
بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان جیئند بلوچ نے میڈیا کو بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ سرمچاروں نے سوراب، قلات، نوشکی، زہری اور خاران میں آٹھ کاروائیوں میں قابض پاکستانی فوج کو حملوں میں نشانہ بنایا، مرکزی شاہراہ کو کنٹرول میں لیکر اسنیپک چیکنگ کی اور زیر حراست تین آلہ کاروں کے سزائے موت پر عمل درآمد کرکے ہلاک کردیا۔
ترجمان نے کہا کہ بلوچ لبریشن آرمی کے سرمچاروں نے آج نوشکی میں بدل کاریز کراس پر ناکہ بندی قائم کرنے والے قابض پاکستانی فوج کے اہلکاروں کو مسلح حملے میں نشانہ بنایا، حملے میں قابض فوج کے دو اہلکار موقع پر ہلاک ہوگئے۔
انہوں نے کہا کہ بی ایل اے کے سرمچاروں نے 25 ستمبر کو نوشکی، غریب آباد میں قابض پاکستانی فوج کی نصب کردہ دو عدد جاسوس کیمروں کو نشانہ بناکر تباہ کردیا۔
بیان میں کہا گیا کہ بلوچ لبریشن آرمی کے سرمچاروں نے گذشتہ روز سوراب کے قریب خیسن دون کےمقام پر مرکزی شاہراہ پر ناکہ بندی کی جو دو گھنٹوں تک جاری رہا، سرمچاروں نے اس دوران اسنیپ چیکنگ جاری رکھی۔
انہوں نے کہا کہ بلوچ لبریشن آرمی کے سرمچاروں نے گذشتہ روز قلات کے علاقے خزینئی میں معدنیات لیجانے والی ایک گاڑی کو مسلح حملے میں نشانہ بناکر نقصان پہنچایا۔
ان کا کہنا تھا کہ سرمچاروں نے 26 ستمبر کو قلات کے علاقے زاوہ میں قابض پاکستانی فوج کو اس وقت گھات لگاکر حملے میں نشانہ بنایا جب وہ علاقے میں جارحیت کی غرض سے پیش قدمی کی کوشش کررہے تھے۔ حملے میں قابض فوج کو جانی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔
ترجمان نے کہا کہ بلوچ لبریشن آرمی کے سرمچاروں نے زہری میں کاروائی کے دوران غلام حسین ولد مہردل جتک سکنہ کوچو، زہری کو حراست میں لیا۔ دوران تفتیش غلام حسین نے اعتراف کیا کہ ایک سال سے قابض پاکستانی فوج کیلئے بطور مخبر کام کررہا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ آلہ کار غلام حسین نے اعتراف کیا کہ وہ گھروں پر چھاپوں و نوجوانوں کو جبری لاپتہ کرنے میں قابض فوج کی سہولت کاری میں ملوث رہا ہے۔ اس نے اعتراف کیا کہ وہ قادر اور ایوب کو جبری لاپتہ کرنے میں براہ راست ملوث رہا ہے جبکہ زہری میں گذشتہ دنوں قابض فوج کی جانب سے پیش قدمی میں سہولت کاری میں ملوث تھا، تاہم سرمچاروں کے حملے میں قابض فوج کو پسپائی اختیار کرنی پڑی تھی۔
انہوں نے کہا کہ آلہ کار نے انکشاف کیا کہ اس کے ساتھیوں نے قابض فوج کے زخمی اہلکاروں کو فوجی کیمپ منتقل کیا اور قابض فوج کے اہلکاروں کے لاشوں کو ڈھونڈنے میں بھی سہولت کاری کی۔ غلام حسین نے اعتراف کیا کہ اس نے زہری میں سرمچاروں کے ناکہ بندی کے مقام کا لوکیشن قابض فوج کو بھیجا۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ بلوچ لبریشن آرمی کے سرمچاروں نے خاران کے علاقے برشونکی سے قابض پاکستانی فوج کی تشکیل کردہ نام نہاد ڈیتھ اسکواڈ کے ٹھکانے سے آلہ کار دولت خان ولد مرید مری سکنہ کوہلو کو حراست میں لیا۔ دولت خان نے دوران تفتیش اعتراف کیا کہ وہ حافظ ممتاز کی سربراہی میں چلنے والے نام نہاد ڈیتھ اسکواڈ کا رکن ہے۔
انہوں نے کہا کہ آلہ کار دولت خان نے اعتراف کیا کہ وہ مذکورہ مسلح جھتے کے ہمراہ راستوں کی ناکہ بندی، نوجوانوں کو جبری لاپتہ کروانے میں ملوث رہا ہے۔ آلہ کار نے انکشاف کیا کہ اس جھتے کو قابض فوج نے زمینوں پر قبضے و شاہراہوں پر ڈکیتی کی کھلی چھوٹ دی تھی۔
بیان میں کہا گیا کہ بلوچ لبریشن آرمی کے سرمچاروں نے ایک اور کاروائی میں قلات میں اسحاق نیچاری ولد علی محمد سکنہ کوہک، منگچر کو حراست میں لیا۔ دوران تفتیش اسحاق نیچاری نے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ یوسف، جمیل، صدام سمیت دیگر افراد کو جبری لاپتہ کروانے اور گھروں پر چھاپوں میں وہ قابض پاکستانی فوج کی سہولت کاری میں براہ راست ملوث رہا ہے۔
آلہ کار اسحاق نیچاری نے اعتراف کیا کہ وہ قابض فوج کیلئے راستوں کی نشاندہی اور سہولت کاری میں بھی ملوث رہا ہے۔اعترافات کے بعد بلوچ قومی عدالت نے غلام حسین، دولت خان اور اسحاق نیچاری کو قومی غداری کا مرتکب قرار دے کر سزائے موت سنائی جس پر عمل درآمد کیا گیا۔
آخر میں کہا گیا کہ بلوچ لبریشن آرمی مذکورہ تمام کاروائیوں کی ذمہ داری قبول کرتی ہے۔ قابض پاکستانی فوج اور اس کے سہولت کاروں کے خلاف کارروائیاں جاری رہیں گی۔