تاریخِ آزادی کا اَمر حوالہ: شَہید دُغّار

تحریر : رامین بلوچ

تاریخ محض واقعات کے گزر جانے کا نام نہیں، بلکہ یہ انسان کی جدوجہد اور شعور کی وہ سنہری زنجیر ہے جس کی ہر کڑی میں قربانی، مزاحمت اور آزادی کا فلسفہ پیوست ہوتا ہے۔ امر ہونا جسمانی بقاء کا نام نہیں، بلکہ نظریاتی استقامت اور فکری میراث کے کا نام ہے۔ گوشت و خون مٹی میں مل جاتے ہیں، مگر وہ فکری ورثہ اور نظریاتی چراغ، جو جہدکار اپنی قربانیوں سے روشن کرتے ہیں، قابض قوتوں کے ظلم، ہتھکنڈوں اور گولیوں کی بوچھاڑ کے باوجود کبھی بجھ نہیں پاتے۔ نوآبادیاتی قبضے اور سامراجی جبر ہمیشہ عارضی ثابت ہوتے ہیں، لیکن اس جبر کے خلاف ڈٹ جانے والے حوصلے، قربانیاں اور آدرش تاریخ کی گہرائیوں میں ہمیشہ کے لیے امر ہو جاتے ہیں۔اسی تناظر میں شہید ڈغار چیئرمین زبیر بلوچ کا کردار سامنے آتا ہے۔ان کا وجود صرف گوشت و خون کی محدودیت تک مقید تھا۔ وہ ایک نظریہ، ایک علامت اور ایک تاریخی مزاحمتی تسلسل کا حصہ تھے۔۔ زبیر بلوچ کی شہادت کو اگر صرف ایک انسانی جان کے ضیاع تک محدود کیا جائے تو یہ اس فلسفہئ جدوجہد اور فکری تسلسل کے ساتھ ناانصافی ہوگی جسے وہ اپنی زندگی سے آگے بڑھا گئے۔ان کی شہادت اس امر کا اعلان ہے کہ ایک قوم کی آزادی کی تمنا کسی فرد کی موت سے ختم نہیں ہوتی، بلکہ وہ موت ہی اس جدوجہد کو نئی توانائی اور معنویت بخشتی ہے۔

بلوچ قومی آزادی کی تحریک کی بنیاد قربانی اور مزاحمت کے اس فلسفے پر ہے جس کا تسلسل زبیر بلوچ نے برقرار رکھا۔ انہیں محض ایک سیاسی ایکٹوسٹ کے طور پر دیکھنا ان کے فکری قد کاٹھ کو محدود کرنا ہوگا۔ وہ دراصل ایک نظریاتی ستون تھے جنہوں نے اپنی جدوجہد سے بلوچ قوم کی تیسری اور چھوتی نسل کو جرائت، سچائی اور قربانی کا درس دیا۔ ان کا کردار اس امر کی زندہ مثال ہے کہ افراد ختم ہو سکتے ہیں لیکن نظریات اپنی قوت اور استقامت کے ساتھ زندہ رہتے ہیں۔۔ وہ محض ایک جسم نہیں تھے جسے گولیوں سے چھلنی کیا جا سکتا ہے، وہ ایک روشن قندیل تھے جسے آندھیاں بجھانے کے لیے اٹھتی ہیں، مگر ہر بار اس کی لو نئے اعتماد کے ساتھ بھڑک اٹھتی ہے۔ ان کے وجود کا کمال یہ نہیں کہ وہ زندہ تھے، بلکہ یہ ہے کہ ان کی عدم موجودگی بھی زندگی کے معنی روشن کر گئی۔تاریخ کے اوراق پر کچھ کردار ایسے ثبت ہوتے ہیں جو محض کہانی نہیں رہتے بلکہ روشنی، مزاحمت اور امید کا استعارہ بن جاتے ہیں۔ یہ استعارے محض الفاظ کے پیرہن میں لپٹے نہیں ہوتے بلکہ ان میں قربانی کی خوشبو، جدوجہد کی حرارت اور انسان کے ازلی سوالوں کا کرب بسا ہوتا ہے۔یہ استعارے ماؤں کی آنکھوں سے ٹپکتے آنسوؤں میں جھلکتے ہیں، جن کے ضبط میں صدیوں کی اذیت پوشیدہ ہے۔ یہ بہنوں کے ہاتھوں میں خون سے بھیگی راکھی میں دکھائی دیتے ہیں، جو وفا اور عہد کی علامت بن کر رہتی ہے۔ یہ شہیدوں کے لہو میں روشن سیاہی کی طرح بہتے ہیں، جو زمین پر وفاداری، محبت اور آزادی کا عہد لکھ دیتی ہے۔ اور یہ جبری گمشدگیوں کے نوحے میں سنائی دیتے ہیں، جو تاریخ کی سڑک پر احتجاجی نعروں کی صورت گونجتے رہتے ہیں۔
