شہید آغا خالد شاہ دلسوز کی پہلی برسی پر شال میں تعزیتی ریفرنس

شال میں بلوچ سادات کی جانب سے شہید آغا خالد شاہ دلسوز کی پہلی برسی کے موقع پر ایک تعزیتی ریفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ ریفرنس کی صدارت شہید آغا خالد شاہ دلسوز کی تصویر سے کی گئی اور شہداءٔ بلوچستان اور شہید آغا خالد شاہ دلسوز کی یاد میں دو منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔تعزیتی ریفرنس سے بی این پی کے سینئر نائب صدر، ایڈوکیٹ ساجد ترین؛ بلوچ قوم‌دوست بزرگ رہنما حکیم لہڑی؛ بلوچ زانت کار اور بی ایس او کے سابق مرکزی سیکریٹری جنرل سعید یوسف بلوچ؛ بی این پی کی ڈاکٹر عاصمہ بلوچ؛ بی ایس او کے مرکزی سیکریٹری جنرل صمد بلوچ؛ اور شہید آغا خالد شاہ دلسوز کی دختر، بی بی کائنات بلوچ نے خطاب کیا۔

مقرّرین نے شہید آغا خالد شاہ دلسوز کو ان کی وطن دوستی، سیاسی بصیرت اور قومی کردار کے حوالے سے خراجِ عقیدت پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ شہید آغا خالد شاہ دلسوز کا قتل کسی قبائلی دشمنی یا حادثے کا نتیجہ نہیں تھا، بلکہ اس کے پیچھے وہ قوتیں کارفرما تھیں جو بلوچ نسل کشی، جبری گمشدگیوں اور انسانی حقوق کی واضح خلاف ورزیوں میں ملوث ہیں۔

۔ساجد ترین ایڈوکیٹ نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہم نے ہمیشہ جمہوری اور پرامن جدوجہد کی ہے، مگر باوجودِ اس کے ہمیں لاشیں ملی ہیں۔ سردار عطاء اللہ مینگل کی برسی کے موقع پر ہمیں ایک درجن سے زائد سیاسی کارکنوں اور کیڈروں کی لاشیں دی گئی۔ ہم نے ہمیشہ آئین اور قانون کی پاسداری کی، پھر بھی ہمیں دیوار سے لگا دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قومی جدوجہد کے مختلف ذرائع ہیں اور پارلیمنٹ بھی ایک اہم جمہوری راستہ ہے، مگر اب ریاست نے ہمارے لیے پارلیمنٹ کا دروازہ خود بند کر دیا ہے۔ اس کے باوجود ہم بند گلی میں نہیں جانا چاہتے؛ ریاستی تشدد کے باوجود ہم جواب میں پرامن اور آئینی جدوجہد کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہم پرامن لوگ ہیں اور پرامن رہیں گے۔انہوں نے مزید کہا کہ لکھ پاس دھرنے اور شاہوانی اسٹیڈیم میں ہم پر دوہرے خودکش حملے کیے گئے۔ ہمیں معلوم ہے کہ یہ حملے ریاستی اداروں نے کیے، مگر انہیں داعش کا نام دیا گیا۔ ریاست کو چاہیے کہ وہ اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرے اور ان حملوں کو داعش کے ٹائٹل میں نہ چھپائے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ظلم و جبر کی ایک طویل فہرست ہے؛ آئے روز ریاستی ادارے بلوچستان کے لوگوں کو ماورائے عدالت قتل کرتے ہیں۔ ایسے بھی لوگوں کو جو روپوش نہیں اور نہ ہی پہاڑوں میں ہیں، ریاستی ادارے عدالتی ٹرائل کے بجائے قتل کر کے جعلی مقابلے کا ڈرامہ رچاتے ہیں۔

