
تحریر: ظریف رند
زرمبش مضمون
کارزارِ سیاست میں کئی قسم کے ساتھی ٹکرا جاتے ہیں۔ کچھ صرف لفظوں کے غازی ہوتے ہیں اور کچھ وہ ہوتے ہیں جو قول و فعل دونوں میں یکساں جھدکار ثابت ہوتے ہیں۔ آج کے اس زوال پذیر عہد میں قول و فعل کے جھدکار بہت کم رہ گئے ہیں۔ انہی معدود و نایاب شخصیات میں سے ایک ہمارے عظیم ساتھی شہید زبیر بلوچ تھے۔
میری ان سے پہلی ملاقات 2011 میں ہوئی۔ وہ اس وقت منڈی بہاؤالدین میں زیرِ تعلیم تھے اور میں لاہور میں پڑھ رہا تھا۔ ہم دونوں بی ایس او کے رکن تھے۔ زبیر نے مجھے بطور بی ایس او کے مرکزی رکن کے منڈی بہاؤالدین کے تنظیمی دورے کی دعوت دی اور میں وہاں پہنچ گیا۔ حیرت انگیز طور پر انہوں نے وہاں نہ صرف بلوچ طلبہ کو منظم کر رکھا تھا بلکہ صدیوں سے آباد مقامی بلوچ برادری کے ساتھ بھی مضبوط روابط قائم کر چکے تھے۔ انہی کے تعاون سے میرے قیام کا انتظام کیا گیا۔
رات بھر سیاسی مباحثے اور خوابوں کی گفتگو چلتی رہی۔ صبح ہم نے باضابطہ تنظیمی اجلاس منعقد کیا اور زون تشکیل پایا جس کے متفقہ آرگنائزر زبیر بلوچ منتخب ہوئے۔ اس کے بعد انہوں نے مجھے مقامی بلوچوں سے ملوایا، منڈی بہاؤالدین کا سیر کرایا اور کامریڈانہ گرمجوشی کے ساتھ وداع کیا۔ اس پہلی ملاقات نے ہی ان کی تنظیم کاری، مضبوط ربط اور بے لوث کمٹمنٹ کا نقش دل پر جما دیا۔
سیاسی سفر کے دوران ملاقاتیں تسلسل کے ساتھ ہوتی رہیں۔ کئی مواقع پر نظریاتی اختلاف بھی ہوئے مگر زبیر بلوچ ان لوگوں میں سے نہ تھے جو اختلاف کو ذاتیات میں ڈھالتے ہیں۔ ہر بار جب ملے، سر بلندی اور کامریڈشپ کے ساتھ ملے۔ نظریاتی راستے الگ ہونے کے باوجود تعلقات میں کبھی دراڑ نہ آنے دی۔
وقت گزرتا گیا اور وہ بلوچ طلبہ سیاست کے ایک توانا رہنما بن کر ابھرے۔ زبیر بلوچ نے نہ صرف طلبہ کو متحد کیا بلکہ رواداری، ایثار اور اصول پسندی کی ایسی مثال قائم کی جو آج بھی مشعلِ راہ ہے۔ وہ صرف الفاظ کے بازیگر نہیں تھے بلکہ عملی میدان میں بھی اپنی فکری قوت اور استقامت کا لوہا منوا چکے تھے۔ اپنے نظریے پر ڈٹ جانا اور اس کی عملی تصویر بننا ان کی شخصیت کا خاصہ تھا۔
گزشتہ روز دالبندین میں ریاستی فورسز نے انہیں ان کے ایک طالب علم ساتھی سمیت نشانہ بنا کر شہید کر دیا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ قتل نہیں کیے گئے، وہ امر ہو گئے۔ اپنے خون سے انہوں نے یہ ثابت کر دیا کہ نظریہ کاغذی کتابوں میں نہیں بلکہ جرات مند انسانوں کے دل و دماغ اور عمل میں زندہ رہتا ہے۔
شہید زبیر بلوچ نے اپنے سوگواروں کو صرف غم نہیں دیا بلکہ ایک ورثہ دیا ہے جو جرات، مزاحمت اور اصولوں پر ڈٹے رہنے کا ورثہ ہے۔ وہ تاریخ کے صفحات میں ایک عزم و استقلال کے چراغ کے طور پر زندہ رہیں گے۔
آج ہم انہیں سرخ سلام پیش کرتے ہیں۔
سلام اس شہید کو جس نے اپنی جوانی نظریے کے نام وقف کی، سلام اس ساتھی کو جو کارزارِ سیاست میں سرخرو ہوا۔