اسلام آباد کا خالی پن

تحریر: عزیز سنگھور
زرمبش مضمون

بالآخر اسلام آباد میں دھرنے کے 74 ویں روز بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین نے ایک پریس کانفرنس کے دوران اپنے طویل احتجاجی کیمپ کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔ اسلام آباد پریس کلب کے سامنے یہ اعلان محض ایک دھرنے کے اختتام کا نہیں تھا، بلکہ اس ریاستی بے حسی، جبر اور ظلم کی ایک تفصیل تھی جو گزشتہ دہائیوں سے بلوچستان کی سرزمین پر رقم ہو رہی ہے۔

لواحقین کا کہنا تھا کہ وہ 74 دنوں سے دارالحکومت میں پرامن احتجاج کر رہے تھے، لیکن اس عرصے میں انہیں انصاف دینے کے بجائے نفرت، تشدد اور بے حسی کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے مطابق بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، بیبرگ بلوچ، صبغت اللہ شاہ جی، گلزادی بلوچ اور بیبو بلوچ وہ حقیقی عوامی نمائندے ہیں جو انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں۔

اس احتجاجی کیمپ کے دوران سینئر بلوچ لکھاری محمد علی تالپور، ہیومن رائٹس کمیشن کی منیزہ جہانگیر، آمنہ مسعود جنجوعہ، ایمان مزاری اور دیگر شخصیات لواحقین کو دھرنا ختم کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتی رہیں۔ آخرکار انہی احباب کی درخواست پر لواحقین نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا، مگر ساتھ ہی یہ بھی واضح کر دیا کہ وہ اپنی جدوجہد کو نئے طریقوں سے جاری رکھیں گے۔

اسلام آباد کی تپتی زمین پر بیٹھے ہوئے چہرے صرف احتجاج نہیں کر رہے تھے بلکہ تاریخ لکھ رہے تھے۔ ان میں ایک تیسری جماعت کی طالبہ سیرت بلوچ بھی تھی، جو اپنے والد مہر گل مری کی بازیابی کے لیے شریک تھی۔ 2015 میں جب ان کے والد کو کوئٹہ سے اغوا کیا گیا، تب سے یہ معصوم بچی ہر دعا، ہر خواب اور ہر پکار میں باپ کو ڈھونڈ رہی ہے۔ جب اس کی عمر کے بچے امتحانات کی تیاری کر رہے تھے، سیرت ہاتھ میں پلے کارڈ اٹھائے پوچھ رہی تھی: "میرے بابا کہاں ہیں؟”

اسی احتجاج میں سنگت ماہ زیب بلوچ اپنے ماموں راشد بلوچ کے لیے آواز بلند کر رہی تھیں۔ دبئی سے تعلیم یافتہ راشد 2018 میں لاپتہ ہوئے اور کہا گیا کہ انہیں خفیہ طور پر پاکستان لایا گیا، جہاں سے وہ "غائب” کر دیے گئے۔ یہ گمشدگی ماہ زیب کی زندگی کا مرکزی سوال بن چکی ہے۔

سعدیہ بلوچ کے بھائی سلمان بلوچ کو نومبر 2022 میں کوئٹہ سے اٹھایا گیا، جبکہ سائرہ بلوچ کے بھائی آصف بلوچ اور کزن رشید بلوچ 2018 میں نوشکی سے لاپتہ ہوئے۔ یہی سائرہ اور سعدیہ 2024 میں خضدار میں وال چاکنگ کے دوران گرفتار ہوئیں مگر عوامی دباؤ پر چند گھنٹوں بعد رہا ہوئیں۔ سائرہ بلوچ نے فروری 2025 میں آسمہ بی بی کی بازیابی کے لیے خضدار دھرنے کی قیادت کی، جس نے بلوچ خواتین کو جدوجہد کی نئی صف میں لاکھڑا کیا۔

فاطی بلوچ کی زندگی 18 مئی 2020 کو بدل گئی، جب ان کے شوہر مٹا خان مری کو جبری طور پر لاپتہ کر دیا گیا۔ تین بچوں کے ساتھ تنہا رہ جانے والی فاطی بلوچ نے احتجاجی محاذ سنبھالا۔ وہ کوئٹہ سے اسلام آباد تک، ماما قدیر کے کیمپ سے لے کر دالبندین جلسے تک ہر احتجاج میں شریک رہیں۔ روزگار کھویا، جیلیں کاٹیں، لیکن اپنے شوہر کی بازیابی کے لیے ڈٹی رہیں۔