حکیم لہڑی نے ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں افسوس ہے کہ بی این پی اور نیشنل پارٹی اب بھی پارلیمانی سیاست کا نعرہ دے رہی ہیں؛ یہ نعرے بلوچ نوجوانوں کو اب گمراہ نہیں کر سکتے۔ بلوچ نوجوان باشعور ہو چکے ہیں اور خود اس وقت قیادت کر رہے ہیں۔ بلوچ سیاست اب نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہے؛ اس ۲۵ سالہ عرصے میں جنہوں نے مزاحمت میں آنکھ کھولی، وہ کسی جماعت سے دھوکہ نہیں کھائیں گے۔ انہوں نے پارلیمانی سیاست پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہماری شاندار مزاحمتی تاریخ ہے اور جدوجہد کے لیے پارلیمنٹ کا انتخاب اب بوسیدہ ہوگیا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم مزاحمت کی راہ اپنائیں تاکہ ہماری قومی وقار، تشخص اور شناخت محفوظ رہیں۔ شہداء کی جدوجہد اور قربانیاں ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں؛ غلامی کے اندھیروں سے نکلنے کا راستہ صرف شہداء کی راہ سے ممکن ہے۔حکیم لہڑی نے خبردار کیا کہ ریاست اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لیے بلوچستان کو مزید خون ریز بنا سکتی ہے اور مزید بلوچ فرزندوں کو شہید کر سکتی ہے۔ آئے روز ہم دیکھ رہے ہیں کہ بلوچستان ایک سخت اور تشویشناک کیفیت میں ہے، اور اس کا واحد جواب مزاحمت ہے۔

ریفرنس سے سعید یوسف بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہماری خمیر میں سوال کرنے کی جُرأت، ناانصافی اور جبر کے خلاف کھڑے ہونے کا حوصلہ، اور غلامی کو مسترد کرنے کا شعور شامل ہے۔ ہماری تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ہم کسی غاصب یا نوآبادیاتی قوت کے سامنے کبھی سجدہ ریز نہیں ہوئے، اور نہ ہی مستقبل میں بلوچ قوم کسی جابر کے سامنے جھکے گی۔ہمارے آبا و اجداد، ہماری تاریخ اور ہماری تہذیب نے ہمیں وراثت میں غلامی سے انکار کا درس دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ نیشنلزم کوئی بے جان عقیدہ نہیں بلکہ ایک منطقی اور سائنسی نظریہ ہے۔ کوئی بھی باایمان نیشنلسٹ اپنی زندگی کے آخری سانس تک اپنے نظریے سے دستبردار نہیں ہوتا، اور نہ ہی مرتد ہو کر کسی غاصب کے "دین” میں شامل ہوتا ہے۔مجھے فخر ہے کہ میں بلوچ نیشنلزم کا پیروکار ہوں۔ میرے لیے نیشنلزم، میری قومی وقار، وجود، اور بقاء کا واحد راستہ ہے۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ آج میں یہ سوال کرنے کا حق رکھتا ہوں کہ وہ کون سا اخلاقی یا سیاسی معیار ہے جس کی بنیاد پر کوئی طاقت ہم سے یہ توقع رکھے کہ ہم اپنی قومی شناخت، اپنے انسانی حقوق، اور اپنی قومی ذمہ داریوں سے دستبردار ہو جائیں کیا یہ ممکن ہے کہ ہم اپنا نام و نشان مٹتے دیکھ کر خاموش رہیں؟ یا اپنے سماج کو غیر موجود دیکھ کر ہکلاہٹ کا شکار ہوں اور تسلیم کر لیں کہ بلوچ نام کی کوئی قوم روئے زمین پر موجود ہی نہیں؟ — یقیناً یہ سوچ نہ صرف غیر منطقی ہے بلکہ غیر فطری بھی ہے۔
کوئی بھی باشعور قوم جس کی ہزاروں سالہ شاندار تاریخ ہو، سنہری تہذیبی ورثہ ہو، اور ایک وسیع و عریض جغرافیہ ہو کیا وہ کسی بیرونی قوت کے کہنے پر اپنے وجود سے دستبردار ہو سکتی ہے؟ یقیناً نہیں۔انہوں نے کہا: "یہ مطالبہ کہ ہم اپنی تاریخ، زبان، ثقافت اور سرزمین سے لاتعلقی اختیار کر لیں ۔ یہ نہ صرف سیاسی جبر ہے بلکہ نوآبادیاتی دیوالیہ پن کی انتہا ہے۔بلوچ قوم کو اپنی قومی سوال کے حوالے سے بات کرنے کا حق حاصل ہے۔ یہ وہ حق ہے جو نہ کوئی طاقت چھین سکتی ہے اور نہ کوئی مصلحت اسے دبانے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ خاموشی صرف جبر کو تقویت دیتی ہے، اور خاموشی ہی غلامی کا دوسرا نام ہے۔

