ماس میڈیا، سوشل میڈیا اور ماڈل آف نوم جومسکی

تحریر؛ دودا بلوچ – تیسرا قسط
زرمبش مضمون

ریاستیں کس طرح میڈیا کو کنٹرول کرتے ہیں اسکو جانتے کیلئے ہمیں نوم جومسکی کی دی ہوا ماڈل آف پروپگنڈا کو جانا ضروری ہے۔
روایتی میڈیا اور سوشل میڈیا کی پروپیگنڈا کہ بارے
نوم چومسکی اور ایڈورڈ ہرمن پروپیگنڈا ماڈل اور میڈیا کے کردار کے بارے میں
اپنی کتاب Manufacturing Consent The Political Economy of the Mass Media میں یہ مؤقف پیش کرتے ہیں کہ جدید ریاستوں میں میڈیا کا کردار محض غیر جانب دار اطلاعات فراہم کرنا نہیں بلکہ طاقتور طبقات ریاستی اداروں اور بڑی کارپوریشنز کے مفادات کے مطابق بیانیہ تخلیق کرنا ہے۔ ان کے نزدیک میڈیا کا بنیادی فریضہ "عوامی رائے کو ہموار کرنا” (manufacture consent) ہے تاکہ عوام حکومتی پالیسیوں اور سرمایہ دارانہ مفادات کو بغیر سوال کے تسلیم کر لیں۔

چومسکی کے مطابق میڈیا ایک پروپیگنڈا نظام کے تحت کام کرتا ہے جسے وہ پانچ فلٹرز (Filters) کے ذریعے بیان کرتے ہیں۔

  1. میڈیا میں ملکیت (Media Ownership)
    میڈیا کی ملکیت کے ڈھانچے کا براہِ راست اثر اس کے بیانیے اور پالیسیوں پر پڑتا ہے۔ چومسکی کے مطابق میڈیا کی ملکیت تین بنیادی صورتوں میں پائی جاتی ہیں۔

پہلا فلٹر کو ریاستی ملکیت (State Ownership) کہتے ہیں

ریاستی میڈیا ریاست اور حکومت کے کنٹرول میں ہوتا ہے۔ خبروں اور تجزیوں میں ریاستی پالیسیوں کی تائید کی جاتی ہے، جبکہ مخالف آوازوں کو دبا دیا جاتا ہے۔ آمرانہ یا مقبوضہ ریاستوں میں سرکاری میڈیا اس کی نمایاں مثال ہے ۔

. کارپوریٹ ملکیت (Corporate
‏(Ownership
بڑے سرمایہ دار ادارے اور کاروباری گروہ میڈیا کو کنٹرول کرتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ مفادات اور اشتہاری انحصار خبر سازی پر اثر انداز ہوتے ہیں جس سے آزاد صحافت محدود ہو جاتی ہے۔

مخلوط ملکیت (Mixed Ownership)
جمہوری ریاستوں میں عام طور پر میڈیا سرکاری اور نجی اداروں کے امتزاج پر مشتمل ہوتا ہے۔ تاہم یہاں بھی طاقتور گروہ بیانیہ سازی پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ جدید سوشل میڈیا پلیٹ فارمز (جیسے فیس بک، یوٹیوب اور ٹوئٹر/X) کارپوریٹ ملکیت کی شکلیں ہیں۔

دوسرا اشتہارات (Mass Media Advertising) کہتے ہیں

چومسکی کے مطابق میڈیا اداروں کی سب سے بڑی آمدنی کا ذریعہ اشتہارات ہیں۔ جتنا زیادہ میڈیا اشتہارات پر انحصار کرے گا، اتنا ہی اس کی آزادی محدود ہو گی۔ اشتہاری کمپنیاں اپنے معاشی مفادات کی بنیاد پر میڈیا پر دباؤ ڈالتی ہیں جس کے نتیجے میں
وہ خبریں اور پروگرام نشر ہوتے ہیں جو اشتہاری کمپنیوں کو نقصان نہ پہنچائیں۔
سرمایہ دار اداروں کے خلاف تنقیدی رپورٹنگ کم یا بالکل غائب ہو جاتی ہے۔ اور اسی طرح مقبوضہ اور جنگ زاد علاقے میں بھی میڈیا کی خبریں اور رپورٹ غائب ہوجاتے ہیں ۔

تاکہ مقبوضہ علاقوں میں عوامی حمایت کو کم کیا جائے اگر ہم بلوچستان کی مثال لیں تو بلوچستان کے اندر روزانہ کی بنیاد پر آپریشن جبری گمشدگیاں جیسے سنگین جرائم ہورہے ہیں ان کو رپورٹ کرنے کے بجائے میڈیا لاہور اور ملتان میں پنجابی کی جوتی اور کتا گم ہونے کی خبر چلاتا ہے لیکن بلوچستان کے احتجاجی مظاہروں کی نہیں۔