مستونگ کی لمہ زرگل نے اپنے کئی بیٹوں کو کھو دیا۔ میر محمد 2009 میں قتل ہوا، ریاض احمد 2012 میں ریاستی جبر کا نشانہ بنا، وحید احمد کو دو بار اغوا کیا گیا، اور سعید احمد 2013 سے لاپتہ ہیں۔ کمسن بیٹی شبانہ بھائی کی گمشدگی کے غم میں دنیا سے رخصت ہو گئی۔ لمہ زرگل 2021 کے ڈی چوک احتجاج سے لے کر 2025 کے دالبندین جلسے تک ہر جدوجہد کی صفِ اول میں رہیں۔

قلات کی لمہ شاہ بی بی کی جدوجہد 2004 میں شروع ہوئی، جب ان کے بھائی غفار لانگو بارہا لاپتہ کیے گئے۔ 2011 میں ان کی لاش ملی۔ اس کے بعد 2024 میں ان کے اکلوتے بیٹے محمود بلوچ کو بھی جبری طور پر لاپتہ کر دیا گیا۔ ایک اسکول ٹیچر اور تین بچوں کی ماں ہونے کے باوجود وہ مسلسل احتجاجی صف میں موجود ہیں۔

مستونگ کی اماں ماہ پری کے بیٹے نہال خان مری کو 2015 میں لاپتہ کیا گیا۔ شوہر 2025 میں اسی صدمے میں وفات پا گئے۔ وہ آج اپنے نواسے کے ساتھ احتجاج میں شریک رہتی ہیں، اس خوف کے باوجود کہ شاید وہ بھی باپ کی طرح لاپتہ نہ ہو جائے۔

کوئٹہ کی مکہ بی بی کا بیٹا شاہنواز بلوچ 2014 میں بابا مری کی قبر پر دعا کے دوران لاپتہ ہوا۔ بیوہ اور چار بچوں کی ماں ہونے کے باوجود انہوں نے ہمت نہ ہاری۔ 2023 کے لانگ مارچ اور 2024 کے گوادر اجتماع میں صفِ اول میں رہیں۔

آواران کی سیماء بلوچ کے بھائی شبیر بلوچ 2016 میں لاپتہ ہوئے۔ اسی دن انہوں نے جدوجہد کا راستہ چنا۔ کوئٹہ، کراچی، اسلام آباد ہر احتجاج میں شریک رہیں۔ بھوک ہڑتالیں کیں، گرفتاریوں کا سامنا کیا اور ڈی چوک تک پہنچیں۔ آج بھی وہ اپنے بھائی کی بازیابی کے لیے سراپا احتجاج ہیں۔

کیچ کی سمرین بلوچ کے بھائی جیئند بلوچ، جو تربت یونیورسٹی میں لاء کے طالبعلم تھے، 25 مئی 2025 کو فورسز کے ہاتھوں لاپتہ ہوئے۔ ان کی بہن آج اسلام آباد سے تربت تک احتجاج میں سوال دہرا رہی ہے: "میرا بھائی کہاں ہے؟”

یہ تمام کہانیاں بلوچستان کی ان ہزاروں عورتوں کی نمائندہ ہیں جنہوں نے اپنے ذاتی دکھ کو اجتماعی جدوجہد میں بدل دیا۔ وہ مائیں جو اپنے بیٹوں کو ڈھونڈ رہی ہیں، وہ بیٹیاں جو باپ کے انتظار میں ہیں، وہ بہنیں جو بھائی کی واپسی کے لیے سراپا احتجاج ہیں۔ یہ سب ایک ہی سوال پوچھ رہی ہیں۔

جب تک یہ سوال زندہ ہے، جب تک سیرت بلوچ امتحان چھوڑ کر احتجاج میں بیٹھی ہے، جب تک سائرہ بلوچ دھرنوں کی قیادت کر رہی ہے، جب تک فاطی بلوچ اور لمہ زرگل ریاستی جبر کے سامنے کھڑی ہیں، تب تک بلوچستان کی جدوجہد کو خاموش نہیں کیا جا سکتا۔ یہ خواتین صرف مظلوم نہیں رہیں، بلکہ تاریخ کے صفحات میں مزاحمت کی علامت بن چکی ہیں۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

زہری میں پیشقدمی کرنے والے قابض فوج کے 15 اہلکار ہلاک، پسپا کر کے پیچھے دھکیلا گیا – بی ایل اے

ہفتہ ستمبر 27 , 2025
بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان جیئند بلوچ نے میڈیا کو بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ سرمچاروں نے زہری کے علاقوں انجیرہ اور گزان میں پیش قدمی کرنے والے قابض پاکستانی فوج کو شدید حملوں میں نشانہ بنایا۔ گذشتہ روز قابض فوج کے دس گاڑیوں پر مشتمل قافلے کو […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