فلسفہ یہی کہتا ہے کہ نظریہ کسی جسم کے ساتھ مٹی میں دفن نہیں ہوتا۔ جسم فنا ہوتے ہیں مگر نظریہ روح کی طرح دائمی سفر کرتا ہے۔ یہ روح شہادت کے خون سے قوت پاتی ہے، قربانی کے زخموں سے حرارت حاصل کرتی ہے اور جدوجہد کے عرق سے نئی زندگی کشید کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نظریہ کبھی جامد نہیں رہتا بلکہ ہر نسل کے شعور میں نئے رنگ اور نئی توانائی کے ساتھ زندہ ہوتا ہے۔تاریخ کا المیہ یہ ہے کہ اس نے خون سے لکھی گئی عبارتوں کو بارہا مٹانے کی کوشش کی، مگر تاریخ کا معجزہ یہ ہے کہ انہی عبارتوں نے ہر بار اور زیادہ وضاحت اور گہرائی کے ساتھ جنم لیا۔یہ تمام استعارے ایک دوسرے میں مدغم ہو کر ایک ایسا آئینہ بنا دیتے ہیں جس میں انسان اپنی آزادی کی تڑپ، اپنی مزاحمت کی طاقت اور اپنے وجود کی معنویت کو پہچانتا ہے۔ یہی آئینہ تاریخ کا سب سے روشن حوالہ ہے، جو انسان کو یاد دلاتا ہے کہ ظلم کے اندھیروں میں بھی مزاحمت کی روشنی بجھتی نہیں بلکہ اور تیز ہو جاتی ہے۔زبیر بلوچ ایک ایسا کردار ہیں جو وقت کی کہانی میں بار بار جنم لیتا ہے، کبھی ایک چراغ کی صورت، کبھی ایک صدا کی صورت، اور کبھی آزادی کے ارمان کی صورت، جس کی آنکھوں میں آزادی کا آسمان جگمگاتا ہے۔ زبیر بلوچ کا وجود اس سوال کا زندہ جواب ہے۔ انہوں نے جسمانی طور پر اپنے آپ کو قربان کر کے یہ ثابت کیا کہ بقا جسم میں نہیں بلکہ اس میراث میں ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مقبوضہ قوموں کے جہدکار، راہشون، ادیب، دانشور اور گوریلا مزاحمت کار تاریخ کے ان کرداروں میں شامل ہوتے ہیں جو مرنے کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں۔

وقت وہ ابدی طاقت ہے، وہ عظیم مورخ اور کہانی نویس، جو ہر وجود پر اپنی تحریریں ثبت کرتا ہے۔ یہ محض لمحوں کی گنتی نہیں، بلکہ انسانی کردار، جدوجہد اور قوموں کی قربانیوں کو دائمی داستانوں میں ڈھالتا ہے۔ بلوچ قومی آزادی کی تحریک بھی اسی ابدی داستان کا ایک باب ہے، جسے وقت نے شہداء کے خون اور جدوجہد کے شعور سے تحریر کیا ہے۔وقت کی کہانی کی تکمیل کے لیے بے شمار کردار ڈغار کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں، اور یہی حقیقت بلوچ قومی تحریک میں جھلکتی ہے۔ آزادی کا خواب کسی ایک فرد کا نہیں، بلکہ ایک پوری قوم کا اجتماعی بیانیہ ہوتا ہے۔ اس خواب کو پایہئ تکمیل تک پہنچانے کے لیے صرف ایک نسل نہیں، بلکہ کئی نسلیں اپنی قربانیاں دیتی ہیں۔ بلوچ شہداء وہی کردار ہیں جو تاریخ کے آسمان سے اترے تاکہ اس داستانِ آزادی کو مکمل کر سکیں۔وقت جب چہروں پر سزا اور جزا کی تحریریں لکھتا ہے تو کچھ کردار عبرت کی صورت محفوظ ہو جاتے ہیں، اور کچھ روشنی کے استعارے بن کر امر ہو جاتے ہیں۔ بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد میں بھی دو بیانیے نمایاں ہیں: ایک وہ جو جبر، غلامی اور ریاستی تشدد کی علامت ہیں اور تاریخ میں عبرت کے طور پر باقی رہیں گے؛ اور دوسرے وہ جو حق، قربانی اور مزاحمت کی علامت ہیں اور وقت نے انہیں روشنی کے استعارے بنا دیا ہے۔ شہداء کے چہرے انہی روشن استعاروں کا حصہ ہیں۔وقت کے پاس کہانیوں کا ایک لامتناہی ذخیرہ ہے۔ وہ ان کہانیوں کو چہروں پر لکھ کر ادھوری کتابوں کو مکمل کرتا ہے۔ بلوچ تحریک کی تاریخ بھی ابھی مکمل نہیں ہوئی؛ یہ مسلسل لکھے جانے والی کتاب ہے۔ ہر شہید، ہر اسیر، اور ہر جبری گمشدہ فرد اس کتاب کا ایک ورق ہے۔ ایک دن یہ تمام اوراق مل کر ایسی آفاقی داستان بنیں گے جسے دنیا آزادی کی سب سے بڑی کہانی کے طور پر یاد کرے گی۔وقت کہانی کار ضرور ہے، مگر ان کہانیوں کی اصل روح وہ شہداء ہیں جو اپنی قربانیوں سے تاریخ کو معنویت بخشتے ہیں۔ بلوچ قومی آزادی کی یہ داستان ابھی ادھوری ہے،
لیکن وقت اپنی کہانی نویسی جاری رکھے ہوئے ہے تاکہ اسے تکمیل تک پہنچا سکے

شہید زبیر بلوچ، جنہیں گزشتہ چند دن پہلے ایک جعلی انکاؤنٹر میں قابض ریاستی فورسز نے شہید کیا، سے میری زندگی میں کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔ اسے بدقسمتی کہیں کہ میں ان سے روبرو بات نہ کر سکا، ان کا ہاتھ نہ چوم سکا اور نہ ہی ان کی بیعت کر سکا۔ لیکن اس کے باوجود ان کے نظریات اور مزاحمتی خیالات سے جو آشنائی رہی، وہ یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ وہ محض ایک فرد نہیں تھے، بلکہ ایک فکری قوت اور نظریاتی استقامت کا نام تھے۔ ان کی سچائی، ایمانداری اور جرائت نے انہیں ایک ایسا کردار بنایا جو قابض کے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔ ریاستی اداروں نے زبیر بلوچ کی شہادت کو ’’جعلی انکاؤنٹر‘‘ کا رنگ دے کر ایک پرانا بیانیہ دہرایا۔ یہی بیانیہ ماضی میں ڈاکٹر منان بلوچ سمیت کئی بلوچ رہنماؤں اور کارکنوں کی شہادت پر بھی تراشا گیا۔ سوال یہ ہے کہ اگر وہ واقعی مسلح تھے تو ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کیوں نہ کی گئی؟ انہیں زندہ گرفتار کرنے کی کوشش کیوں نہ کی گئی؟ اور اگر وہ روپوش تھے تو ان کی سرگرمیاں، تقریریں اور عوامی فورمز پر ان کا کھلا موقف کہاں چھپایا جا سکتا ہے؟ زبیر بلوچ نہ روپوش تھے، نہ زیرِ زمین۔ وہ قابض کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر بات کرتے تھے۔ وہ ڈنکے کی چوٹ پر اپنا نظریہ بیان کرتے تھے۔ ان کا ہتھیار ان کا شعور اور ان کی جی دار آواز تھی۔ وہ جانتے تھے کہ قابض کے خلاف سب سے بڑی مزاحمت نظریاتی مزاحمت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریاست نے انہیں ختم کرنے کے لیے گولی کا سہارا لیا اور پھر جھوٹا بیانیہ تراش کر اپنی بربریت کو ” نام نہادقانونی کارروائی” کا لبادہ پہنانے کی کوشش کی۔

زبیر بلوچ کاسب سے بڑا ہتھیار ا ن کا سوال اٹھانے کی جرات تھی۔ وہ قابض کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر اپنی بات کرنے کا ہنر جانتے تھے۔ ان کی ایمانداری اور جرات نے انہیں ان لوگوں کی صف میں کھڑا کر دیا جو اپنی قوم کی آزادی کو ذاتی مصلحت پر قربان نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ ریاست کی نظر میں وہ کسی بھی "مسلح بیانیے ” سے زیادہ خطرناک تھے، کیونکہ فکر اور دلیل کی طاقت دیرپا اور کاری ضرب لگاتی ہے۔ ریاست کا جھوٹا بیانیہ دراصل اس خوف کا اظہار ہے کہ کہیں زبیر بلوچ جیسے لوگ عوامی ذہنیت میں یہ یقین نہ جگا دیں کہ غلامی مقدر نہیں، اور مزاحمت کوئی جرم نہیں بلکہ ایک تاریخی فریضہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مزاحمتی کرداروں کو صرف جسمانی طور پر مٹانے کی کوشش نہیں کی جاتی، بلکہ ان کی یادداشت، ان کے نظریات اور ان کی قربانی کے معنی کو بھی مسخ کرنے کی پالیسی اختیار کی جاتی ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ریاست کے مسلط کردہ جھوٹے بیانیے کو رد کرتے ہوئے سچ کو دستاویزی شکل دی جائے۔ زبیر بلوچ کی قربانی کو کسی ’’جعلی مقابلے‘‘ کی کہانی میں نہیں بلکہ مزاحمت کی جدلیات میں پڑھا جائے، کیونکہ سچ یہی ہے کہ وہ فرد نہیں بلکہ ایک نظریہ تھے، اور نظریے قتل نہیں ہوتے۔

زبیر بلوچ بلوچ تاریخ کا امر کردار جنہوں اپنی ذات کو ذاتی مفادات، خوف اور آرام کی جمودی سرحدوں سے نکال کر ایک عظیم قومی مقصد کے ساتھ جوڑ دیا وہ صرف زندگی کے حیاتیاتی تسلسل کے لیے سانس نہیں لیتے تھے بلکہ اپنی راج کے دکھ کو محسوس کرنے اور اس کے لیے قربانی
دینے کے لیے زندہ تھے۔ ان کا وجود فرد کی نفی اور قومی بقا کی اثباتی جدوجہد کا علامت تھا۔ زبیر بلوچ نے ہمارے لیے جو فکری میراث چھوڑی، اس میں غلامی اور جبر کے خلاف مزاحمت محض ایک سیاسی عمل نہیں بلکہ ایک لازمی اخلاقی ذمہ داری بن جاتی ہے۔ آزادی دراصل انسانی شرف اور وقار کا تسلسل ہے۔ ان کے نظریات اس حقیقت کو نمایاں کرتے ہیں کہ غلامی کے خلاف جدوجہد دراصل قوم کی شناخت، بقا اور تاریخی وجود کی جنگ ہے۔