تیسرا فلٹر کو سورسنگ (Sourcing) کہتے ہیں

"سورسنگ” سے مراد یہ ہے کہ میڈیا اپنی خبروں اور معلومات کے لیے کن ذرائع پر انحصار کرتا ہے۔
زیادہ تر بڑے میڈیا ادارے اپنی خبریں براہِ راست حکومت، فوج، پولیس، بڑی کارپوریشنز یا طاقتور اداروں کے ترجمانوں اور پریس ریلیزز سے لیتے ہیں۔

پروپیگنڈا میں سورسنگ کا کردار
ماس میڈیا اور سوشل میڈیا میں اطلاعات کے بنیادی ذرائع زیادہ تر حکومت کے آفیشل بیانات اور پریس ریلیزز ہوتے ہیں، جنہیں بڑھا چڑھا کر عوام کے سامنے پیش کیا جاتا ہے عوام کو وہی دکھایا جاتا ہے جو طاقتور ادارے چاہتے ہیں اور سورسنگ میں اکثر عوام سے سچ چھپایا جاتا ہے ۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جب جعفر ایکسپریس پر بلوچ سرمچاروں نے حملہ کیا اور 300 سے زیادہ فوجیوں کو یرغمال بنایا ۔جو کہ دنیا کی دوسری بڑی ہائی جیکنگ شمار ہوتی ہے۔ اس وقت پاکستان کے mass media نے بلوچستان کو مکمل طور پر بلیک آؤٹ کردیا۔ حالانکہ انٹرنیشنل میڈیا رپورٹ کر رہا تھا کہ ٹرین میں فوجی سوار ہیں اور فوجیوں کو پرغمال بنایا گیا ہے

لیکن پاکستانی mass media کے ذرائع یہ دعویٰ کرتے رہے کہ ٹرین میں عام عوام اور مسافر سوار ہیں دوسری طرف جب بلوچ سرمچار عورتوں اور بچوں کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رہا کرتے ہیں اور یہ خبر پورے سوشل میڈیا پر پھیل جاتی ہے کہ بلوچ سرمچار نے انسان ہمدردی کی بنیاد پر عورتوں اوربچوں کو رہاکر دیا ہے تو پاکستانی mass media اسے فلٹر کرنے کے لیے ایک الگ رنگ میں پیش کرتا ہے۔ مثال کے طور پر چند مخصوص لوگوں کے انٹرویو نشر کیے جاتے ہیں جن میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ عورتوں اور بچوں کو پاکستانی فوج نے بچایا۔ یہی وہ خبریں ہیں جنہیں نوم چومسکی "سورسنگ” کہتا ہے، یعنی میڈیا وہی رپورٹ کرتا ہے جو طاقتور ادارے کہتے ہیں۔

چوتھا فلٹر کو (فلیک Flak) کہتے ہیں

میڈیا کے چوتھے فلٹر کو نوم چومسکی "Flak” کہتا ہے۔ Flak سے مراد ہے ایسی کوئی خبر یا رپورٹ جو طاقتور اداروں کے خلاف ہو اور جو انہیں پسند نہ ہو یا ایسی رپورٹیں جنہیں وہ mass media میں آنے نہیں دینا چاہتے ہیں ۔ اگر کوئی خبر آگیا ہے یا میڈیا چینل ایسی خبر نشر کرے تو اسے عام طور پر قانونی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسے مقدمات لائسنس کی منسوخی ٹیکس کیسز مالی دباؤ، اشتہارات بند ہونا یا فنڈنگ روک دی جاتا ہے

فلیک کا میڈیا اور سوشل میڈیا پر ایک اور کردار بھی ہے وہ یہ ہے کہ جنگ زدہ علاقوں کی خبریں دبانا۔ اگر کوئی خبر نیشنل یا انٹرنیشنل میڈیا تک پہنچ بھی جائے تو اسے فلٹر کرکے ایک نیا رنگ دے دینا جو خبر پہلی والے تین فلیٹر نہیں روک سکے وہ کام اب فلیک کرتا ہے ۔ بلوچستان میں اس کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔

مثال کے طور پر، اگر بلوچستان میں بلوچ سرمچار بسوں سے فوجی اتار کر مار دیتے ہیں اور یہ خبر سوشل میڈیا پر پھیل جاتی ہے تو mass media میں flak کا یہ کام ہو۔

یہ کام ہوتا ہے اس خبر کو روکنا اور ایک الگ بیانیہ تشکیل دینا ہے کہ وہ فوجی نہیں بلکہ پنجابی مزدور تھے جنہیں صرف پنجابی ہونے کی بنیاد پر قتل کیا گیا۔ اس طرح Flak عوام تک یہ خبر پہنچاتا ہے اور سوشل میڈیا کے بیانیہ کو تبدیل کیا جاتا ہے۔
اسی طرح جب دنیا یہ تسلیم کر چکی ہے کہ بلوچستان میں جبری گمشدگی جیسے سنگین جرائم ہورہے ہیں، تو پاکستانی mass media اور سوشل میڈیا اس بات کو فلٹر کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جبری گمشدہ افراد دہشتگرد تنظیموں کا حصہ ہیں یا دہشتگردی میں ملوث ہیں۔

