
تحریر: مہراج بلوچ
زرمبش مضمون
اقبال اور شعیب غنی دو چراغ، دو سچائی کے مسافر۔ یہ دونوں نوجوان صرف اپنی ذات کے لیے نہیں جیتے تھے، ان کے خواب آنے والی نسلوں کے لیے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ہمارے علاقے کے بچے کتاب سے دوستی کریں، علم کو اپنی پہچان بنائیں اور محرومی کے اندھیروں کو توڑ ڈالیں۔
اقبال ایک طالب علم تھا لیکن صرف کتاب کے صفحوں تک محدود نہیں تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ گریشہ جیسے پس منظر کے بچے بڑے خواب دیکھیں، وہ خواب جو ان کے لیے ناممکن سمجھے جاتے ہیں۔ اس کے دل میں یہ آرزو تھی کہ علم کو ہر گھر تک لے جائے تاکہ ہمارے دیہات کے بچے بھی بڑے بڑے اداروں تک پہنچ سکیں۔
شعیب غنی انیس سالہ ایک نوجوان، مگر دل میں پوری دھرتی کی صدیاں سمائے ہوئے۔ وہ سوچتا، وہ سوال کرتا، وہ اپنے علاقے کے زخموں کو دیکھتا اور ایک نئے کل کے خواب بنتا۔ لیکن ان خوابوں کا بوجھ اس کے دل پر اتنا بڑھ گیا کہ وہ ہم سے جدا ہو گیا۔ کتابوں کی محرومی، علم کی پیاس اور غلامی کی زنجیروں کا دباؤ ایک نوجواں دل کے لیے بہت بھاری تھا۔
ہم یہ نہیں کہیں گے کہ اسے کوئی حادثہ پیش آیا، یہ اصل میں وہی پردہ پوش طاقتیں تھیں جو ہمیشہ خواب دیکھنے والوں کے راستے میں دیواریں کھڑی کرتی ہیں۔ یہ وہی خاموش زنجیریں تھیں جنہوں نے ایک دل کو وقت سے پہلے توڑ دیا۔
یہ دونوں نوجوان بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کا حصہ تھے، وہ پلیٹ فارم جو اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ سب کے لیے ہے۔ یہ ایک ایسی سوچ ہے جو چاہتی ہے کہ ہر طالب علم کتاب سے محبت کرے، قلم سے روشنی پھیلائے اور آنے والی نسلیں جہالت کے اندھیروں میں نہ ڈوبیں۔ اقبال اور شعیب اسی سوچ کے سپاہی تھے۔
آج وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن ان کی جدوجہد ختم نہیں ہوئی۔ ان کے خواب، ان کی سوچ اور ان کا درد آج بھی ہر اس دل میں زندہ ہے جو علم اور آزادی کا خواہش مند ہے۔ ان کا جانا صرف ان کے خاندانوں کا دکھ نہیں بلکہ پورے معاشرے کی محرومی ہے۔
دل سوال کرتا ہے: کیا ایسے نوجوان پھر جنم لیں گے؟ کیا پھر سے کوئی اقبال اور شعیب پیدا ہوں گے جو اپنے قلم کو خوابوں کی مشعل بنائیں، جو کتاب سے دوستی کو حیات کا سب سے بڑا رشتہ مانیں؟
شاید وقت یہ جواب دے گا، لیکن آج ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان کے خوابوں کو حقیقت بنائیں۔ کیونکہ اگر ہم خاموش رہے تو آنے والی نسلیں یہی سوال کریں گی کہ اقبال اور شعیب ہم سے جدا کیوں ہوئے اور ہم نے کیا کیا؟