زبیر بلوچ اپنی تقریروں میں اس بات پر زور دیتے تھے کہ غلامی کو قبول کرنا نہ صرف سیاسی کمزوری بلکہ اخلاقی پستی بھی ہے۔ ان کے مطابق جمہوریت کے نقاب میں مسلط جبر کو بے نقاب کرنا ضروری ہے، کیونکہ خاموشی استحصالی ڈھانچوں کو دوام بخشتی ہے۔ قوم پر جبر کے سامنے خاموش رہنا، ان کے نزدیک، اپنی تاریخ، اپنی ثقافت اور آنے والی نسلوں سے غداری کے مترادف ہے۔ان کے نزدیک جدوجہد کا پہلا قدم خوف سے آزاد ہونا اور سوال اٹھانا ہے۔ زبیر بلوچ کی فکر میں غلامی کے نظام کو برقرار رکھنے کے لیے خوف کو بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے، جبکہ آزادی کی جدوجہدخوف کو توڑ کر شعور کو بیدار کرتی ہے۔ قابض ریاستی ڈھانچہ جمہوریت کا دعویٰ کرتا ہے لیکن حقیقت میں وہ جبر اور غلامی پر قائم ہے۔ یہ تضاد نوآبادیاتی ماڈل کی نئی شکل ہے، جہاں انتخاب اور نمائندگی کے پردے میں مقبوضہ قوموں کو ان کے آزادی کے حق سے محروم رکھا جاتا ہے۔زبیر بلوچ کا مؤقف تھا کہ حقیقی جمہوریت صرف اسی وقت ممکن ہے جب مقبوضہ قوموں کو اپنے مستقبل کے تعین کا حق دیا جائے۔ یہان ایک المیہ کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ بلوچ وطن میں کچھ بلوچیت میں چھپے کچھ باجگزار جماعتیں اور افراد بلوچ قوم کے غلامی درد اور قربانیوں کو پسِ پشت ڈال کر ریاستی بیانیے کی تقویت کا ذریعہ بنتی رہی ہیں۔ نیشنل پارٹی اس کی ایک واضح اور زندہ مثال ہے۔ یہ جماعت بلوچ قوم کی حقیقی قومی آزادی کی ترجمانی کرنے کے بجائے ہمیشہ ایک منفی اور مخالف کردار میں دکھائی دیتی ہے جو براہِ راست پنجابی ریاست کے مفادات کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔چیئرمین زبیر بلوچ کی شہادت ایک ایسا المیہ ہے جس نے بلوچ سماج کے ہر حساس فرد کو جھنجھوڑ ڈالا۔ لیکن اس کے بعد نیشنل پارٹی کی جانب سے جو بیانیہ جاری ہوا، وہ کسی طور بلوچ قومی وسیاسی شعور یا قومی موقف کی نمائندگی نہیں کرتا بلکہ صاف ظاہر کرتا ہے کہ وہ پنجابی استعمار کے محض پپٹ ہیں۔ خیر جان نے میڈیا پر زبیر جان کے بارے میں جو بیان جاری کیا وہ انتہائی غیر زمہ دار چاپلوسانہ
اور حقائق کے منافی تھے وہ صرف بلوچ قوم کی قربانیوں کی توہین ہے بلکہ شہداء کی جدوجہد کو مسخ کرنے کی ایک کوشش بھی ہے۔یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ بلوچیت محض نام یا دعوے کا نہیں بلکہ ایک پیمانے اور اصول کا تقاضا کرتی ہے۔ بلوچ وہی ہے جو اپنی زمین، اپنی قوم اور اپنے لوگوں کے ساتھ وفادار ہو۔ جو ریاستی جبر، استحصال اور نوآبادیاتی سیاست کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہو۔ لیکن نیشنل پارٹی اور اس کے ترجمان، بلوچ کہلانے کے باوجود، ہر اس مقام پر کھڑے نظر آتے ہیں جہاں سے بلوچ قوم کی جدوجہد کو کمزور اور ریاستی پروپیگنڈے کو تقویت ملتی ہے۔سیاسی طور پر دیکھا جائے تو نیشنل پارٹی جیسے گروہ دراصل استعمار کے لیے "سیاسی کور” فراہم کرتے ہیں۔ یہ پارٹیاں عوام کو جمہوریت، آئینی سیاست اور ترقی کے نام پر گمراہ کرتی ہیں، لیکن حقیقت میں وہ بلوچ قوم کو قومی آزادی اور خودمختاری سے دور رکھنے کا ایک حربہ ہیں۔ وہ بلوچ سماج میں کنفیوژن اور تقسیم پیدا کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں تاکہ اصل مزاحمتی بیانیہ کمزور ہو۔نیشنل پارٹی اور ان جیسے گروہ بلوچ سیاست کے دھوکے باز کردار ہیں۔ وہ بلوچ عوام کے نہیں بلکہ ریاستی طاقتوں کے نمائندے ہیں۔
ان کی سیاست کا انجام ہمیشہ بلوچ تحریک کو نقصان پہنچانا اور شہداء کے خون کو پامال کرنا رہا ہے۔ بلوچ قوم کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایسے کاسہ لیس گروہوں کو پہچانے، ان کے پروپیگنڈے کو رد کرے اور اپنی سیاسی صفوں کو ان ریاستی پپٹس سے پاک رکھے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نیشنل پارٹی اپنی وجود میں پنجابی ریاست کا سیاسی بازو اور بلوچ بیانیہ کے خلاف counter narrative Tool جو قابض ریاستی ڈھانچے کے کاسہ لیسی اور تابعداری کو اپنی بقا اور ترقی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ نیشنل پارٹی اسی صف کا نمایاں چہرہ ہے، جو بظاہر بلوچ قومیت کا دعویٰ کرتی ہے لیکن عملاً ریاستی بیانیے کی بازگشت کے سوا کچھ نہیں۔ نیشنل پارٹی کی سیاسی حیثیت "پنجابی استعمار کے پپٹ” کے طور پر عیاں ہوچکا ہے۔تاریخی طور پر نوآبادیاتی طاقتیں مقبوضہ اقوام میں ہمیشہ ایسے گروہوں کو فروغ دیتی رہی ہیں جو استعماری تسلط کو داخلی جواز فراہم کریں۔ ہندوستان میں انگریزوں نے "وفادار مقامی اشرافیہ” کو پیدا کیا تاکہ ہندوستان کی قومی تحریک کو تقسیم کیا جا سکے۔ بالکل اسی طرح آج بلوچستان میں نیشنل پارٹی جیسے گروہ وہی کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان کی سیاست دراصل مزاحمتی بیانیے کو کمزور کر کے ریاستی بیانیے کو بلوچ سماج میں "قابلِ قبول” بنانے کی کوشش ہے۔

شہید زبیر بلوچ جنہیں بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) نے اپنے حالیہ بیانیے میں قومی آزادی کا سپاہی قرار دیا۔ بی این ایم نے اس امر کا اعتراف کیا کہ زبیر بلوچ نے اپنی جوانی کے قیمتی ایام صرف طلبا سیاست تک محدود نہ رکھے بلکہ سیاسی و فکری ارتقا کے بعد اپنی وابستگی بی این ایم جیسے نظریاتی و قومی پلیٹ فارم کے ساتھ جوڑی۔