پانچواں فلٹر کو نظریاتی دشمن (Ideological Enemy) کہتے ہیں۔

پروپیگنڈا ماڈل کا پانچواں اور آخری فلٹر ideological enemy ہے۔ اس سے مراد میڈیا میں ایک خاص نظریاتی دشمن تراشنا تاکہ عوام کو متحد رکھا جا سکے۔ اس کے ساتھ عوام کے دل و دماغ میں ایک ڈر بیٹھا دیا جائے تاکہ طاقتور طبقہ اپنی پالیسیوں کو جائز ثابت کر سکے۔ عوام خوف میں آ کر ریاست یا طاقتور اداروں کی پالیسیوں کو بغیر سوال کیے قبول کر لیتے ہیں۔

امریکہ نے سرد جنگ (Cold War) کے زمانے میں کمیونزم کو ایک مشترکہ دشمن قرار دیا اور افغانستان میں القاعدہ اور طالبان کو عراق میں ڈکٹیٹر صدام حیسن کو ایران میں ولایت فقھی کو اپنی وجود کیلئے خطرہ قرار دے کر سالوں تک جنگ کیا اور ایران پر معاشی پابندیاں عائد جو تا ہنوز جاری ہیں ہٹلر نے یہودیوں کو اپنا مشترکہ دشمن قرار دیکر ان کا ہولوکاکیا۔

اسی طرح مسلمان اور یہودی ایک دوسرے کو مشترکہ دشمن سمجھتے ہیں حالانکہ دونوں خدائی مذاہب اور ان کے پیغمبروں کے پیروکار ہیں۔

انڈیا کیلے پاکستان ایک مشترکہ دشمن ہے اس لیے انڈین mass media پاکستان کو ہمیشہ دشمن کے طور پر پیش کرتا ہے۔ جہاں انڈیا میڈیا اوپر دیئے گئے پانچوں فلٹرز کو پاکستان کے خلاف استعمال کرتا ہے
اسکی ایک مثال انڈیں فلمیں ہیں جہاں انڈین ہر فلم میں پاکستان بطور دشمن رول پلے کرتا ہے۔

پاکستان کے لیے انڈیا ان کا باہمی دشمن ہے پاکستانی mass media انڈیا کو مسلم دشمن قرار دیتا ہے اور اپنی عوام کو یہ باور کراتا ہے کہ پاکستان کی وجود کا مطلب ہے لا الہ الا اللہ پاکستان کی سلامتی اسلام کی سلامتی ہیں ساتھ ہی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے عوام کے دل میں یہ خوف بٹھا دیا ہے کہ اگر وہ (فوج ریاست) نہ ہو تو انڈیا پاکستان کو تباہ و برباد کر دے گا
اسی طرح پاکستان بلوچ تحریک کو بھی ایک باہمی دشمن کے طور پر دیکھتا ہے۔ بلوچستان میں جاری تحریک کو "انڈیا کا ایجنڈا” قرار دیتا ہے اور وہاں ہونے والی نسل کشی اور جبری گمشدگیاں جیسے سنگین جرائم کو یہ کہہ کر جائز ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یہ انڈیا کے ایجنٹ ہیں اور انڈیا انکی مدر کررہا ہے انڈیا انکو فنڈز وغیرہ دیتا ہے فتنت الہندوستان” کہہ کر عوامی جذبات کو استعمال کرتا ہے جتنا وہ انڈیا سے نفرت کرتے ہیں اتنا نفرت بلوچوں سے کریں۔ آج پنجاب کے اندر عام عوام بھارت کے ساتھ ساتھ بلوچوں کو مشترکہ دشمن کے طور پر دیکھتے ہیں اور بلوچوں کی قوت اور طاقت کو اپنی لئے خطرہ سمجھتے ہیں۔

نوم جومسکی
یوں یہ پانچوں فلٹرز مل کر اس جدید دور میں میڈیا کو ایک ایسا نظام بنا دیتے ہیں جو بظاہر "آزاد” دکھائی دیتا ہے مگر دراصل طاقتور طبقے کے مفادات کے مطابق بیانیہ تیار کرتا ہے۔ اس کی کنٹرول حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہوتا ہے، خاص طور پر جنگ زدہ علاقوں اور وہاں جہاں قومی تحریکیں جاری ہیں۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

اسلام آباد کا خالی پن

ہفتہ ستمبر 27 , 2025
تحریر: عزیز سنگھورزرمبش مضمون بالآخر اسلام آباد میں دھرنے کے 74 ویں روز بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین نے ایک پریس کانفرنس کے دوران اپنے طویل احتجاجی کیمپ کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔ اسلام آباد پریس کلب کے سامنے یہ اعلان محض ایک دھرنے کے اختتام کا نہیں تھا، […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