارہا سیاسی و مذہبی بیانیے کے طور پر استعمال کیا ہے تاکہ عوامی رائے کو ایک خاص سمت دی جا سکے۔

6 ہٹلر کی شخصیت پرستی۔

نازی پروپیگنڈا کا ایک بڑا پہلو ہٹلر کو "نجات دہندہ” اور "مسیحا” بنا کر پیش کرنا تھا۔ پوسٹرز، ریڈیو نشریات، فلموں اور تقاریر میں ہٹلر کی شخصیت کو مرکزیت دی گئی۔ اس کی تصاویر، مجسمے اور نعرے جرمنی کے ہر گوشے میں نظر آتے تھے۔ اسکولوں میں بچوں کو یہ سکھایا جاتا: "ہٹلر ہمارا ہیرو ہے۔”

پہلی جنگِ عظیم میں ہٹلر کی فوجی خدمات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا تاکہ وہ ایک "عام سپاہی” سے "عظیم رہنما” کے طور پر ابھر سکے۔ عوام کو یقین دلایا گیا کہ وہ ایک "عام جرمن” ہے جو ان کے دکھ درد کو سمجھتا ہے اور ان کے مسائل کا حقیقی حل رکھتا ہے۔

اسی تسلسل میں ہٹلر کو جرمنی کی تاریخ کے عظیم رہنماؤں فریڈرک دی گریٹ اور آٹو فان بیسمارک کے ساتھ کھڑا کیا گیا۔ یہ تاثر دیا گیا کہ ہٹلر جرمنی کی عظمت کی "تاریخی کڑی” ہے، اور اس کی قیادت دراصل ماضی کے عظیم جرمن ہیروز کی میراث کا تسلسل ہے۔

7 قومی اتحاد کا نعرہ
ہٹلر خود کو ایک قومی لیڈر کے طور پر پیش کرتا تھا۔ وہ بار بار کہتا:
"میری کوئی ذاتی خواہش نہیں، بلکہ میں جرمنی کو دنیا کی عظیم سلطنت اور آریائی نسل کو دنیا کی عظیم قوم بنانا چاہتا ہوں۔”
اس کی پارٹی کا مشہور نعرہ تھا:
"ایک قوم، ایک سلطنت، ایک لیڈر” (Ein Volk, Ein Reich, Ein Führer)

یہ نعرہ ہر جرمن کو یاد کرایا جاتا تاکہ سب ایک لیڈر کے پیچھے متحد ہو جائیں۔ ہٹلر کو جرمن عوام کا "باپ” کہا جاتا تھا ۔ بچوں، عورتوں اور فوجیوں سب کو یہ سکھایا جاتا کہ "ہٹلر سے محبت ایمان کی طرح ہے۔

8 خوف اور جذبات کا استعمال
گوئبلز کا کہنا تھا کہ پروپیگنڈا دلیل پر نہیں بلکہ خوف، غصے، نفرت اور وطن پرستی جیسے جذبات پر مبنی ہونا چاہیے۔
یہودیوں، کمیونسٹوں اور اتحادی طاقتوں کو سب سے بڑا خطرہ بنا کر پیش کیا گیا۔ کہا جاتا:
"اگر یہودی زندہ رہے تو جرمنیون کی وجود ختم ہو جائے گا۔”

یہ پروپیگنڈا بھی کیا گیا کہ انگلینڈ، امریکہ اور روس جرمنی کو غلام بنانا چاہتے ہیں۔ پوسٹروں اور فلموں میں دکھایا جاتا کہ دشمن جرمن عورتوں، بچوں اور انکی گھروں کو تباہ کر رہے ہیں ۔ عوام کو یقین دلایا جاتا "اگر ہم نہ لڑے تو ہمارا وجود مٹ جائے گا۔”

اسی خوف نے لوگوں کو ہٹلر کے پیچھے کھڑا ہونے اور دشمن کے خلاف متحد ہونے پر مجبور کیا۔

9 جذباتی پروپیگنڈا (Emotional Propaganda)

جوزف گوئبلز نے جرمنی اور مقبوضہ ممالک میں آریائی نسل کو سب سے اعلیٰ اور عظیم قرار دیا اور باقی اقوام اور نسل کو کم تر پیش کیا ۔
پہلی جنگِ عظیم کے بعد جو مایوسی اور معاشی تباہی جرمنی میں پھیلی تھی، ہٹلر نے اس کے مقابلے میں عوام کے دلوں میں قومی غرور اور برتری کا احساس جگایا۔ اس نے لوگوں کو یقین دلایا کہ "ہم دوبارہ ایک عظیم قوم بن سکتے ہیں اور ترقی کر سکتے ہیں اور اپنی عروج کو پائے سکتے ہیں

10 قربانی اور شہادت
نازی پروپیگنڈا میں یہ دکھایا جاتا کہ جو فوجی جرمنی کے لئے جان دیتا ہے وہ ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔
والدین سے کہا جاتا: "اپنے بیٹے کو محاذ پر بھیجنا سب سے بڑا فخر ہے۔
ماؤں سے کہا جاتا: "بیٹے کی موت ذاتی غم نہ کریں بلکہ وہ قومی فخر ہے۔
یہ بیانیہ اسکولوں، جلسوں اور میڈیا میں مسلسل دہرایا جاتا جنگ میں ہر مرنے والے فوجی کو ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا۔ اُس کی تصاویر اور کہانیاں اخبارات اور ریڈیو پر نشر کی جاتیں تاکہ باقی فوجی بھی متاثر ہوں۔
کہا جاتا تھا
"انفرادی خوشی بے معنی ہے، اصل خوشی قوم کے لئے قربانی میں ہے۔

شہادت کو مذہبی رنگ دینا
ہٹلر کی تقاریر میں شہادت کو ایک مقدس عمل بنا کر پیش کیا جاتا۔ نازی پروپیگنڈا میں کہا جاتا:
"جرمن فوجی کی موت خدا کی مرضی ہے، کیونکہ وہ آریائی نسل کو بچا رہا ہے۔”

اجتماعی شہادت کا تصور
بڑے جلوسوں اور ریلیوں میں شہید فوجیوں کے نام لئے جاتے اور ہزاروں لوگ "ہیل ہٹلر” کے نعرے لگاتے۔
یوں مرنے والوں کی یاد کو زندہ رکھا جاتا اور باقی عوام کو بھی جنگ کے لئے تیار کیا جاتا۔
ان تمام ہتھکنڈوں کے ذریعے عوام کے جذباتوں کو بھڑکایا گیا اور انہیں ہٹلر اور نازی نظریے کے ساتھ وفادار رکھا گیا۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

چاغی میں استحصالی منصوبہ سیندک کے لیے سامان لے جانے والی گاڑیوں پر حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ بی ایل ایف

جمعرات اکتوبر 2 , 2025
بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ترجمان میجر گہرام بلوچ نے کہا ہے کہ یکم اکتوبر کو سہ پہر تین بجے کے قریب بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سرمچاروں نے چاغی کے علاقے پدگ تاڈو میں نوآبادیاتی استحصالی منصوبہ سیندک کو سامان سپلائی کرنے والی گاڑیوں کو قریب سے گرنیڈ لانچر سے نشانہ […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