بی این ایم کے بیانیے میں زبیر بلوچ کے اس وصیت کا ذکر نہایت اہمیت رکھتا ہے جس میں انہوں نے اپنی موت کے بعد اس حقیقت کو قوم کے سامنے لانے کی خواہش ظاہر کی کہ وہ پوری طرح آزادی کی سیاست اور نظریاتی جہد کے ساتھ وابستہ تھے۔ یہ وصیت دراصل زبیر بلوچ کے شعور، ان کے نظریاتی عزم اور اپنے قومی مشن پر یقین کامل کا آئینہ دار ہے۔ ان کی سوچ یہ پیغام دیتی ہے کہ فرد کی موت کوئی انجام نہیں بلکہ تحریک کے تسلسل کی ضمانت ہے۔بی این ایم نے زبیر بلوچ کی شہادت کو محض ایک انفرادی نقصان نہیں بلکہ قومی سانحہ قرار دیا اور اس کے لیے براہ راست پاکستانی ریاست کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت کا تسلسل ہے، جس کے تحت بلوچ تحریک کے بے شمار قائدین، دانشور اور کارکن ریاستی جبر و قتل و غارت کا نشانہ بنائے گئے۔زبیر بلوچ کی شہادت دراصل بلوچ قوم کی اس لازوال روایت کی تجدید ہے جو غلامی کے اندھیروں میں بھی چراغ جلانے سے باز نہیں آتی۔ یہ قربانی محض ایک فرد کی جان کا نذرانہ نہیں بلکہ ایک عہد کی پاسداری ہے کہ اس سرزمین کے فرزند اپنے وجود کی قیمت پر بھی قومی وقار اور آزادی کی راہ میں پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ ہر شہادت بلوچ تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کرتی ہے، قوموں کی زندگی صرف ان کے ماضی کے کارناموں سے قائم نہیں رہتی بلکہ وہ اپنے شہیدوں کے لہو سے اپنی بقا اور مستقبل کو جلا بخشتے ہیں۔ آزادی کے ہر شہید بلوچ قومی روح میں رچ بس کر ایک ایسی توانائی پیدا کرتا ہے جو دشمن کے ہر جبر سے زیادہ طاقتور ہے۔ یہی توانائی بلوچ قوم کو یاد دلاتی ہے کہ خاموشی اور تسلیم شعور کی موت ہے، اور مزاحمت ہی زندگی کی گواہی۔ زبیر بلوچ کی قربانی اس بات کا اعلان ہے کہ یہ قوم غلامی کے سائے میں کبھی سکون سے نہیں بیٹھے گی بلکہ ہر وار کے جواب میں ایک نئی قوت اور ایک نیا حوصلہ جنم لے گا۔یہی شہادتیں بلوچ قومی آزادی کو قریب تر لاتی ہیں۔ یہی قربانیاں تاریخ کوگواہ بناتی ہیں کہ بلوچ قوم ایک ایسی حقیقت ہے جسے نہ جھکایا جا سکتا ہے اور نہ مٹایا۔ زبیر بلوچ کا نام اس تسلسل کی علامت ہے جو ہر شہید کو ایک زندہ کارواں میں بدل دیتا ہے، اور یہ کارواں اپنی منزل تک پہنچ کر رہے گا۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

امریکا کا یوکرین کو روس میں طویل فاصلے کے حملوں کے لیے انٹیلی جنس دینے کا فیصلہ

جمعرات اکتوبر 2 , 2025
امریکی حکام نے فیصلہ کیا ہے کہ یوکرین کو روس کے اندر طویل فاصلے کے میزائل حملوں کے لیے انٹیلی جنس فراہم کی جائے گی، جس کے ذریعے ماسکو سمیت توانائی کے مراکز کو نشانہ بنایا جا سکے گا۔ امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق واشنگٹن اپنے نیٹو اتحادیوں […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