سوال اٹھانا، بات کرنا یہ وہ شعور ہے جو ایک بلوچ ماں اپنی لوری میں دیتی ہے، جو ایک خلقی شاعر اپنے اشعار میں دہراتا ہے، جو ایک لکھاری اپنے قلم سے ابھارتا ہے، جو ایک بولنے والا اپنی زبان سے ادا کرتا ہے، اور جو ایک کماش یا ایک بزرگ اپنی داستانوں کے ذریعے نسلوں تک منتقل کرتا ہے۔آج کا بلوچ نوجوان کتاب بھی اٹھاتا ہے اور سوال بھی۔ وہ سوشل میڈیا پر بھی جدوجہد کرتا ہے اور عمل میں بھی۔ وہ جانتا ہے کہ قوموں کی تقدیر سوال، شعور، اور مسلسل جدوجہد سے ہی بدلی جاتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا:”یہ ایک تاریخی اور سیاسی حقیقت ہے کہ ہم اپنی زمین، اپنی شناخت اور اپنے مستقبل کے خود مالک ہیں۔ یہ جدوجہد ہم نے خون، پسینے اور قربانیوں سے جاری رکھی ہے۔ہم نے ہمیشہ اندھیروں کے مقابلے میں علم، فکر اور سیاسی شعور کی قندیلیں روشن کی ہیں۔ ہم نے سیاست کو ایک فکری، تہذیبی اور انسانی جدوجہد کے طور پر اپنایا ہے۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ بھی وہی سلوک ہو جو ایک مہذب دنیا میں کسی بھی قوم کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ہم وہی مطالبات کرتے ہیں جو کسی بھی قوم کو اس کے وسائل، زمین، اور مستقبل پر حاصل ہوتے ہیں۔
ہم یہ بھی باور کرانا چاہتے ہیں کہ ہم امن کے خواہاں ہیں، لیکن تسلط کو تسلیم نہیں کرتے۔ ہم ایسا امن چاہتے ہیں جو جبر، غلامی اور نوآبادیاتی سوچ پر مبنی نہ ہو، بلکہ انصاف، انسانی وقار اور انسانی آزادی پر مبنی ہو۔

انہوں نے مزید کہا کہ بلوچ قومی جدوجہد اب ایک وسیع تر فکری مزاحمت کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ بلوچ قومی مسئلہ صرف انسانی حقوق کا مسئلہ نہیں، بلکہ اس سے کہیں بلند تر — ایک ہمہ گیر قومی تحریک ہے۔ یہ جدوجہد سطحی یا محض پارلیمانی نہیں، بلکہ اس کی جڑیں بلوچ قوم کی تاریخ، جغرافیہ، ثقافت، زبان، اور قومی تشخص میں پیوست ہیں۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

زہری: متعدد علاقوں میں گولہ باری اور ڈرون حملوں سے نقصانات کی اطلاعات، فوج کا سات مسلح افراد کو مارنے کا دعویٰ

منگل ستمبر 30 , 2025
بلوچستان کے ضلع خضدار کی تحصیل زہری میں مسلسل پانچویں روز بھی کشیدگی برقرار ہے۔ پاکستانی فورسز کی جاری فوجی جارحیت کے حوالے سے عسکری حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ آپریشن کے دوران سات مسلح افراد جاں بحق اور دس زخمی ہوئے ہیں۔ فوج کے مطابق جائے وقوعہ سے […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